تو کیا دوسرے جمہوری ملک بھی مہینوں زچگی کی کیفیت میں رہتے ہیں؟ میڈیا کراہتا ہے؟ اور آہیں خراشوں کی صورت اختیار کر لیتی ہیں؟
نوجوان دانشور عماد بُزدار سوشل میڈیا کا ایک سرگرم حصہ دار (Activist) ہے۔ تیکھے سوال اُٹھاتا ہے۔ ایک سوال اُس نے حسرت کے لہجے میں اُٹھایا ہے ''اللہ وہ دن لائے کہ کمان کی تبدیلی معمول کی کارروائی سمجھی جائے!‘‘
یوں تو حال یہ ہے کہ؎
ہمارا گھر ہمیشہ بے سروساماں رہے گا
بہت کم حسرتیں ہوں گی شمار آساں رہے گا
مگر یہ حسرت کہ ایک دن وہ بھی آئے کہ کمان کی تبدیلی معمول کی کارروائی سمجھی جائے، ایسی حسرت ہے کہ غالب کا شعر یاد دلاتی ہے؎
ناکردہ گناہوں کی بھی حسرت کی ملے داد
یا رب اگر ان کردہ گناہوں کی سزا ہے
کردہ گناہوں کی سزا ختم ہو تو ناکردہ گناہوں کی داد کا سوال اُٹھے! اصل سوال یہ ہے کہ قصوروار کون ہے؟ اس سوال کا جواب اُس دن ملے گا جس دن پاکستان کی تاریخ نہیں، پاکستان میں جمہوریت کی تاریخ لکھی جائے گی! مانا کہ جنرل ایوب خان کو کوئی حق نہیں تھا، قانونی نہ اخلاقی نہ شرعی، کہ وہ اقتدار کے سنگھاسن پر قبضہ کرتا مگر وہ کون تھے جو اس کے دست و بازو بنے؟ جنہوں نے اُسے بادشاہ تک بننے کا مشورہ دیا؟ اہلِ سیاست اُس وقت اگر ذاتی مفادات کا نہ سوچتے‘ اگر اپنی اپنی زنبیلیں بھرنے کے لیے اقتدار کی طرف لمبی لمبی زقندیں نہ بھرتے‘ اگر آمریت کے گرد حفاظتی حصار نہ باندھ لیتے تو یہ پہلا شب خون آخری حملہ ثابت ہوتا۔
اس میں کیا شک ہے کہ عساکر کا شعبہ بھی دوسرے اداروں کی طرح ایک ریاستی ادارہ ہے۔ مگر اس ادارے کو اتنی اہمیت کس نے دی کہ آج کمان کی تبدیلی گھٹا بن کر پوری قوم پر چھا جاتی ہے؟ ایک اینٹ تو اس کی سیاست دانوں نے خود رکھی‘ جنہوں نے ہر فوجی انقلاب کے بعد داد دینا شروع کر دی۔ کبھی شوریٰ کی نامزدگی قبول کی۔ کبھی امیرالمومنین بننے کی فرمائشیں کیں۔ دوسری اینٹ اس وقت رکھی گئی جب اس معمول کی کارروائی کو صوابدیدی اختیار کی نذر کرکے اپنی پسند‘ اکثر و بیشتر ذاتی پسند کے افسر کو سالار بنایا۔ صوابدیدی اختیار (Discretion) ہمارے ہاں درست طور پر سمجھا ہی نہیں گیا۔ صوابدیدی اختیار ایک بادشاہ کو‘ ایک آمرِ مطلق کو بھی حاصل ہوا ہے اور ایک جمہوری نظام میں وزیرِ اعظم کو یا صدر کو بھی! تو دونوں میں فرق کیا ہے؟ یہی وہ فرق ہے جس پر توجہ نہیں دی جا رہی!
فرق یہ ہے کہ مطلق العنان بادشاہ کو صوابدیدی اختیار استعمال کرنے کی وجہ نہیں ریکارڈ کرنا پڑتی۔ اسے کوئی چیلنج نہیں کر سکتا۔ مگر جمہوریت میں جب ریاست کا سربراہ یا حکومت کا سربراہ چار میں سے ایک سرکاری ملازم کا انتخاب کرتا ہے تو اسے اس کی وجوہ ریکارڈ کرنا ہوتی ہیں۔ اسے فائل پر رقم کرنا ہوتا ہے کہ میں فہرست میں اُن افراد کو کیوں چھوڑ رہا ہوں جو اوپر ہیں اور نیچے والے کو کیوں منتخب کر رہا ہوں۔ عدالت میں اگر کوئی چیلنج کرے اور حکومت جواب دے کہ یہ صوابدیدی اختیار تھا تو عدالت پر فرض ہے کہ پوچھے‘ صوابدیدی اختیار کس گراؤنڈ پر استعمال ہوا۔ اہلِ مغرب نے اس کا ضابطہ بنایا کہ Discretion is to be used Judiciously کہ صوابدیدی اختیار کا استعمال منصفانہ ہو‘ عاقلانہ ہو اور مبنی پر حکمت ہو۔
اس کی ایک نظیر بھی موجود ہے یا کم از کم ایک جو اس وقت ذہن میں آرہی ہے۔ 2009ء میں اس وقت کے وزیر اعظم نے بیوروکریسی کے 54 ارکان کو گریڈ 22 میں ترقی دی۔ یہ ترقی صوابدیدی اختیارات کے استعمال کی بدترین مثال تھی کیونکہ جس جس کی گردن میں گریڈ 22 کا پھندہ ڈال دیا گیا‘ بس ڈال دیا گیا۔ متاثرین میں سے کچھ نے عدالت کا دروازہ جا کھٹکھٹایا۔ عدالت نے یہی پوچھا کہ اختیار کا استعمال کس منطق سے ہوا؟ جواب سے مطمئن نہ ہوتے ہوئے عدالت نے وزیر اعظم کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا!
