بلیک میلنگ کا پہلا تحریری تذکرہ 1530ء کے کاغذات میں ملتا ہے۔ آدم سکاٹ‘ ایک غنڈہ تھا جو بلیک میل کر کے لوگوں کو لوٹتا تھا۔ اُسے موت کی سزا دی گئی۔
یہ اُس زمانے کی بات ہے جب بلیک میلنگ کا مطلب محض یہ تھا کہ لوگوں کو ڈرا دھمکا کر ان سے نقد روپیہ یا اشیا بٹوری جائیں۔ بلیک میل کے لفظ میں اگر آپ یہ سمجھ رہے ہیں کہ ''میل‘‘ کا مطلب ڈاک ہے تو آپ غلطی پر ہیں۔ سولہویں صدی کی انگریزی میں یہ لفظ MAILL تھا۔ یعنی ایل کا لفظ حرف دو بار لکھا جاتا تھا۔ اس میل کا مطلب خطوط یا ڈاک نہیں تھا۔ اس کا مطلب کرایہ تھا یا ٹیکس۔ ہم اسے جگا ٹیکس بھی کہہ سکتے ہیں جو غنڈے وصول کرتے ہیں۔ سکاٹ لینڈ کے بارڈر پر رہنے والے انگلینڈ کے کسان سکاٹ لینڈ کے ظالم جاگیرداروں کو نقد رقم دیتے تھے یا مویشی اور غلہ۔ ایک دوسری روایت میں انگلینڈ کے زمیندار‘ سکاٹ لینڈ کے کسانوں سے یہ سب کچھ بٹورتے تھے۔
یہ سب ماضی کے قصے ہیں۔ آج کی بلیک میلنگ کا مقصد ضروری نہیں‘ دھمکی دے کر رقم بٹورنا ہو‘ اس سے مراد اپنی بات منوانا بھی ہے۔ مشہور تفریحی ڈرامے ''تاقے کی آئے گی برات‘‘ میں بشریٰ انصاری ایک نٹ کھٹ شوخ چنچل بیگم کا کردار ادا کرتی ہیں۔ ڈرامے میں ان کا شوہر دوسری شادی کر لیتا ہے۔ وہ سب سے اوپر والی چھت پر جا کر پلنگ پر چڑھ جاتی ہیں اور دھمکی دیتی ہیں کہ اگر میاں نے دوسری بیوی کو فوراً طلاق نہ دی تو وہ چھلانگ لگا کر اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیں گی۔ دوسرے لفظوں میں آج کی بلیک میلنگ کا مطلب ہے دوسرے پر کنٹرول حاصل کرنا! اس کی مثال ہماری موجودہ سیاست میں ان دنوں نمایاں ہے۔ جب کرپٹ سیاست دانوں کے احتساب کا معاملہ آتا ہے تو شور مچایا جاتا ہے کہ جمہوریت خطرے میں ہے۔ یہ غوغا برپا کر کے سیاست دان اپنے ناقدوں پر کنٹرول حاصل کر لیتے ہیں۔
مگر ایک طبقہ پاکستان میں ایسا بھی ہے جو بلیک میلنگ کے مقابلے میں ہر بار اول آتا ہے۔ اگر آپ کا ذہن ڈاکٹروں کی طرف جا رہا ہے تو ایک بار پھر آپ غلطی پر ہیں۔ یہ درست ہے کہ ڈاکٹر اپنے کسی بھی ساتھی کی حمایت میں ہڑتال کر کے مطالبات منوا لیتے ہیں مگر اس کے باوجود وہ ہیں تو سرکاری ملازم! اس لیے ایک حد سے آگے نہیں بڑھ سکتے۔ ورنہ حکومت انہیں ملازمت سے برطرف کر کے بیروزگار ڈاکٹروں کو رکھ لے گی۔ جس زمانے میں ہمارے شہروں میں فلش سسٹم نہیں شروع ہوا تھا‘ بھنگی کمیونٹی بہت کامیابی سے بلیک میلنگ کرتی تھی اور دو دن میں سب کا دماغ درست کر کے رکھ دیتی تھی۔
پاکستان میں کامیاب ترین اور بیک وقت مکروہ ترین بلیک میلنگ تاجر برادری کرتی ہے۔ کوئی وفاقی یا صوبائی حکومت آج تک اس بلیک میلنگ کا توڑ نہیں کر سکی۔ تاجر دو بنیادی مسئلوں پر ڈنکے کی چوٹ پر بلیک میلنگ کرتے ہیں۔ اول اُس وقت جب ان سے کہا جائے کہ ٹیکس پورا ادا کرو۔ بچے کو بھی معلوم ہے اور دیوانہ بھی اس حقیقت سے آگاہ ہے کہ تاجروں کی اکثریت ٹیکس دیانت داری سے ادا نہیں کرتی اور یہی وہ کمیونٹی ہے جو ٹیکس کے اہلکاروں کو کرپشن کا راستہ دکھاتی ہے۔ مگر جب کبھی حکومت سختی سے محاسبہ کرتی ہے تو تاجر برادری ہڑتال کی دھمکیاں دے کر بلیک میلنگ کرتی ہے۔ اس وقت ان لوگوں کو اچانک یاد آتا ہے کہ ٹیکس کی رقم کا استعمال درست طور پر نہیں ہو رہا۔ حالانکہ یہ ایک دوسرا مسئلہ ہے۔ بجا کہ ٹیکس کی ساری رقم ہماری حکومتیں عوام کی فلاح و بہبود پر نہیں خرچ کرتیں اور اللّے تللّے ضائع کر دیتی ہیں مگر اس کا حل یہ نہیں کے ٹیکس نہ دیا جائے۔ اس کا حل حکومت کا محاسبہ اور الیکشن میں اہل امیدواروں کا انتخاب ہے۔ دوم‘ ایک عرصہ سے حکومتیں کاوش کر رہی ہیں کہ تاجر برادری بزنس کے اوقات میں اعتدال لائے اور ترقی یافتہ ملکوں کی طرح سرشام دکانیں بند کر دے‘ مگر یہاں پھر بلیک میلنگ پر کمر باندھ لی جاتی ہے اور خوئے بد را بہانہ بسیار کے مطابق سو طرح کے عذر پیش کئے جاتے ہیں۔ پھر ہٹ دھرمی سے کام لے کر صاف انکار کیا جاتا ہے اور پوری تاجر برادری خم ٹھونک کر ریاست کے سامنے کھڑی ہو جاتی ہے۔ اپریل 2010ء میں اُس وقت کے وزیر داخلہ رحمن ملک نے کوشش کی کہ دکانیں شام آٹھ بجے بند ہو جائیں مگر یہ کوشش ناکام بنا دی گئی۔ 2015ء کے اپریل میں موجودہ حکومت نے ایک بار پھر کوشش کی کہ شادی کی تقریبات رات دس بجے تک اختتام کو پہنچ جائیں‘ ریستوران رات کو گیارہ بجے اور عام دکانیں آٹھ بجے تک بزنس کریں۔ اس پر وہ بلیک میلنگ کی گئی کہ حکومت نے ہتھیار ڈال دیے۔ ایک وجہ فوراً ہتھیار ڈالنے کی یہ بھی تھی کہ وفاق اور پنجاب میں خود تاجر برادری کی حکومت ہے۔ اس سے پہلے شوکت عزیز کی حکومت تھی تو بینک اور بینکار کھُل کھیلتے رہے۔ صرف عوام ہی وہ بدقسمت ''طبقہ‘‘ ہے جس کی طرف داری کرنے والا کوئی نہیں!
اب کے سندھ کے جواں مرد وزیراعلیٰ نے پھر عزم کیا ہے کہ اس خودسر‘ اتھرے‘ اونٹ کو نکیل ڈالی جائے۔ انہوں نے فیصلہ کیا ہے کہ بازار سات بجے تک اور شادی ہال دس بجے تک کاروبار بند کر دیں۔
حسب توقع تاجر برادری نے ''میں نہ مانوں‘‘ کی گردان شروع کر دی ہے۔ کراچی تاجر اتحاد کے سربراہ عتیق میر نے فیصلے کو چیلنج کر دیا ہے۔ سب سے بڑی دلیل وہی گھسی پٹی ہے کہ فیصلہ کرتے وقت تاجر برادری کو ''آن بورڈ‘‘ نہیں لیا گیا‘ ظاہر ہے آن بورڈ لینے یا نہ
لینے سے فرق نہیں پڑتا۔ تاجر برادری اپنی روش بدلنے کے لیے تیار ہی نہیں۔ دلائل اس کے اتنے بودے‘ ضعیف اور مضحکہ خیز ہیں کہ ایک بچہ بھی انہیں رد کر سکتا ہے۔ دلائل کیا ہیں؟ یہ کہ یورپ میں تو غروب آفتاب کے بعد شدید سرما کی وجہ سے کاروبار ہو ہی نہیں سکتا جبکہ یہاں موسم گرم ہے اور لوگ ٹھنڈے موسم میں شاپنگ کرنا پسند کرتے ہیں۔ عتیق میر صاحب یقیناً کئی بار سمندر پار گئے ہوں گے۔ انہیں چاہیے کہ ایک بار پھر ہیوسٹن‘ امریکہ کی جنوبی ریاستوں‘ آسٹریلیا کے شہروں‘ سنگاپور‘ ہانگ کانگ اور دوسرے ایشیائی ملکوں میں جا کر گرما کا موسم گزاریں۔ پرتھ‘ ایڈی لیڈ‘ برسبن‘ میلبورن اور سڈنی میں بے تحاشا گرمی پڑتی ہے۔ یہی حال امریکہ میں جنوبی ریاستوں کا ہے۔ مگر ان سب مقامات پر گرمیوں میں بھی کاروبار سرشام بند ہو جاتا ہے۔ چنانچہ سرد موسم کی دلیل بودی اور بے بضاعت ہے۔ رہی یہ بات کہ پاکستانی ٹھنڈے موسم میں شاپنگ کرنا چاہتے ہیں تو میرؔ صاحب بتائیں کہ دکانیں صبح نو بجے کیوں نہیں کھُل سکتیں؟ کیا اس وقت موسم ٹھنڈا نہیں ہوتا۔ تاجر حضرات دن کو بارہ بجے دکانیں کھولتے ہیں۔ کیا اُس وقت برفباری ہو رہی ہوتی ہے؟
تاجروں نے یہ بھی کہا ہے کہ دکانیں جلد بند کرانے سے پہلے کچرے اور سٹریٹ کرائمز کا خاتمہ اور ٹوٹی پھوٹی سڑکوں کی مرمت کرائی جائے۔ اسے کہتے ہیں ماروں گھٹنا پھوٹے آنکھ! اگر یہ کوئی دلیل ہے تو پھر تاجر حضرات بھی حکومت سے اپنی بات منوانے سے پہلے اُن چھ برائیوں کا خاتمہ کریں جن میں یہ برادری کمر تک نہیں‘ گلے تک دھنسی ہوئی ہے۔ عتیق میر صاحب اور ان کے ہمنوا کیا انکار کر سکتے ہیں کہ اوّل: تاجروں کی اکثریت ملاوٹ جیسے گھنائونے جرم میں ملوث ہے۔ خوردنی تیل سے لے کر مرچوں‘ آٹے‘ گھی‘ دودھ اور خوراک کے اکثر آئٹموں میں مکروہ اور ناقابل تردید ملاوٹ کی جا رہی ہے۔ یہاں تک کہ دوائوں اور معصوم بچوں کے دودھ میں ملاوٹ کرتے وقت بھی ان صاحبان کو خوف خدا نہیں آتا۔ ملاوٹ کے اعتبار سے پاکستان پوری دنیا میں بدنام ہے۔ دوم: تاجروں کی اکثریت ٹیکس چور ہے۔ دُہرے رجسٹر رکھتے ہیں۔ گاہکوں کو رسید نہیں دیتے۔ سوم : Refund پالیسی کا کوئی وجود نہیں۔ یہ جو دکانوں میں ''خریدا ہوا مال واپس یا تبدیل نہیں ہو گا‘‘ کے بورڈ گاہکوں کا اور قانون کا منہ چڑا رہے ہیں تو یہ دھاندلی‘ یہ سینہ زوری اور یہ بدتمیزی دنیا کے کسی مہذب ملک میں نہیں پائی جاتی۔ شے واپس یا تبدیل کرنا گاہک کا بنیادی حق ہے بشرطیکہ پیکنگ خراب نہ ہوئی ہو اور رسید دکھائی جائے۔ چہارم: تاجروں کی اکثریت وعدہ خلافی کا کھلم کھلا ارتکاب کرتی ہے۔ شادی کے ملبوسات اور جہیز کا سامان خریدنے کے لیے ان کے پاس خواتیں آتی ہیں۔ مقررہ تاریخ پر شاذ و نادر ہی کام مکمل ملتا ہے۔ ان خواتین کو بے رحمی سے پھیرے پہ پھیرا ڈالنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ نوے فیصد تاجر تاریخ طے کر کے وعدہ خلافی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ پنجم: پورے ملک میں تاجروں کی اکثریت ناجائز تجاوزات کی مرتکب ہو رہی ہے۔ یہ گھنائونا جرم شرعی‘ قانونی اور اخلاقی لحاظ سے بدترین فعل ہے۔ شاہراہوں پر قبضہ کیا ہوا ہے۔ فٹ پاتھ ہڑپ کئے ہوئے ہیں۔ برآمدوں کو دکانوں کا حصہ بنایا ہوا ہے۔ دکانوں کے سامنے ٹھیکے والوں اور سٹال لگانے والوں کو بٹھا کر رشوت وصول کی جاتی ہے۔ اس سے آمدنیاں مشکوک ہو رہی ہیں۔ یہ ایسا ظلم ہے جس سے شاید ہی کوئی واقف نہ ہو اور انکار کر سکے! ششم: سب سے بڑا ظلم تاجر برادری یہ کر رہی ہے کہ مذہب کو تجارت کے لیے استعمال کر رہی ہے۔ چندہ وصول کرنے والے مذہبی عناصر ان کے ساتھ ہیں۔ حج‘ عمرے‘ نمازیں‘ دیگیں‘ خیرات‘ ان پانچ جرائم کے شانہ بشانہ چل رہے ہیں۔ دکانوں اور کمپنیوں کے نام رکھتے وقت عوام کے مذہبی جذبات کا استحصال کیا جاتا ہے۔
تاجر برادری کو توانائی کے مسئلے پر ملک سے کوئی ہمدردی نہیں۔ دوپہر کے بعد کاروبار شروع کرنے اور آدھی رات کے وقت بند کرنے پر یہ برادری تلی ہوئی ہے۔
مراد علی شاہ صاحب! اس وطن دشمن رویے کیخلاف ڈٹ جائیے! میڈیا آپ کیساتھ ہے! عوام آپ کے لیے دعا کر رہے ہیں۔