زبانیں گھی ٹپکاتی اور دل پتھر جیسے سخت!

کرنل فرانسس ریمنڈ سلوتری تھا! حیوانات کا ڈاکٹر! میرٹھ اور بمبئی میں انگریزی افواج کا حصہ رہا، بنگال ویٹنری کالج کا پرنسپل بھی رہا۔
آپ کا کیا خیال ہے انگریزی عہد میں کتنے سلوتری فوج میں ہوں گے؟ بے شمار! مگر کرنل فرانسس ریمنڈ کا نام تاریخ میں زندہ ہے۔ اس کا سبب اس کا بیٹا ہے۔ نام اس کا بھی ریمنڈ تھا، مگر جیمزہیڈلے چیز کے نام سے پوری دنیا میں مشہور ہؤا۔ اٹھارہ برس کی عمر میں گھر سے نکل آیا۔ کتابیں بیچنا شروع کردیں، گھر گھر، دروازہ کھٹکھٹاتا اور کتابیں بیچتا۔ دو سال میں ایک لاکھ دروازوں پر دستک دی۔ اس کام میں اسے یہ معلوم ہو گیا کہ عوام کس قسم کی کہانیاں پڑھنا چاہتے ہیں۔ چنانچہ اس نے ناول نگاری پر کمر باندھ لی۔ یہ دوسری بین الاقوامی جنگ سے پہلے کا زمانہ تھا۔ عالمی کسادبازاری (گریٹ ڈیپریشن) نے لوگوں کو پاگل کر رکھا تھا۔ شکاگو میں زیرِ زمین گینگ بن گئے، جو جرائم کرتے اور روپیہ کماتے۔ جیمز ہیڈلے چیز نے ابتدا میں انہی کو موضوع بنایا، سو سے زیادہ، جرم و سزا پر ناول لکھے۔ پچاس سے زیادہ ناولوں پر فلمیں بنیں۔ پوری دنیا میں پڑھا گیا۔
دلچسپ ترین حصہ اس کے ناولوں میں، کہانی کا اختتام ہوتا ہے۔ مجرم آپس میں لڑ پڑتے ہیں۔ لوٹ مار کے مال کی تقسیم میں جھگڑے اُٹھتے ہیں۔ پھر وہ ایک دوسرے کو پولیس کے سامنے، دوسرے لوگوں کے سامنے ننگا کرتے ہیں، راز کھولتے ہیں۔
یہی کچھ آج کل سیاست دان کر رہے ہیں۔ لگتا ہے روزِ حساب، جو دنیا میں آنا ہوتا ہے، قریب ہے۔ روزِ حساب جو آخرت میں ہو گا، اس کے بارے میں فرمایا گیا کہ زبان خاموش ہو گی مگر اعضا و جوارح گواہی دیں گے۔ پاؤں بتائیں گے کہاں کہاں گئے۔ ہاتھ بتائیں گے کیا کچھ کرتے رہے۔ آنکھیں بتائیں گی کیسے استعمال ہوئیں۔
کیا ہی عبرت کا مقام ہے کہ وزرا گواہیاں دینے پر آ گئے ہیں ع
قیامت سے بہت پہلے قیامت ہم نے دیکھی ہے!