دلچسپ بات یہ ہے کہ عدلیہ میں ہمیشہ اُس جج کو قاضی القضاۃ مقرر کیا جاتا ہے جو سب سے زیادہ سینئر ہو‘ خواہ اس کی مدتِ ملازمت صرف تیرہ دن رہتی ہو! حالانکہ یہاں صوابدیدی اختیار کا استعمال کرنے والی طاقت یہ حکمت بیان کر سکتی ہے کہ تسلسل قائم رکھنے کے لیے عدلیہ کا سربراہ اسے بنایا جائے گا جس کی کم از کم مدتِ ملازمت اتنی رہتی ہو!
بہرطور، جب بھٹو صاحب نے صوابدیدی اختیار بغیر کوئی وجہ ریکارڈ کیے، استعمال کیا اور جنرل ضیاء الحق کو سربراہ نامزد کیا تو کمان کی تبدیلی لامحالہ غیر معمولی اہمیت اختیار کر گئی۔ پھر جنرل صاحب نے اس احسان کا بدلہ اُتارا اور بھٹو کو مسند ہی سے اُتار دیا۔ گیارہ سال کمان کی تبدیلی رونما ہی نہ ہوئی۔ میاں نواز شریف صاحب نے جنرل پرویز مشرف کا انتخاب کرتے وقت پھر صوابدیدی اختیار کی گیند کو اچھالا۔ امورِ سلطنت نہ ہوئے بازیچہ ہو گیا۔ کس بنیاد پر کس کو رد کیا اور کس کو مقبول؟ کسی نے پوچھا نہ کوئی عدالت ہی گیا‘ مگر یہ ایک بڑی وجہ ہے کہ کمان کی تبدیلی غیر معمولی واقعہ بنتا گیا۔ ویسے جنرل مشرف صاحب نے جب چھڑی جنرل اشفاق کیانی کو سونپی تو تب یہ خبر اس لیے بھی تہلکہ خیز تھی کہ یاس جنرل مشرف صاحب کے چہرے کی دیدنی تھی۔ وردی کو وہ اپنی کھال کہا کرتے تھے۔ کھال اُتار کر دوسرے کے بدن پر فِٹ کر رہے ہوں تو مردنی تو اپنے چہرے پر نظر آئے گی۔ اس کے مقابلے میں جنرل راحیل شریف سراپا مسکراہٹ اور اطمینان تھے۔ کامیابیوں کے ساتھ ساتھ قناعت اور شکر کی روشنی چہرے پر پھیلی تھی۔ کروڑوں دیکھنے والوں نے اسے نوٹ کیا۔
تیسری اینٹ خود میڈیا نے رکھی۔ وزیر اعظم دو دن پہلے بھی فوجی سربراہ کے چناؤ کا اعلان کرے تو اس میں کیا حرج ہے۔ کمان کی تبدیلی کو آسمان تک اچھالنے میں بڑا کردار خود میڈیا کا ہے۔ مہینوں پہلے اندازے لگانے شروع کر دیے۔ پرنٹ میڈیا نے عوام سے ووٹ لینا شروع کر دیے کہ کون جانشین ہو گا۔ الیکٹرانک میڈیا نے اس پر باقاعدہ پروگرام نشر کرکے اپنے شکم کے تنور بھرے۔ معمول کی کارروائی کیسے ہو سکتی تھی! معمول کی کارروائی رہنے ہی نہ دی گئی!
جب تک نظم و ضبط اور قواعد کی حکمرانی میں ہم بطور سول حکومت، نالائق رہیں گے، کمان کی تبدیلی ہمیشہ دھوم دھڑکے سے رونما ہو گی! واقعہ یہ ہے کہ عوام بے بس ہوتے ہیں تو فوج کی طرف دیکھتے ہیں۔ ایک ایک سال میں نو نو، دس دس ایس پی تبدیل ہوتے ہیں۔ افسر شاہی کے ارکان برہنہ سر ہیں۔ سر پر قانون کی چھتری نہ کوئی اور بچاؤ! سالہا سال تعیناتی کے لیے دھکے کھاتے پھرتے ہیں۔ جن ریٹائرڈ افسروں کو آٹھ سال پہلے سر چھپانے کے لیے پلاٹ دیے گئے، آج تک اُن پلاٹوں کا قبضہ نہیں دیا گیا۔ ایسے میں اگر انگریزی اخبارات میں خطوط چھپتے ہیں کہ یہ کام فوج کو سونپ دیا جائے تو اس میں فوج کا کیا قصور؟ اور مطالبہ کرنے والے کا کیا دوش؟
کمان کی تبدیلی، معمول کی کارروائی کب ہو گی؟ اس کا جواب صرف سیاست دانوں کے پاس ہے! جب تک ایک ہی صوبے کا وزیر اعلیٰ، وفاقی وزیر کو ساتھ لیے، فوج کے سربراہ سے ملتا رہے گا۔ کمان، کمان رہے گی! تاہم ایک اور خبر بھی غیر معمولی تھی! وزیر اعظم جب نئے سپہ سالار سے ملے تو ان کی میز مکمل طور پر صاف تھی۔ کوئی فائل، کوئی قلم دان، کوئی پنسل، کچھ بھی نہ تھا۔ گئے وقتوں میں میز پر ایک سیاہی چوس ہوتا تھا۔ وہ تک نہ تھا۔ ماتحت میز پر ایک گلدستہ ہی رکھ دیتے!