اصل چہرہ

یہ ایک دلدوز منظر تھا۔ اتنا دل دوز کہ دیکھنے والے کا کلیجہ باہر آنے لگتا تھا۔
وہ چار تھے۔ تن پر صرف پتلون نما چیتھڑے تھے۔ ہر ایک کی کمر کے گرد رسی تھی۔ رسی کا دوسرا سرا سامنے کھڑی گاڑی سے بندھا تھا۔ پہلے انہیں بھارتی ریاست کے قصبے اونا کی گلیوں میں پھرایا گیا۔ پھر ایک ایک اونچی ذات کا ہندو آتا اور لکڑی کے بہت چوڑے ڈنڈے کے ساتھ ان کے پیچھے ضرب لگاتا۔ ایک آیا۔ پھر دوسرا‘ پھر تیسرا‘ پھر چوتھا۔ وہ مار کھا کھا کر گر جاتے۔ پھر انہیں اٹھایا جاتا‘ اور مزید افراد آ کر مارتے۔
یہ دلت تھے۔ اچھوت۔ ان کا قصور یہ تھا کہ وہ ایک مری ہوئی گائے کی کھال اتار رہے تھے۔ گائے پہلے سے مری ہوئی تھی۔ ان پر الزام لگا کہ انہوں نے گائے کو مارا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ مرے ہوئے جانوروں کی کھال اتارنا ان کا پیشہ ہے۔ یہ لوگ صدیوں سے یہی کام کر رہے ہیں۔ مگر مودی کے گجرات میں ہندو دھرم اپنی نئی آفتوں کے ساتھ زور پکڑ رہا ہے۔ ''گائے بچائو‘‘ جتھے بنے ہوئے ہیں جو شہروں‘ قصبوں اور بستیوں میں گشت کرتے ہیں۔ شائبہ بھی پڑ جائے تو بغیر تحقیق یا تفتیش کیے‘ ''مجرموں‘‘ کو سزا دینا شروع کر دیتے ہیں۔
مگرگجرات کے اچھوتوں نے ہڑتال کر دی۔ انہوں نے بہت سے مردار سرکاری دفتروں کے آگے ڈال دیے اور کہا کہ گائے تمہاری ماں ہے‘ خود سنبھالو۔ سینکڑوں ہزاروں مردہ جانور پڑے پڑے گلنے سڑنے لگے۔ پھر حکومتی کارندوں نے چمار خاندانوں کی منتیں کیں۔ مگر شیوسینا کے مار دھاڑ کرنے والے جتھوں کو کچھ نہ کہا گیا۔ یہ سب مودی کے چہیتے ہیں۔
اُتر کھنڈ بھارتی پنجاب کے مشرق میں واقع ہے۔ چند دن پہلے وہاں گندم پیسنے کی چکی میں ایک اچھوت سوہن رام کی گندم پیسی جا رہی تھی۔ اوپر سے ماسٹر للت آ گیا۔ وہ اونچی ذات کا تھا۔ اس نے سوہن رام کو گالیاں دینا شروع کر دیں کہ چکّی کو پلید کر دیا۔ سوہن رام نے احتجاج کیا۔ ماسٹر للت کے ہاتھ میں تیز دھار درانتی تھی۔ اس نے سوہن رام کی گردن پر زور سے چلا دی۔ سوہن رام وہیں مر گیا۔
یہ صرف دو واقعات ہیں۔ بھارت میں ہر روز ایسے سینکڑوں واقعات رونما ہوتے ہیں۔ اچھوتوں کی آبادی بھارت کی کل آبادی کا سولہ فیصد ہے یعنی تقریباً سترہ کروڑ! مگر قیاس یہ ہے کہ حکومتی مشینری یہ تعداد کم سے کم بتاتی ہے۔ گمان غالب یہ ہے کہ اچھوت بائیس اور پچیس کروڑ کے درمیان ضرور ہوں گے یعنی بیس فیصد۔ ان کے حقوق کوئی نہیں۔ صرف فرائض ہیں۔ بھارت میں آبادی کی اکثریت کے گھروں میں بیت الخلا کا رواج نہیں۔ بستیوں کے اردگرد جب غلاظت کے انبار آخری حدوں کو چھونے لگتے ہیں تو اچھوت انہیں ٹھکانے لگاتے ہیں۔ گلیاں صاب کرتے ہیں۔ مردہ جانوروں کی انتڑیاں سنبھالتے ہیں۔ کھالیں اتارتے ہیں۔ ہر گندا اور گھٹیا کام کرتے ہیں۔ پچانوے فیصد سے زیادہ اچھوت مکمل ان پڑھ ہیں۔ یہ فیصلہ صرف اونچی ذات کے ہندو کرتے ہیں کہ اچھوت کون کون سے کام کریں گے اور کون کون سے نہیں کریں گے۔ کہاں رہیں گے‘ کس کس کو پانی پکڑا سکتے ہیں؟ کس کس کے ساتھ کھانا کھا سکتے ہیں‘ شادیاں کہاں کہاں اور کس کس کے ساتھ کر سکتے ہیں۔ غرض ان کی زندگی کا ایک ایک لمحہ اونچی ذات کے ہندوئوں کے ہاتھ میں ہے۔
بھارت ذات پات کے مکروہ نظام میں سر سے پائوں تک جکڑا ہوتا ہے۔ ہندو عقیدے کے مطابق دیوتائوں کے مُونہہ سے برہمن نکلے۔ بازوئوں سے لشکری اور بادشاہ برآمد ہوئے۔ رانوں سے تاجر اور کسان نکلے۔ رہے شودر تو انہوں نے پائوں سے جنم لیا۔ منوں کی تعلیمات آج بھی بھارتی یونیورسٹیوں میں سنسکرت کی ڈگری کورس کا حصہ ہیں۔ ان تعلیمات کے مطابق اچھوت‘ سابق زندگی کے گناہوں کی سزا بھگت رہے ہیں۔ پڑھنا لکھنا بھی جرائم میں شامل ہے۔ اونچی ذات کے کسی ہندو کی توہین کی سزا درد ناک اور اذیت ناک موت ہے۔ اونچی ذات کے ہندو جو چاہیں اچھوتوں کے ساتھ کریں‘ پولیس مداخلت نہیں کرتی۔
مودی کا گجرات صوبہ‘ جسے مثالی صوبہ کہا جاتا ہے‘ اس ضمن میں بدترین ریکارڈ رکھتا ہے۔ پورے بھارت میں اگر کہیں خوفناک ترین سلوک اچھوتوں کے ساتھ روا رکھا جا رہا ہے تو وہ گجرات ہے۔
جس ملک کی بیس فیصد آبادی اچھوتوں پر مشتمل ہو اور وہ ترقی کے دائرے سے ہر امکانی حد تک باہر ہوں‘ وہ ملک حقیقت میں کبھی ترقی نہیں کر سکتا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ چالاک بھارت نے اپنے چہرے کا یہ ڈرائونا حصّہ دنیا سے چھپایا ہوا ہے۔ سکارف باندھنے والی عورتوں کے غم میں دُبلے ہونے والے مغربی ملکوں کے لوگ اس حقیقت سے بے خبر ہیں کہ بھارت میں بیس کروڑ افراد جانوروں سے بدتر زندگی گزار رہے ہیں اور ان کی اکثریت انسانی غلاظت کو ہاتھوں سے صاف کر رہی ہے۔
کیا پاکستان اس ضمن میں اپنا کردار ادا کر رہا ہے؟ نہیں! پاکستان پر لازم ہے کہ ظلم کی چکی میں پسنے والے آدم کے ان بیٹوں کی دستگیری کرے اور دنیا کو آگاہ کرے کہ آئی ٹی میں ترقی کے دعوے کرنے والی دنیا کی یہ سب سے بڑی ''جمہوریت‘‘ اپنے بیس بائیس کروڑ لوگوں کے ساتھ کیا کر رہی ہے۔ کس طرح ان کے ساتھ غیر انسانی سلوک روا رکھا جا رہا ہے۔ انہیں مارا پیٹا جاتا ہے۔ بنیادی حقوق سے وہ محروم ہیں۔ سکول اور ہسپتال کے الفاظ ان کی ڈکشنریوں میں ڈھونڈے سے نہیں ملتے۔ مردہ جانوروں کی کھالیں اتارنے کا انہیں حکم دیا جاتا ہے اور پھر کھالیں اتارنے کی سزا دی جاتی ہے۔ وہ گندم جو کھیتوں میں اگتی ہے‘ جب اچھوت کے گھر میں پہنچتی ہے تو پلید ہو جاتی ہے۔ پھر وہ اس چکی میں پیسی تک نہیں جا سکتی جس میں اونچی ذات کے ہندوئوں کی گندم کا آٹا بنتا ہے!
