شہروں‘ قصبوں‘ بستیوں سے باہر‘ دُور‘ کھیتوں میں کوڑے کے ڈھیر... کبھی آپ نے دیکھے ہیں؟ کوڑے کے یہ ڈھیر اصل میں غلاظت کی کاک ٹیل ہوتے ہیں۔ ان میں وہ کوڑا بھی ہوتا ہے جو صحنوں میں جھاڑو دینے کے بعد اکٹھا ہوتا ہے۔ ان میں تربوز‘ خربوزوں اور مونگ پھلی کے چھلکے بھی ہوتے ہیں۔ ان میں بکریوں‘ بھیڑوں کی مینگنیں‘ بیلوں‘ بھینسوں کا گوبر بھی ہوتا ہے اور ان میں انسانی فضلہ بھی ہوتا ہے۔ ان ڈھیروں پر ایک خاص قسم کا کیڑا دکھائی دیتا ہے۔ یہ کالے رنگ کا ہوتا ہے۔ دبلا پتلا نہیں ہوتا۔ گولائی میں‘ یعنی موٹائی میں‘ ٹھیک ٹھاک ہوتا ہے۔ کوڑے کا یہ ڈھیر اس کی سلطنت ہوتی ہے۔ یہ اس پر چلتا پھرتا ہے۔ اس کا خاص مشغلہ گندگی کے گولے بنانا ہے۔ یہ گولے ماربل کی چھوٹی گولی (بنٹے) کے سائز کے ہوتے ہیں۔ یوں سمجھیے کوڑے کے کاک ٹیل سے یہ اپنی پسند کی غلاظت لے کر اُسے Process کرتا ہے‘ پھر اس کا گولہ بناتا ہے‘ پھر اسے لڑھکاتا ہوا اپنے بل میں لے جاتا ہے‘ اس کیڑے کو پنجاب کے مغربی اضلاع میں بھبُھون کہتے ہیں۔ نہیں معلوم باقی علاقوں میں اس کا نام کیا ہے۔
ہمارا میڈیا ایک عرصہ سے گندگی کے گولے بنا کر ان گولوں کو لڑھکاتا پھرتا ہے۔ کوڑے کے ڈھیر‘ غلاظت کے کاک ٹیل ہمارا مقدر بن چکے ہیں۔ اُس زمانے کو یاد کیجیے جب سرے محل اور سوئس اکائونٹس کے مسئلوں پر میڈیا بحث کرتا تھا۔
سرے محل زرداری خاندان نے خریدا۔
سرے محل زرداری خاندان نے نہیں خریدا۔
سرے محل کس کے نام ہے؟
کس کے نام نہیں ہے؟
سوئس اکائونٹس میں کتنا پیسہ ہے۔
لاکھوں کروڑوں روپے اُن افراد اور وفود پر خرچ ہوئے جو اس ضمن میں ''تفتیش‘‘ کرنے بیرونِ ملک جاتے رہے۔ پھر معلوم ہوا کہ پیپلز پارٹی کی حکومت نے جن صاحب کو برطانیہ میں سفیر تعینات کیا تھا‘ وہ سوئٹزرلینڈ گئے اور ثبوت بھرے ڈبے‘ جو کثیر تعداد میں تھے‘ لے کر چلتے بنے۔
سرے محل اور سوئس اکائونٹس ایک بہت بڑا کوڑے کا ڈھیر تھا۔ غلاظت کا کاک ٹیل... کیا میڈیا اور کیا سیاست دان‘ سب بھبُھون تھے۔ اس ڈھیر پر چلتے پھرتے رہے۔ گولے بناتے رہے۔ لڑھکاتے رہے۔ حاصل حصول وصول کچھ بھی نہ ہوا‘ صرف گندگی کے گولے ہاتھ آئے۔
پھر ایک اور غلاظت کی کاک ٹیل‘ کوڑے کا ایک اور ڈھیر نمودار ہوا کہ شریف خاندان جب صدر پرویز مشرف کے عہدِ اقتدار میں جلاوطن ہوا تو کتنے سال کا سودا ہوا تھا؟ شریف خاندان کچھ کہتا تھا۔ مخالفین کچھ کہتے تھے‘ ہر بھبُھون کے گولے کا سائز مختلف تھا۔ پانچ سال؟ دس سال؟
پھر اس ''غیرت مند‘‘ قوم نے یہ بھی دیکھا کہ ایک غیر ملکی شہزادہ آیا۔ میڈیا کے سامنے اس نے ایک کاغذ لہرایا کہ یہ ہے معاہدہ جس کے تحت شریف فیملی باہر گئی۔ یہ اُس موقف سے بالکل مختلف تھا جو شریف فیملی اور اس کے ہم نوائوں نے اختیار کیا ہوا تھا۔ ایک غیر ملکی کا آنا۔ پریس کانفرنس کرنا۔ ہمارے سابق وزیر اعظم کے حوالے سے کئے گئے معاہدے کی دستاویز ہوا میں لہرانا‘ یہ سب ایک آزاد‘ عزتِ نفس رکھنے والے ملک کے شایانِ شان نہ تھا‘ یہ پاکستان کی بے عزتی تھی۔ بے حرمتی تھی۔ مگر افسوس کسی کو بھی شرم حیا نہ آئی۔ متعلقہ فریقوں سے لے کر عوام تک سب پی گئے۔ غلاظت کے گولے لڑھکتے رہے!