سنجیدہ ترین وزیر جناب چوہدری نثار علی خان نے کل کیا انکشاف کیا۔
''1998ء میں وزیراعظم نے لمبے عرصے تک کابینہ کا اجلاس نہیں بلایا، جس کی وجہ سے وزرا میں سخت اضطراب اور بے چینی پائی جا رہی تھی۔ وزرا کو رنج تھا کہ ان کی وزیراعظم تک رسائی نہیں۔ حلقوں کے مسائل کے حوالے سے ان کی شنوائی کرنے والا کوئی نہیں، سب نے مجھ سے گلہ کیا اور درخواست کی کہ آپ چونکہ وزیراعظم کے قریب ہیں، آپ ان سے اس حوالے سے بات کریں اور ہمارے تحفظات سے آگاہ کریں۔ میں نے وزیراعظم کو صورت حال سے آگاہ کیا اور کابینہ اجلاس بلانے کی درخواست کی۔‘‘
وقت بہترین منصف ہے۔ یہی وہ نقائص ہیں جو غیر جانب دار مبصرین میاں محمد نواز شریف کے اسلوبِ حکمرانی میں نکالتے ہیں۔ یہی وہ قبائلی سٹائل ہے، جو میاں صاحب کا ٹریڈ مارک مشہور ہو چکا ہے۔ ابھی اسی سال بجٹ سے پہلے کابینہ کا اجلاس سات ماہ بعد بلایا گیا۔ 
1998ء میں بھی یہی سٹائل تھا۔ جمہوری حکومتوں میں حکومت کا سربراہ کابینہ کے ذریعے حکومت کرتا ہے۔ ہر شعبے کا وزیر کابینہ کے اجلاس میں رپورٹ کرتا ہے۔ مسائل پر بحث ہوتی ہے اور فیصلے ہوتے ہیں۔ اگر وزیراعظم ''طویل عرصے‘‘ تک کابینہ کا اجلاس نہیں بلاتے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر حکومت کا کام کس طرح چلتا ہے؟ یہ وہ سوال ہے جو مسئلے کا لب لباب ہے۔ یہاں کابینہ کے بجائے قریبی ساتھیوں اور رشتہ داروں کے ذریعے حکومت کا کام چلایا جاتا ہے! بالکل اسی طرح جیسے قبائلی نظام چلتا ہے۔ 
''حلقوں کے حوالے سے وزرا کی شنوائی نہیں ہوتی۔‘‘
''وزیراعظم تک رسائی نہیں۔‘‘
غور کیجیے۔ یہ الزامات عمران خان یا بلاول بھٹو یا چوہدری شجاعت نہیں لگا رہے۔ ایسا شخص اس مخصوص طرزِ حکومت کی گواہی دے رہا ہے جو وزیراعظم کا ساتھی ہے۔ اچھی شہرت رکھتا ہے۔ اور اس کے خلاف تادم تحریر کرپشن کا کوئی سکینڈل، کوئی الزام نہیں!
کیا وزیراعظم کے قصیدہ خوان اور مسلم لیگ نون کے زعما بتانا پسند کریں گے کہ 1998ء میں بھی اور 2015-16ء میں بھی بغیر کابینہ کے اجلاسوں کے، فیصلے کہاں ہوتے رہے اور ہو رہے ہیں؟ وزرا کیوں بے بس ہیں؟ اور ''حلقوں کے مسائل کے حوالے سے ان کی شنوائی کیوں نہیں ہوتی؟‘‘
یہ طرزِ حکومت کوئی ڈھکا چھپا نہیں۔ کون نہیں جانتا کہ وزیراعظم مہینوں، مدتوں قومی اسمبلی میں اور سینیٹ میں نہیں تشریف لاتے اور جب آتے ہیں تو یہ باقاعدہ خبر بن جاتی ہے! 2014ء کے دھرنے کے دوران غالباً یہ اعتزاز احسن تھے جنہوں نے طنز کیا تھا کہ دھرنے کی وجہ سے وزیراعظم نے اسمبلی کو تو اہمیت دی۔ 
بہر طور چوہدری صاحب کے کہنے پر وزیراعظم نے کابینہ کا اجلاس بلا لیا۔ آگے انہی کی زبانی سنیے، '' میں ڈر رہا تھا کہ یہ خوفناک اجلاس ہو گا، کہیں وزیراعظم اور وزرا میں تلخی نہ ہو جائے۔ میں اجلاس کو بدمزگی سے بچانے کے لیے تدابیر سوچ رہا تھا۔ اجلاس شروع ہوا تو تمام ناراض وزرا نے باری باری وزیراعظم کی خوشامد شروع کر دی۔ میں حیرانی کے عالم میں ان سب کے چہرے دیکھ رہا تھا۔ جب آٹھ ناراض وزرا اپنے مسائل کے بارے میں وزیراعظم کو آگاہ کرنے کے بجائے قصیدے پڑھ چکے تو میں نے ہاتھ کھڑا کیا۔‘‘