حیرت ہے کہ بلوچستان کے حقوق کی بات کرنے والے مودی کو‘ پاکستانی حکومت کا کوئی وزیر‘ وزیر اعظم‘ ڈپلومیٹ یہ نہیں کہتا کہ تم اپنی آبادی کے ساتھ کیا سلوک کر رہے ہو؟ پہلے ان کے حقوق کی بات کرو!
پاکستان کے دفتر خارجہ پر لازم ہے کہ ایک مستقل شعبہ اپنے ہاں‘ بھارت کے اچھوتوں کی دیکھ بھال کے لیے قائم کرے۔ پھر اسے ہر لحاظ سے مستحکم کرے۔ پاکستان کا ہر سفارت خانہ‘ لازماً‘ بھارت کے اچھوتوں کا احوال دنیا کو بتائے اور ان کے حقوق کے لیے آواز اٹھائے۔
پاکستانی میڈیا اس سلسلے میں اپنا کردار نہیں ادا کر رہا۔ کیا ہمارے اینکر پرسنوں کو‘ ان کے پروڈیوسروں کو اور مالکان کو سرحد پار دہکا ہوا یہ جہنم نظر نہیں آتا؟ اس پر خصوصی پروگرام نشر ہونے چاہئیں جن میں اعداد و شمار اور حقائق کی مدد سے دنیا بھر کے ناظرین کو بھارت کا اصل روپ دکھایا جائے۔ دلت لیڈروں اور ترجمانوں کو ٹیلی فون لائن پر لے کر ان کا موقف دنیا تک پہنچایا جائے۔
پاکستان کی فلاحی تنظیمیں اگر چاہیں بھی تو بھارتی حکومت انہیں اچھوت آبادی میں کام کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔ اس کا حل یہ ہے کہ یہ فلاحی تنظیمیں بین الاقوامی اداروں سے رابطہ کریں اور ان کے ذریعے اچھوتوں تک پہنچنے کی کوشش کریں۔ حیرت ہے کہ انجلینا جولی اور بل گیٹس جیسی مشہور شخصیات نے‘ جو فلاحی کاموں کی وجہ سے دنیا بھر میں معروف ہیں‘ بھارت کے بیس کروڑ اچھوتوں پر کوئی توجہ نہیں دی۔ کیا انہیں معلوم کہ اچھوت حاملہ عورتیں مر جاتی ہیں لیکن بچوں کو جنم دیتے وقت ڈاکٹروں کی توجہ سے محروم رہتی ہیں کیونکہ ڈاکٹر انہیں ہاتھ لگانا گوارا نہیں کرتے۔ سخت گرمی اور کڑکتی دھوپ میں کوئی اچھوت پانی کا گھونٹ پینے کے لیے نلکے کو ہاتھ لگا دے تو وہیں مار دیا جاتا ہے!
بھارت مشرق وسطیٰ کے ملکوں کے ساتھ قربت کی پینگیں بڑھا رہا ہے۔ ان ملکوں میں مخیّر عربوں کی کثرت ہے۔ وہ ہر سال کروڑوں ریال خیراتی کاموں پر صرف کرتے ہیں۔ پاکستان کو چاہیے کہ مشرق وسطیٰ کے ان ملکوں کو بھارت کے اچھوتوں کے حالِ زار سے آگاہ کرے تاکہ وہ ان کی مدد کے لیے اقدامات کریں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں