میں اس ملک کا ایک باعزت شہری ہوں۔ مجھے فخر ہے کہ قائداعظمؒ نے اس ملک کی بنیاد رکھی۔ ان کے دشمن بھی ان کے خلاف مالی اور اخلاقی بددیانتی کا کوئی الزام ثابت کرنا تو دور کی بات ہے‘ لگا تک نہ سکے۔
میں نے ساڑھے تین عشرے ملازمت کی اور عزت کے ساتھ انجام تک پہنچائی۔ اس سے پہلے میرے والد نے روپیہ نہیں‘ صرف اور صرف نیک نامی کمائی۔ وہ ہمیشہ مجھے نصیحت کرتے تھے کہ یاد رکھو ایک سیر دودھ میں پیشاب کا ایک قطرہ بھی پڑ گیا تو سارا دودھ ناپاک ہو جائے گا۔ میرے دادا اور نانا کا نام بھی لوگ عزت سے لیتے ہیں۔ انہوں نے کسی کا اُدھار نہ رکھا۔ کسی کی پگڈنڈی اپنی زمین میں شامل نہ کی۔ بس ایک ہی بات پر زور دیتے تھے کہ عزت خراب نہ ہو۔
میرے فرزند ملک میں اور بیرون ملک ملازمتیں کر رہے ہیں۔ انہیں میں نے واضح طور پر لکھ دیا ہے کہ جس دن مجھے کسی نے طعنہ دیا کہ تمہارے بیٹے ناقابل اعتبار ہیں یا انہوں نے مالی یا اخلاقی اعتبار سے کوئی غلط کام کیا یا ان کی شہرت خراب ہے تو مجھ سے کسی معافی کی توقع نہ رکھیں۔
لیکن میں کیا کروں! اس ساری خاندانی احتیاط کے باوجود اور اس حقیقت کے باوجود کہ میرے لیڈر قائداعظمؒ پر دشمن بھی الزام نہ لگا سکا‘ میری مادر وطن‘ میرے پیارے ملک پاکستان کے وزیراعظم کے بارے میں لوگ قسم قسم کی باتیں کر رہے ہیں۔ مجھے لگتا ہے لوگوں نے الزام تراشی پر کمر باندھ لی ہے۔ کبھی ان پر اور کبھی کے فرزندان گرامی پر منی لانڈرنگ کے‘ منی ٹریل (Money Trail) ثابت نہ کرنے کے اور متضاد بیانات دینے کے الزام لگا رہے ہیں اور تو اور میرے وزیراعظم کے گھر کی خواتین کے بارے میں باتیں ہو رہی ہیں۔ آج صبح جب میں نے رئوف کلاسرہ کا کالم پڑھا تو مجھ پر سچ یہ ہے گھڑوں پانی پڑ گیا۔ میں چاہتا تھا زمین پھٹتی اور میں اس میں چھپ جاتا۔ یہ دن بھی دیکھنا تھا کہ وزیراعظم کے خانۂ اقدس کی خواتین کے بارے میں عدالتوں میں بحثیں ہو رہی ہیں! انا للہ وانا الیہ راجعون!
''وزیراعظم کی صاحبزادی اگر وزیراعظم کے گھر رہتی ہیں تو پھر ان کے داماد کہاں رہتے ہیں؟ اپنے گھر میں یا پھر وزیراعظم کے گھر؟ اگر وزیراعظم کی صاحبزادی اپنے باپ پر ڈی پنڈنٹ ہیں تو پھر پتا چلتا ہے کہ وزیراعظم تو اپنے بیٹے حسین نواز پر ڈی پنڈنٹ ہیں...‘‘
یہ اور اس طرح کے کئی اور سوال! اور تو اور میرے ملک کی خاتون اوّل کے بارے میں موشگافیاں ہو رہی ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ ان کا بھی لندن میں اپنا گھر ہے۔ اس حوالے سے یہ الزام لگ رہا ہے کہ ٹیکس کے گوشواروں میں شوہر نے ذکر ہی نہیں کیا کہ بیگم صاحبہ کے پاس لندن میں گھر ہے یا وہ ٹرسٹ کے حوالے سے اس کی مالکن ہیں۔
میرے خدا! کیا مجھے یہ دن بھی دیکھنا تھا۔ میرے ملک کی خاتون اوّل کا نام عدالتوں میں گھسیٹا جا رہا ہے۔ میں تو اس معاشرے کا رکن تھا جہاں خواتین خانہ کے نام بھی ظاہر نہیں کئے جاتے تھے۔ جہاں کسی کو گالی دینا ہوتی تھی تو بس اتنا کہہ دینا ہی کافی ہوتا تھا کہ میں تمہارے گھر کی خواتین کو کچہریوں اور تھانوں میں لے کر آئوں گا! اسی پر یا سمجھوتے ہو جاتے تھے یا قتل!