آپ اس ملک کی ''غیرت‘‘ کی ایک ہلکی سی جھلک ملاحظہ کیجیے۔ کم و بیش ایک عشرے تک سیاہ و سفید کا مالک رہنے والا سابق صدر‘ جو جرنیل بھی تھا‘ بتاتا ہے کہ فلاں ملک کے بادشاہ نے اس کے اکائونٹ میں رقم ڈالی۔ سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ لگانے والے اور ''میں کسی سے نہیں ڈرتا‘‘ کے فقرے کو مذاق بنا لینے والا فور سٹار جرنیل انکار نہ کر سکا۔ واہ! غیرت نفس کی کیا بہتات ہے! کرائے پر لکھائی جانے والی خود نوشت میں ایک طرف موصوف کہتے ہیں کہ وہ ایک عام پس منظر سے تعلق رکھتے ہیں‘ یعنی خاندان آسودہ حال نہ تھا‘ دوسری طرف کہتے ہیں کہ پاکستانیوں کو فروخت کرکے ڈالر بٹورتے رہے۔ ارے بھائی! تو کیا جیب اب بھی نہیں بھری تھی کہ دوسرے ملکوں کے بادشاہوں سے مدد لینا شروع کر دی؟ سیّدوں پر زکوٰۃ نہیں لگتی۔ تو پھر سید پرویز مشرف نے یہ رقم خیرات میں لی؟ یا صدقے میں؟ یا بس بخشش تھی؟ کہا ہے کہ وہ بادشاہ انہیں چھوٹا بھائی سمجھتا تھا۔ اگر آپ بادشاہ کے چھوٹے بھائی ہیں تو وراثت میں اپنا جائز شرعی اور قانونی حصہ مانگیے!
