پاکستانی مشیر خارجہ سے بھارت نے عملی طور پر قیدیوں کا سا سلوک کیا۔ عین اس وقت صوبے کے وزیر اعلیٰ ترکی میں ایک عجائب گھر کے افتتاح کی تقریب میں شرکت کر رہے تھے۔ قطری شہزادے بھکر کے ریگستان میں بچے کھچے تلور ختم کرنے میں مصروف ہیں اور ملک کے وزیر اعظم‘ ماشاء اللہ پنجاب کے شہروں کے میئر اور ڈپٹی میئر چننے کے لیے پارٹی کی پنجاب برانچ میں مصروف ہیں۔ انا للہ وانا الیہ راجعون! ؎
وہ شاخِ گل پہ زمزموں کی دُھن تراشتے رہے
نشیمنوں سے بجلیوں کا کارواں گزر گیا
پنجاب کے وزیر اعلیٰ جس وقت ترکی میں میڈیا سے کشمیر کے بارے میں گفتگو کر رہے تھے‘ عین اس وقت سرتاج عزیز کو بھارت گولڈن ٹمپل جانے اور پریس کانفرنس کرنے سے روک رہا تھا۔ سوال یہ ہے کہ صوبائی وزیر اعلیٰ ترکی میں کس حیثیت سے ''خارجہ امور‘‘ نمٹا رہے تھے؟ سنا ہے پاکستان میں ایک پارلیمنٹ ہے اور صوبے میں بھی منتخب اسمبلی ہے۔ ہے کوئی پوچھنے والا کہ شہنشاہِ معظم کے برادرِ خورد اب تک ترکی کے کتنے دورے کر چکے ہیں؟ ان دوروں پر پاکستانی عوام کی کتنی رقم صرف ہو چکی ہے؟ اور اسی عرصہ میں سندھ، بلوچستان، کے پی اور گلگت بلتستان کے وزرائے اعلیٰ کتنی بار اس دوست ملک میں گئے ہیں؟
اگر خارجہ امور برادرِ خورد ہی نے نمٹانے ہیں تو پھر وہ امرتسر کی کانفرنس ہی میں چلے جاتے۔ پاکستان اس سبکی سے بچ جاتا جس کا اُسے سامنا کرنا پڑا۔ افغانستان اور ایران کے رہنمائوں کو مُودی صاحب نے کانفرنس میں اپنے پاس بیٹھنے کا اعزاز دیا اور پاکستانی مشیر کو اس کونے میں! جہاں صحافی بیٹھے تھے۔ میاں شہباز شریف جاتے تو مودی کی آنکھ میں اتنی شرم ضرور ہوتی کہ دوستِ عزیز کے بھائی کو باعزت نشست دیتا! پاکستانی عوام اب یہ بات سمجھ لیں کہ پاکستان کو اگر کوئی فائدہ ہوا تو وزیر اعظم کی وجہ سے نہیں ہو گا بلکہ میاں محمد نواز شریف کی وجہ سے ان کی ذاتی حیثیت کی بنا پر ہو گا؟
ترکی سے برادرِ خورد برطانیہ گئے کیوں؟ تاکہ طبی معائنہ کرائیں! یہ الگ بات کہ ہیتھرو ہوائی اڈے پر مسلم لیگ نون کے دو گروہوں میں مُکے، لاتیں اور گھونسے چل گئے۔ استقبال کے لیے دونوں گروہوں میں مقابلہ تھا۔ یہ مقابلہ دست بدست لڑائی کی صورت اختیار کر گیا۔ آخری خبریں آنے تک مسلم لیگ نون کے چار کارکن لندن پولیس کی حراست میں تھے۔ تعجب کی بات ہے کہ اپنے ملک میں پولیس کو لونڈی سمجھنے والے وزیر اعلیٰ نے لندن میں گرفتار ہونے والے کارکنوں کی کوئی مدد نہیں کی۔ پولیس کو ''حکم‘‘ دیتے تو معلوم ہو جاتا کہ مہذب ملکوں میں پولیس کا کیا سٹیٹس ہے۔ رہا طبی معائنہ! تو کچھ دن پہلے کہیں ایک بینر لگا تھا جس پر لکھا تھا ''صحت مند پنجاب‘‘۔ نیچے دونوں بھائیوں کی تصویریں تھیں۔ سوشل میڈیا پر کسی دلے جلے نے بینر کے ساتھ یہ لکھ دیا کہ دونوں بھائی اپنا علاج بیرون ملک سے کراتے ہیں۔ اس پر یہ بینر وائرل ہو گیا!