پھر قطری شہزادے کے خط کا لوگوں نے مذاق بنایا ہوا ہے۔ میں سب کچھ سنتا ہوں اور دل پر ہتھوڑے کی آہنی ضربیں سہتا ہوں۔ مسئلہ میاں نوازشریف کا یا عمران خان کا نہیں ہے۔ مسئلہ میرے ملک کا ہے۔ مسئلہ میرے ملک کی عزت کا ہے۔ میں تو اس قوم کا فرد ہوں جو کرکٹ میں دشمن سے ہار جائے تو لوگ اپنی جان اپنے ہاتھوں سے لے لیتے ہیں۔ میں جب تصّور کرتا ہوں کہ مودی اور اس کے شیوسینا کے ساتھی‘ ہماری عدالتوں کی کارروائی پڑھ کر اور سن کر کیسے ایک دوسرے کے ہاتھوں پر ہاتھ مارتے ہوں گے‘ کیسے قہقہے لگاتے ہوں گے‘ ٹھٹھے مارتے ہوں گے، ایک دوسرے سے بغل گیر ہوتے ہوں گے تو مجھے کچیچیاں چڑھتی ہیں۔ وَٹ چڑھتے ہیں۔ دل چاہتا ہے ان دشمنوں کی تکا بوٹی کر دوں۔ مگر کیا کروں، عدالتی کارروائی ایک دن بعد پھر دنیا بھر کے اخبارات کی زینت بنی ہوتی ہے!
مانا میرے وزیراعظم بے گناہ ہیں‘ معصوم ہیں‘ قطری شہزادے کا خط Genuine ہے۔ وزیراعظم کے صاحبزادے بے قصور ہیں۔ ان کی دختر نیک اختر نے کوئی منی لانڈرنگ کی نہ ان کی ملک کے اندر یا باہر کوئی جائیداد‘ زمین‘ گھر یا فلیٹ ہیں۔ انہوں نے کبھی ملازمت کی نہ کاروبار! نہ سیاست ہی میں دخیل رہیں۔ وہ تو ایک سمپل سیدھی سادی ہائوس وائف ہیں۔ یہ سب بجا! مگر سوال ملک کی عزت کا ہے۔ الزامات میاں نوازشریف پر نہیں‘ ملک کے وزیراعظم پر ہیں۔ مسئلہ حسین نواز یا حسن نواز یا مریم بی بی کا نہیں‘ مسئلہ وزیراعظم کے فرزندوں کا اور دختر کا ہے۔ عدالت میں محترمہ کلثوم نواز کا نہیں‘ میرے ملک کی خاتون اوّل کا‘ جو پورے ملک کی ماں ہیں ، نام گھسیٹا جا رہا ہے! اس لیے میں ہاتھ جوڑ کر اپنے پیارے ملک کے پیارے وزیراعظم سے التجا کرتا ہوں‘ ان کے گھٹنوں کو ہاتھ لگاتا ہوں‘ ان کے پائوں پڑتا ہوں کہ عالی جاہ! خدا کے لیے اس اقتدار پر لات ماریے۔ آپ کی عزت اور ملک کی عزت اس اقتدار سے کئی ہزار گنا‘ کئی لاکھ گنا‘ کئی کروڑ گنا‘ کئی ارب گنا اور کئی کھرب گنا زیادہ قیمتی ہے! لعنت بھیجیے اس حکومت پر‘ آپ حکومت سے الگ ہو جائیے۔ پھر کہیے کہ میں وزیراعظم کی حیثیت سے نہیں‘ ذاتی حیثیت سے یہ مقدمے لڑوں گا تاکہ اس میں ملک کا نام نہ آئے۔ تاکہ اس میں خاتون اوّل کا نام نہ آئے تاکہ اس میں وزیراعظم کے فرزندوں اور صاحبزادی کا نام نہ آئے۔