کیاملک ہے! سابق صدر‘ بھیک مانگ کر مختلف بینکوں میں کھولے ہوئے اکائونٹس بھرتا جا رہا ہے۔ یہ ہیں وہ لوگ جو تقریروں میں ''اُس رزق سے موت اچھی‘‘ کے نعرے لگاتے ہیں‘ مگر کشکول اٹھائے پھرتے ہیں۔ سنا ہے کہ موصوف الطاف حسین کے جانشین بنیں گے۔ بہت مناسب انتخاب ہے! قربانی کی کھالوں اور بھتے سے عیاشی کرنے والے شخص کا جانشین وہی ہونا چاہیے‘ جو دوسروں کی دی ہوئی بخشش بھیک اور صدقہ خیرات سے دنیا بھر میں عیش کرتا پھرتا ہے۔
لندن کے فلیٹس کوڑے کے اِن ڈھیروں میں ایک نئے ڈھیر کا اضافہ ہے۔ ایسا اضافہ جس نے ماضی کی ساری غلاظتوں کو مات کر دیا ہے۔ خدا کی پناہ! میڈیا سے لے کر بیرونِ ملک اخبارات تک‘ سوشل میڈیا سے لے کر برصغیر کے کروڑوں خاندانوں تک‘ ہر جگہ اس ڈھیر میں سے غلاظت کے گولے نکال نکال کر لڑھکائے جا رہے ہیں۔ صاحبزادی سے لے کر بیٹوں تک کے بارے میں کیا ہے جو نہیں کہا جا رہا! کیا ہے جو نہیں لکھا جا رہا‘ کیا ہے جو نہیں سنا جا رہا ہے؟
حسین نواز نے یہ کہا تھا۔
حسن نواز نے جو کچھ کہا تھا‘ وہ مختلف تھا۔
بیگم کلثوم نواز نے کچھ اور کہا تھا۔
صاحبزادی نے کہا تھا کہ میں تو خالی ہاتھ ہوں۔
خود وزیر اعظم نے پارلیمنٹ میں کچھ اور کہا تھا۔
غیرت مند ملک کے وزیر اعظم کی مدد کے لیے ایک بار پھر ایک غیر ملکی شہزادہ آیا ہے۔ مزید بھبُھون۔ مزید گولے! سنا ہے پنجاب کا ایک وزیر اعلیٰ تھا۔ نون یا ٹوانہ‘ اس کی ماں نے دیکھا کہ شاہراہ پر جلوس نکالا جا رہا ہے اور وزیر اعلیٰ کے خلاف نعرے لگ رہے ہیں۔ اس نے بیٹے کو شرم دلائی اور بیٹے نے استعفیٰ دے دیا۔ جو کچھ وزیر اعظم کے خاندان کے ساتھ ہو رہا ہے‘ کیا وزیر اعظم کی والدہ ماجدہ بھی انہیں نہیں کہتیں کہ پتر! دفع کر اس اقتدار کو جس میں عزت نیلام ہو رہی ہے۔ ہر کوئی بکواس کرتا پھرتا ہے۔ کوئی کہتا ہے چوری ہے‘ کوئی کہتا ہے جھوٹ بولتے ہیں‘ کوئی کہتا ہے بیانات میں تضاد ہے۔ گولے ہیں کہ بنتے ہی جا رہے ہیں! ہر طرف لڑھکتے نظر آتے ہیں! لعنت بھیجو اس اقتدار پر!
مگر آہ! اقتدار کے مزے! یہ مزے اتنے زبردست ہیں کہ عزت ان کے مقابلے میں پرِکاہ کی حیثیت نہیں رکھتی! اقتدار نہ ہو تو عوام کی جیبوں سے نکالی گئی ٹیکسوں کی کمائی کیسے تصرف میں آئے۔ دو دن پہلے لاہور ہائیکورٹ نے انکشاف کیا ہے کہ غریب آدمی کو علاج میسر نہیں مگر... ''حکومتی گڈ گورننس کا یہ عالم ہے کہ محکمہ صحت کا بجٹ دوسرے منصوبوں پر لگایا جا رہا ہے‘‘۔ عدالت نے مزید کہا کہ... ''ہر سال بجٹ میں ڈاکٹروں کی خالی سیٹیں پُر کرنے کے لیے بجٹ مختص کیا جاتا ہے مگر اسے دیگر منصوبوں کی نذر کر دیا جاتا ہے۔
یہ جو وزیر اعلیٰ نے درجنوں وزارتیں اپنی جیب میں ڈال رکھی ہیں‘ تو اس لیے نہیں کہ آخرت کے لیے ثواب اکٹھا کر رہے ہیں۔ اس لیے کہ بجٹ سے مرضی کے مطابق کھیلا جا سکے۔ موصوف وزیر صحت بھی خود ہی ہیں۔ عدالت نے اتنی بڑی بات کہی ہے۔ عزت نفس کا تقاضا ہے کہ اس کا جواب دیں یا صوبے کے عوام سے معافی مانگیں!
پاناما لیکس! فلیٹ! آف شور کمپنیاں! بیانات میں تضادات! اُڑتے ہوئے قالین پر شہزادے کا آنا‘ باغ میں اترنا‘ شہزادی کی آنکھوں سے سوئیاں نکالنا! الزامات‘ جوابات! کوڑے کے ڈھیر... غلاظت کی کاک ٹیل! بھبُھون۔ گولے! لڑھکتے گولے!