اب جب صوبائی مسلم لیگ نون کے سربراہ طبی معائنہ کے لیے لندن (براستہ ترکی) تھے تو ان کی عدم موجودگی میں کوئی ایک شخص بھی صوبے میں ایسا نہ تھا کہ صوبائی پارٹی کے اجلاس کی صدارت کرتا۔ بالآخر یہ پتھر بھی بھائی کی خاطر بھائی ہی کو اٹھانا پڑا۔ وزیر اعظم نے وفاق کو خدا کے سپرد کیا اور توجہ صوبے کی مسلم لیگ پر مبذول کر دی۔ اجلاس کی صدارت خود بنفس نفیس کی اور کہیں اپنے کسی وزیر کے بھائی کو اور کہیں اپنے کسی وزیر کے والد گرامی کو چیئرمین ضلع کونسل کے ٹکٹ مرحمت فرمائے! کل کی خبر یہ تھی کہ راولپنڈی کے میئر کا فیصلہ بھی ملک کے وزیر اعظم ہی کریں گے۔ اگر مردان، نوشہرہ‘ شکار پور، حیدر آباد اور دوسرے شہروں کے عوام میں رمق بھر بھی سیاسی شعور ہوتا تو ضرور مطالبہ کرتے کہ ان کی ضلع کونسلوں کے لیے بھی چیئرمینی کا فیصلہ وزیر اعظم ہی کریں۔ آخر گوجرانوالہ، سیالکوٹ اور راولپنڈی کو کون سے سرخاب کے پر لگے ہیں؟
اس موقع پر کوتاہ نظر نقاد ضرور کہیں گے کہ جناب وزیر اعظم ذہنی اعتبار سے پنجاب سے باہر ہی نہیں نکلتے۔ کاش وہ مجبوری دیکھتے اور الزام لگانے کے بجائے انصاف کرتے۔کوئی مجبوری سی مجبوری تھی! صوبائی وزیر اعلیٰ خارجہ امور نمٹانے ترکی گئے ہوئے تھے۔ ساتھ ہی طبی معائنہ کرانے ایک دو کوس آگے لندن بھی چلے گئے۔ ایسے میں اگر صوبے کو اپنے معاملات چلانے کے لیے وزیر اعظم کی خدمات مستعار لینا پڑیں تو کون سی قیامت آ گئی؟
جو کچھ امرتسر کی ''ہارٹ آف ایشیا‘‘ میں پاکستان کے ساتھ ہوا‘ اُس حوالے سے یہ بات ذہن میں رہے کہ وزیر خارجہ کا قلم دان جناب وزیر اعظم کی میز پر دھرا ہے۔ تو کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ جو کچھ مشیر کے ساتھ ہوا‘ وہ ایک لحاظ سے، وزیر خارجہ کے ساتھ ہوا؟ یہ شور تو مچایا جاتا ہے کہ وفاقی حکومت امور خارجہ کے لحاظ سے ''آزاد‘‘ نہیں اور عملاً خارجہ امور کا فیصلہ کہیں ''اور‘‘ ہوتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا وزیر خارجہ خود خارجہ امور میں دلچسپی لیتے ہیں؟ کہیں ''اور‘‘ سے اگر یہ اختیار واپس لینا ہے تو اس کے لیے ثابت کرنا ہو گا کہ آپ کو ان امور کا ادراک بھی ہے! مثال ایک نکتے سے واضح ہو گی! روس نے امرتسر میں پاکستان کی حمایت کی ہے۔ افغانستان کی یا وہ گوئی اور ایران کی سرد مہری کے درمیان یہ واحد حمایت تھی جو پاکستان کو حاصل ہوئی۔