عالی مرتبت وزیر اعظم! آپ خود اگر گرداب میں ہیں تو اپنے ساتھ ملک کو تو گرداب میں غوطے نہ دیجیے۔ آپ نے اپنی گاڑی کے ساتھ ملک کی گاڑی کو بھی ٹو چین Tow Chain کر رکھا ہے۔ اس زنجیر کو کاٹ دیجیے‘ آزاد ہو جائیے۔ پھر میدان میں اتر کر عمران خان سے نمٹیے۔ دو دو ہاتھ کیجیے۔ پھر اگر اللہ نے آپ کو اس گرداب سے نکال دیا‘ اگر آپ عدالتوں سے سرخرو ہو کر نکل آئے تو یقین کیجیے لوگ آپ کے راستے میں پلکیں نہیں‘ بینائی بچھائیں گے۔ نوجوان شاعر طاہر شیرازی نے یوں لگتا ہے آپ ہی کے لیے کہا ہے ؎
یوں ہؤا اللہ پھر میری مدد کرنے لگا
میں بلا کی پیاس میں پانی کو رد کرنے لگا
آپ تخت کی نقریٔ اور تاج کی زرّیں زنجیر سے آزاد ہو جائیں گے تو غیب سے مدد کے دروازے کھلیں گے۔ حقیقت لوگوں پر واشگاف ہو جائے گی۔ دشمن زیر ہوں گے۔ آپ سرخرو ٹھہریں گے!
جناب وزیراعظم! میں آپ کے مبارک ہاتھوں کو بوسہ دے کر عرض پرداز ہوں کہ جو لوگ آپ سے اور آپ کی حکومت سے فائدہ اٹھانے والے (Beneficiaries) ہیں وہ کبھی آپ کو اس مشورے پر عمل پیرا نہیں ہونے دیں گے اس لیے کہ ان کے مفادات کا تقاضا یہی ہے۔ بہت کم ان میں سے ایسے ہیں جو آپ کی ذات سے محبت کرتے ہیں۔ بہت کم وہ ہیں جو وزیراعظم کے نہیں‘ میاں نوازشریف کے وفادار ہیں۔ ان میں اکثریت اُن فصلی بٹیروں اور اُن موسمی پرندوں کی ہے جو ہر وقت اڑان بھرنے کے لیے تیار رہتے ہیںِ‘ یہ وہ چکور ہیں جنہیں باغبان سے نہیں‘ باغ میں خوش خوش پھرنے سے غرض ہے‘ یہ جنرل پرویز مشرف کے زمانے میں بھی باغ میں خوش خوش پھر رہے تھے، آپ کے عہد ہمایونی میں بھی خوش خوش پھر رہے ہیں اور آپ کے بعد آنے والوں کے عہد میں بھی خوش خوش پھرتے رہیں گے۔ یہ تلور ہیں اور شکاری کی تلاش میں رہتے ہیں۔ ڈھیر ہو کر صید بننے کو تیار! یہ وہ باز ہیں جو کسی بھی ہاتھ پر بیٹھنے کو تیار ہیں بشرطیکہ وہ ہاتھ بادشاہ کا ہو!
مسئلہ آپ کی عزت کا نہیں! عالی جاہ! مسئلہ ملک کی عزت کا ہے۔ خدا کے لیے جناب وزیراعظم خدا کے لیے! اس قوم کو جس کی سانس دھونکنی کی طرح چل رہی ہے‘ اس کرب سے نجات دلائیے۔