نصیر راجہ ایک مصروف انسان ہے۔ انتہائی مصروف! وہ صبح پانچ بجے بیدار ہوتا ہے۔ مسجد میں باجماعت نماز ادا کرکے سیر کو نکل جاتا ہے۔ واپس آ کر تلاوت کرتا ہے۔ چار بچوں کو سکول روانہ کرنے میں بیوی کا ہاتھ بٹاتا ہے۔ بیوی جتنی دیر ناشتہ تیار کرتی ہے‘ نصیر بچوں کے لباس بدلواتا ہے۔ سکول بیگ تیار کراتا ہے۔ پھر اپنے کام پر چلا جاتا ہے۔ ایک بڑی کمپنی کے مارکیٹنگ کے شعبے میں سپروائزر کے طور پر اپنے فرائض سرانجام دیتا ہے۔ فیلڈ میں نکلی ہوئی ٹیموں کو چیک کرتا ہے۔ رپورٹیں تیار کرتا اور کراتا ہے۔ میٹنگ میں اپنے شعبے کے بارے میں بریفنگ دیتا ہے۔ شام پانچ بجے چھٹی کے بعد گھر واپس نہیں آتا۔ مہنگائی کے اس سفاک دور میں ایک ملازمت کی کیا حیثیت ہے۔ نصیر شام سے رات گئے تک ایک پرائیویٹ اکیڈمی میں پڑھاتا ہے۔ عشا کے بعد گھر لوٹتا ہے تو اس کی ہڈیاں کڑکڑا رہی ہوتی ہیں۔ ایک ایک جوڑ دُکھ رہا ہوتا ہے۔ سر گھوم رہا ہوتا ہے۔ نیک بخت بیوی انتظار کر رہی ہوتی ہے تاکہ اسے کھانا دے اور پھر چائے کا ایک کپ۔ ایسے میں چائے کی پیالی کتنی بڑی نعمت ہے‘ اس کا اندازہ وہی کر سکتے ہیں جو مصروف اور ہنگامہ خیز زندگی گزارتے ہیں۔
نصیر راجہ کی اس مصروف‘ اس ایک ایک منٹ پھنسی اور دھنسی زندگی میں ایک آفت در آ گئی ہے۔ اس آفت نے اس کی زندگی میں زہر گھول کر رکھ دیا ہے۔ زندگی جہنم بن گئی ہے۔ چائے کا کپ پی کر وہ لیٹ گیا۔ آنکھ لگی ہی تھی کہ موبائل پر ایس ایم ایس کی گھنٹی بجی۔ وہ ہڑبڑا کر اُٹھا۔ فون اُٹھا کر دیکھا۔ کوئی صاحب کراچی سے پوچھ رہے تھے‘ اگر آپ نے وِنڈو اے سی بیچنے ہیں تو ان نمبروں پر فون کریں۔ اس نے آہ بھری‘ فون رکھا اور پھر سونے کی کوشش کرنے لگا۔ اس کا جی چاہا کہ فون بند کرکے سوئے مگر بیمار ماں کا چہرہ آنکھوں کے سامنے پھرنے لگا۔ ڈیڑھ سو میل دُور‘ ایک قصبے میں اس کی ماں رہتی ہے۔ درد کرتے گھٹنوں کو گھسیٹی اور کچے موتیا کو آنکھوں میں بھرے ایک تکلیف دہ زندگی گزار رہی ہے۔ نصیر راجہ اپنا فون کبھی بند نہیں کرتا۔ وہ نہیں چاہتا کہ اس کی ماں فون کرے یا جب ماں کی طبیعت زیادہ خراب ہو اور اس سے رابطہ کیا جائے تو فون بند ملے۔
صبح وہ یونیفارم پہننے میں منجھلے بیٹے کی مدد کر رہا تھا کہ ایس ایم ایس کی گھنٹی بجی۔ اس نے بچے کی پتلون‘ اس کی آدھی ٹانگ تک ہی رہنے دی اور لپک کر فون اٹھایا۔ کوئی صاحب ہائی سپیڈ انٹرنیٹ کی تشہیری مہم چلا رہے تھے‘ اور جس اشتہاری ایجنسی نے سینکڑوں لوگوں کو ٹارگٹ کیا تھا‘ ان میں ایک نصیر راجہ بھی تھا۔ اس نے ہائی سپیڈ انٹرنیٹ بیچنے والے کو زیر لب گالی دی اور واپس پلٹ کر بچے کا لباس تبدیل کرنے کا کام مکمل کیا۔ بچوں کو سکول پہنچا کر وہ گھر واپس آیا۔ ناشتہ کر رہا تھا کہ پھر گھنٹی بجی‘ شہر کے مہنگے علاقے میں گوشت بیچنے کی ایک جدید دکان کھلی تھی جو عام قصاب کی نسبت ڈیڑھ گنا مہنگا بیچ رہے تھے۔ یہ اُن کی طرف سے پیغام تھا کہ نصیر راجہ اُن کی خصوصی آفر سے فائدہ اٹھا کر ان کی سکیم کا ممبر بن جائے تو اسے پورا دس فیصد ڈسکائونٹ ملے گا۔ اس نے ناشتہ زہر مار کیا اور دفتر روانہ ہو گیا۔ گاڑی پارکنگ میں کھڑی کر رہا تھا کہ گھنٹی بجی۔ اس نے نظرانداز کر دیا۔ فوراً ہی ماں کا چہرہ نظروں کے سامنے گھوم گیا۔ سفید بالوں کی لٹ ماتھے پر پڑی تھی۔ اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ بے تابی سے فون اُٹھا کر پیغام پڑھا۔ ایک پراپرٹی ڈیلر کو ایک نئی آبادی میں سستے پلاٹ درکار تھے۔ وہ انہیں خرید کر‘ کچھ عرصہ بعد منافع پر فروخت کرنے کا عزم رکھتا تھا۔ اس مقصد کے لیے اُس نے ایک اشتہاری کمپنی کے مُنہ میں ہڈی ڈالی تو کمپنی نے ہزاروں لوگوں کو نشانے پر رکھ کر لبلبی دبا دی۔ ان مظلوموں کی اکثریت کا کسی پلاٹ سے کوئی تعلق نہ تھا۔
ساڑھے گیارہ بجے میٹنگ طے تھی۔ کمپنی کے مالک کو مارکیٹنگ کے شعبے میں سست روی کی شکایت تھی۔ نصیر راجہ نے کئی گھنٹے لگا کر بریفنگ تیار کی تھی اور کمپیوٹر پر سلائڈز بنائی تھیں۔ وہ لیپ ٹاپ اٹھائے کانفرنس روم کی جانب جا رہا تھا کہ فون پر نئے پیغام کی گھنٹی بجی۔ نہ چاہتے ہوئے بھی اس نے فون اٹھایا۔ ایک صاحب گھروں میں پڑھانے کے لیے ٹیوٹر فراہم کر رہے تھے اور چاہتے تھے کہ سب اپنا اپنا کام چھوڑ کر اُن کا اشتہار پڑھیں۔ نصیر گلے گلے تک اکتاہٹ‘ غصّے اور بے بسی کے کیچڑ میں دھنس چکا تھا۔ اس نے کبھی کسی کو گالی نہ دی تھی‘ مگر اس نے اشتہار بھیجنے والے کو اور ٹیوٹر فراہم کرنے والے کو ایک گرنگو قسم کی جاندار گالی دی اور سخت برہم موڈ کے ساتھ کانفرنس روم میں داخل ہو کر دیوار پر لگی سکرین کو سیدھا کرنے لگ گیا۔
ذاتی زندگی میں قدم قدم پر یہ مکروہ مداخلت صرف نصیر راجہ کی زندگی میں نہیں ہو رہی۔ ہم سب اس ظلم کا شکار ہیں۔ اشتہار دینا جرم نہیں‘ اخبارات میں صدیوں سے اشتہار چھپ رہے ہیں۔ آپ ان کی طرف دیکھتے بھی نہیں۔ ٹیلی ویژن پر اشتہاروں کی بھرمار ہے۔ آپ چینل بدل کر اس سے چھٹکارا پا لیتے ہیں۔ شاہراہوں کے کنارے‘ دیوپیکر بورڈوں پر اشتہارات نصب ہیں۔ آپ کا اُن سے اور آپ سے ان کا کوئی تعلق نہیں! مگر جو اشتہارات موبائل فون پر آتے ہیں‘ وہ آپ کی نجی زندگی میں مجرمانہ بہیمانہ اور نفرت انگیز مداخلت کرتے ہیں۔ آپ سو رہے ہیں‘ آپ کو اٹھا دیتے ہیں۔ آپ گاڑی چلا رہے ہیں‘ آپ کی ڈرائیونگ میں خلل انداز ہو رہے ہیں۔ آپ نماز پڑھ رہے ہیں‘ کچھ لکھ رہے ہیں‘ کچھ پڑھ رہے ہیں‘ کسی
سے ضروری بات کر رہے ہیں‘ گھنٹی بجا کر یہ اشتہارات آپ کو زانو سے ہلاتے ہیں‘ کندھا پکڑ کر جھنجھوڑتے ہیں‘ قمیض کا دامن پکڑ کر کھینچتے ہیں۔ راہ چلتے آپ کا راستہ روک کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ کوئی گاڑی کرائے پر دینا چاہتا ہے۔ کوئی گھر میں کھانا پکا کر دفتروں میں پہنچاتا ہے۔ کوئی دیمک کا مکمل اور یقینی خاتمہ کر سکتا ہے۔ ایک صاحب سی سی ٹی وی کیمرہ آپ کے گھر نصب کرنے پر مُصر ہیں۔ ایک اور بھائی صاحب پلمنگ‘ فلورنگ اور سیلنگ کی دنیا میں انقلابِِ فرانس لے آئے ہیں اور آپ کو فائدہ پہنچانے پر تُلے ہوئے ہیں۔ ایک صاحب تقاریب (Events) کا انتظام کر سکتے ہیں اور آپ کو اپنی اس صلاحیت سے آگاہ کرنا چاہتے ہیں کیوں کہ ان کے خیال میں دنیا اور آخرت میں آپ کی کامیابی کا انحصار صرف اس بات پر ہے کہ آپ کی تقاریب کا انتظام و انصرام ان کے ذمے لگایا جائے۔ غضب خدا کا‘ ایک صاحب کراچی کے ساحل پر کسی دکان پر بیٹھے ہیں اور ایسی ادویات خریدنے پر آپ کو مائل کر رہے ہیں جن کی آپ کو جوانی میں ضرورت نہیں۔ ایک شخص اسلامی شہد بیچتا ہے اور آپ کو ہندو شہد اور نصرانی شہد اور یہودی شہد سے بچانا چاہتا ہے! آپ ان اشتہاروں سے تنگ آ گئے ہیں۔ آپ کا بس چلے تو ان کے گلے گھونٹ دیں، ان پر کوڑے برسائیں، انہیں بے نقط سنائیں مگر جس نمبر سے اشتہار آیا ہے، آپ اس پر فون ملاتے ہیں تو کوئی اُٹھاتا ہی نہیں۔
ایک زمانے میں کہا جاتا تھا کہ تاجر کے سر پر تاج ہے مگر وہ زمانہ لد چکا۔ اب تاجر کے سر پر ''ت‘‘ تاج والی نہیں، تُف والی ہے۔ تُف ہے ان تاجروں پر جو اپنی اشیا و خدمات فروخت کرنے کے لیے پاگل ہو گئے ہیں۔ ان کی آنکھوں میں لالچ کا اور طمع کا اور خود غرضی کا بال آ گیا ہے۔ انہیں عزت مطلوب ہے نہ شائستگی سے ان کا تعلق ہے۔ ان کی زندگی کا صرف ایک مقصد ہے، پیسہ کماؤ‘ خواہ اس کے لئے لوگوں کے گھروں میں گھسنا پڑے، سوتے ہوؤں کو اُٹھانا پڑے یا مردوں کو قبر سے نکال کر گھسیٹنا پڑے۔ اخلاق؟ اس کا بازار سے گزر ہی نہیں ہوا۔ قناعت؟ یہ تاجروں کی لغت ہی میں نہیں! عزت؟ عزت اور دولت کم ہی ایک چھت کے نیچے جمع ہوتی ہیں!
اگر وہ موبائل کمپنی‘ جس کی سم آپ استعمال کر رہے ہیں‘ آپ کو اشتہار بھیجتی ہے تو اس کا ایک حد تک جواز ہے کیوں کہ آپ اس کمپنی کے گاہک ہیں اور اُس کی بچت سکیموں سے آپ کی واقفیت آپ کے مفاد میں ہے مگر موبائل فون کو تاجر جس طرح اشتہار بازی کے لیے استعمال کر رہے ہیں، اسے روا نہیں قرار دیا جا سکتا۔
قانونی پوزیشن یہ ہے کہ پی ٹی اے (Pakistan Telecommunication Authority) کے قواعد و ضوابط کی رُو سے یہ اشتہار بازی جرم ہے۔ اگر کوئی صارف پی ٹی آئی کو شکایت کرے کہ یہ اشتہار آ رہا ہے اور خلل انداز ہو رہا ہے تو ادارہ ایکشن لیتا ہے۔ سِم بلاک کر دیتا ہے۔ یاد رہے کہ پی ٹی اے اس ضمن میں اعلیٰ ترین اتھارٹی ہے اور موبائل کمپنیوں کو بھی کنٹرول کرتی ہے۔ سوئِ اتفاق سے پی ٹی اے اور عوام کے درمیان ناواقفیت کا حجاب حائل ہے۔ کئی اشتہاری کمپنیوں سے بات ہوئی۔ اکثر کو یہ علم ہی نہیں کہ ان کا کاروبار غیر قانونی ہے۔ اسی طرح پریشان ہونے والے اور اپنی پرائیویسی کو کھو بیٹھنے والے صارفین کو بھی قانونی صورتِ حال سے آگاہی نہیں۔ پی ٹی اے کے چیئرمین سید اسماعیل شاہ سے تفصیلی بات ہوئی۔ کیا شائستہ اور خوش اخلاق شخص ہیں! نرم گفتار اور مہذب!! صارفین کے آرام و اطمینان کے لیے بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں۔
پی ٹی اے کو چاہیے کہ الیکٹرانک میڈیا اور اخبارات کے ذریعے اس صورتِ حال کو واضح کرے۔ عوام کو بتائے کہ اشتہار بازی کا یہ خبط قانوناً منع ہے۔ اس ضمن میں پی ٹی اے کے پاس باقاعدہ بجٹ ہونا چاہیے تا کہ عوام کو معلوم ہو سکے کہ پی ٹی اے صارفین کے ساتھ ہے اور اشتہار بازوں کے خلاف ایکشن لیا جا سکتا ہے۔