عالمی بساط پر جو تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں کیا ہماری وفاقی حکومت‘ بالخصوص وزیر خارجہ‘ ان تبدیلیوں کے مضمرات سے آگاہ ہیں؟ جس قدر امریکہ کا جھکائو بھارت کی طرف ہو رہا ہے‘ روس کو اتنا ہی دھچکا لگ رہا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ روس اور بھارت کی دوستی مثالی تھی۔ مگر بین الاقوامی تعلقات سیماب صفت ہوتے ہیں۔ یہاں صرف ایک شے مستقل ہے اور وہ شے ''ملکی مفاد‘‘ ہے۔ وہی امریکہ جو ایران کا دشمن ہے‘ اب اس کی طرف جھکا ہوا ہے۔ دنیا دیکھ رہی ہے کہ چین، روس اور پاکستان کا اتحاد آہستہ آہستہ ابھر رہا ہے جبکہ دوسری طرف امریکہ، بھارت، ایران اور افغانستان ایک دوسرے کے قریب آ رہے ہیں۔ اس حوالے سے بھارت کے تھنک ٹینک کھلم کھلا روس کی مذمت کر رہے ہیں۔ صرف ایک مثال: انڈین ڈیفنس ریویو ایک طاقت ور ادارہ ہے جسے سابق فوجی افسران چلا رہے ہیں۔ اس نے اپنی ایک حالیہ اشاعت میں اپنی حکومت کو متنبہ کیا ہے کہ وہ روس اور پاکستان کے ''بڑھتے ہوئے‘‘ تعلقات پر گہری نظر رکھے۔ روس اور پاکستان کی مسلح افواج نے جو مشترکہ مشقیں حال ہی میں کی ہیں‘ اس سے بھارتی حلقوں میں شدید اضطراب پایا جا رہا ہے۔ کچھ کے نزدیک چین کی طرف سے روس پر دبائو ہے کہ وہ پاکستان کی طرف مثبت قدم اٹھائے!مگر کیا پاکستان اس موقع سے فائدہ اٹھا رہا ہے؟ مشترکہ فوجی مشقوں کے بعد‘ اب تک‘ وزیر اعظم کو روس کا دورہ کر لینا چاہیے تھا۔ اگر روس پاکستان کی طرف ایک قدم بڑھا رہا ہے تو پاکستان کو دو قدم آگے بڑھ کر جواب دینا چاہیے تاکہ روس کے چہرے کی بچت (Face Saving)ہو اور دلجوئی بھی ہو!
صدر اشرف غنی نے ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں تقریر کرتے ہوئے پاکستان کی پانچ سو ملین ڈالر کی امداد پاکستان کے منہ پر مارتے ہوئے دہشت گردی کی دہائی دی۔ اس میں کیا شک ہے کہ افغان صدر بھارت کی گود میں بیٹھ کر پاکستان کا منہ نوچ رہے ہیں۔ مگر حافظ سعید جیسے مہربانوں کو افغانستان کی طوطا چشمی نظر ہی نہیں آتی۔ ان کی سوئی ایک ہی جگہ پر اٹکی ہوئی ہے۔ وزیر اعظم کو خطاب کر کے حافظ صاحب نے فرمایا ہے کہ ''افغان کل بھی آپ کے ساتھ تھے اور آج بھی آپ کے ساتھ ہیں۔ حکومت اپنی پالیسیوں کو بہتر بنائے‘‘۔ ویسے بھارت بھی یہی کچھ کہتا ہے کہ پاکستان افغانستان کے حوالے سے اپنی پالیسیاں بہتر بنائے!!
حافظ صاحب بنے بنائے وزیر خارجہ ہمارے پاس موجود ہیں! نہ جانے وزیر اعظم کو کیوں نہیں نظر آ رہے ؎
میں اپنا عقدۂ دل تجھ کو سونپ دیتا ہوں
بڑا مزہ ہو اگر وا نہ کر سکے تو بھی!