چوہدری صاحب بتاتے ہیں کہ انہیں بولنے کی اجازت ملی تو انہوں نے تجویز پیش کی خوشامد پر پابندی عاید کر دی جائے اور اس کا اطلاق ابھی سے اسی کابینہ سے کیا جائے۔ ظاہر ہے یہ سن کر کابینہ پر سناٹا ہی چھانا تھا۔
یہاں ایک ضمنی نکتہ اُبھرتا ہے۔ چوہدری نثار علی واحد اہم وزیر ہیں جو وسطی پنجاب سے نہیں ہیں اور اُس خاص برادری سے تعلق نہیں رکھتے، جس کی موجودہ شاہی خاندان کے عہدِ اقتدار میں پانچوں گھی میں اور سر کڑاہی میں ہوتا ہے۔ چوہدری صاحب کو مسلم لیگ نون میں دیکھ کر تاریخ کا طالب علم اسی طرح حیران ہوتا ہے جیسے جنرل نصیر اللہ بابر کو پیپلز پارٹی میں دیکھ کر حیران ہوتا تھا۔
ایک دو نہیں، تین چار نہیں، آٹھ خوشامدی کرنے والے وزیر! کیا کوالٹی تھی کابینہ کی! ایک صاحب نے حضرت عمر فاروق اعظمؓ کی خوشامد کی۔ آپ جھُکے، مدینہ کی کچی گلی کی مٹی اُٹھائی اور اُن صاحب کے منہ میں ڈال دی! کیا بلندی تھی اور کیسی پستی ہے! جگر نے کہا تھا؎
جہلِ خرد نے دن یہ دکھائے
گھٹ گئے انساں، بڑھ گئے سائے
کیا کسی میں ہمت تھی کہ قائداعظم کی خوشامد کرتا؟
جب حکمران ایسے ہوں گے کہ فائل تک خود نہ پڑھیں گے اور میرمنشی عملاً بادشاہ ہو گا تو فنِ خوشامد عروج پر ہی ہو گا؎
لگا ہے دربار، شمع بردار سنگ کے ہیں
ہوا کے حاکم ہیں، موم کے ہیں گواہ سارے
حکمران خوشامد پسند!! 
وزرا چاپلوسی کے فن میں طاق!!
بیوروکریسی میں بھی وہی کامیاب جو قلابے ملائے۔
زبانیں گھی ٹپکاتی اور دل پتھر جیسے سخت!
ناصر کاظمی یاد آ گیا؎
پیڑ بھی پتھر، پھول بھی پتھر
پتا پتا پتھر کا تھا
چاند بھی پتھر جھیل بھی پتھر
پانی بھی پتھر لگتا تھا
لوگ بھی سارے پتھر کے تھے
رنگ بھی ان کا پتھر سا تھا
گونگی وادی گونج اُٹھتی تھی
جب کوئی پتھر گرتا تھا
کوئی ہے جو عبرت پکڑے! آمرِ مطلق جنرل پرویز مشرف کے اعضا و جوارح بھی گواہیاں دے رہے ہیں! چوہدری پرویز الٰہی نے بتایا ہے اور ایک دنیا نے سنا ہے کہ سب کی موجودگی میں جناب دانیال عزیز نے جیب سے رومال نکالا اور صدر پرویز مشرف کی وردی کو (جو انہوں نے پہنی ہوئی تھی) صاف کرنے لگے گئے۔ چوہدری پرویز الٰہی کی روایت ہے کہ انہوں نے یعنی چوہدری صاحب نے کہا کہ گھٹا (پنجاب میں گرد کو کہتے ہیں) تو نظر نہیں آرہا!
ابھی کئی اعضا و جوارح بولیں گے۔ بہت سے حساب کتاب اسی دنیا میں ہونے لگتے ہیں۔ ''اپنے ہی دوستوں سے ملاقات‘‘ صرف کمین گاہ میں نہیں ہوتی، عدالتوں میں بھی ہوتی ہے۔ میڈیا میں بھی! ایسے ایسے لوگ ایسی ایسی گواہیاں دیں گے کہ آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی۔ سننے والے حیرت سے گنگ رہ جائیں گے۔ کانوں پر یقین نہیں آئے گا، اپنا ہی شعر یاد آرہا ہے؎
یہ آج حُسن ہے جس کا شریک سازش میں
یہ نازنین بنے گی کبھی گواہ مری

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں