اے خاصۂ خاصانِ رسل!

یہ جنگل ہے جس میں ہم رہ رہے ہیں۔ روئیدگی اس قدر گھنی ہے کہ چلنے کا راستہ نہیں۔ چیونٹی رینگنا چاہے تو اس کی کھال ادھڑ جائے۔ اوپر دیکھیں تو درختوں نے نظر کے راستے کو مسدود کر رکھا ہے۔ آسمان اتنا بھی نہیں نظر آتا جتنا ہاتھ میں رکھا جانے والا رومال! دائیں بائیںخونخوار جانور ہیں۔ درختوں کے تنوں سے اژدہے لپٹے ہوئے! یہاں کوئی قانون نہیں! جس نے رہنا ہے، اپنے بل بوتے پر رہے۔ ورنہ چلا جائے۔ ؎
بھاگ مسافر میرے چمن سے میرے وطن سے بھاگ
اوپر اوپر پھول کھلے ہیں بھیتر بھیتر آگ
کراچی کے نام نہاد فائیو سٹار اور اصلاً فورسٹار ہوٹل میں آگ لگی۔ درجن جانیں موت کے گھاٹ اتر گئیں۔ پانچ ان میں ڈاکٹر تھے جو دوسروں کی جانیں بچانے کا فن جانتے تھے۔ کوئی غیر جانب دار، منصف، ادارہ تفتیش کرے تو بیس سے زیادہ جرائم ہوٹل انتظامیہ کے نکلیں۔ ہر کمرے میں آگ بجھانے والا آلہ ہونا چاہیے۔ کسی کمرے میں نہیں تھا۔ الارم سسٹم کام نہیں کر رہا تھا۔ باہر جانے کے راستے، دو کے علاوہ، سارے بند تھے۔ اس پر طرفہ ستم یہ کہ بر وقت متعلقہ اداروں کو اطلاع تک نہ دی گئی۔ مگر یہ سب کچھ چیک کرنے کے لیے سرکاری ادارے موجود ہیں۔ یہ سرکاری ادارے کیا کر رہے تھے؟ میونسپل ادارے کا سربراہ ٹیلی ویثرن پر بیٹھ کر ایسی گول مول بے ضرر باتیںکر رہا تھا جس سے، اس کے خیال میں، کسی بڑے پر زد نہ پڑے۔ غضب خدا کا، مشینیں ہیں نہ آگ بجھانے والی گاڑیاں۔ جو ہیں وہ خراب ہیں۔ ایک کرین نما مشین ہوتی ہے جس کے ایک سرے پر ایک ٹوکری لگی ہوتی ہے۔ یہ چھٹی، ساتویں، دسویں پندرھویں منزل تک پہنچ جاتی ہے۔ مسافر کمرے کی کھڑکی توڑ کر اس میں بیٹھ جاتاہے اور اسے نیچے اتار لیا جاتا ہے۔ کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ سول ڈیفنس کے پاس اس قسم کی کوئی چیز نہیں؟ جو گاڑیاں خراب ہیں، ٹھیک نہیں کرائی جاتیں۔ صوبائی وزیر روانی سے تقریر کر کے لیپاپوتی کر رہا تھا کہ سارا بجٹ تنخواہوں پر لگ جاتاہے۔ یہ اس صوبے کا وزیر کہہ رہا ہے جس کے لیڈر ''میٹنگ ‘‘ اٹنڈ کرنے پارٹی کے سربراہ کے حضور دبئی یوں اڑ کر جاتے ہیںجیسے وہیں کی پیدائش ہوں اور جیسے دبئی حیدر آباد سے بھی قریب تر ہو!
کوئی ادارہ کام نہیں کر رہا۔ عمارتیں، پلازے لوہے اور سیمنٹ کے قوی ہیکل جسم مسلسل کھڑے کیے جارہے ہیں۔ کوئی نہیں پوچھنے والا کہ پارکنگ کا بندوبست کیا جارہا ہے کہ نہیں۔ شاہراہوں پر قتل عام ہو رہا ہے۔ زراعتی (ایگریکلچرل) گاڑیاں(ڈمپر، ٹریکٹر، ٹرالیاں)لوگوں کو کچل رہی ہیں۔ کروڑوں موٹر سائیکل ، بتیوں کے بغیر سڑکوں پر قانون کو دن رات روند رہے ہیں۔ وفاق کے سربراہ کو پروا ہے نہ صوبائی حکمرانوں کو فکر ہے۔ یہ رعایا کی حفاظت کے لیے نہیں، حکومت کرنے کے لیے تخت پر بیٹھے ہیں۔ نہ جانے حکومت کرنے سے یہ کیا مراد لیتے ہیں! 
جی ہاں ! یہ جنگل ہے۔ جو رہنا چاہتا ہے، رہے۔ جو جانا چاہتاہے، وہ چلا جائے۔ دنیا کی تاریخ میں ایک ایسا ملک بھی ہے جس کے سربراہ نے واشگاف الفاظ میں کہہ دیا کہ جو جانا چاہتا ہے، جائے، روکا کس نے ہے۔ تاریخ نے یہ اعزاز اسی ملک کے سرپر سجایا ہے۔ تاریخ عالم میں ایک ایسا صدر بھی گزرا ہے جس نے ببانگ دہل کہا تھا کہ اس کے ملک کی عورتیں اس لیے آبروریزی کراتی ہیں کہ دوسرے ملکوں کی ہمدردیاں حاصل کریں۔ یہ اعزاز بھی تاریخ نے اسی فقیر کے وطن کو مرحمت فرمایاہے۔ یہ فلاحی ریاست بننا تھی مگر سیکورٹی سٹیٹ بن گئی۔ یہ عوام کے جان ومال کے تحفظ کی ضامن ہونا تھی مگر پولیس صرف حکمرانوں اور سیاست دانوں کی محافظ ہوکر رہ گئی۔ ہے کوئی پوچھنے والا اور ہے کوئی بتانے والا کہ کتنی بُلٹ پروف گاڑیاں خریدی گئیں‘ گزشتہ دس یا پندرہ برسوں کے درمیان؟ اور کن کن کو دی گئیں؟ کس حکمران اور کس سیاست دان کے گھر پر کتنے پولیس والے پہرہ دے رہے ہیں اور کتنی موبائل گاڑیاں کس کس کے آگے پیچھے دوڑ رہی ہیں؟ یہ کون ہیں جن کی جانیں عوام کی جانوں سے زیادہ قیمتی ہیں! حکومت کا سربراہ ایک شاہی فرمان جاری کرتاہے کہ فلاں سابق چیف جسٹس کو بلٹ پروف گاڑی دی جائے۔ وزارتِ خزانہ سے پوچھتا ہے نہ اسمبلی سے، عدالت اب واپس لینا چاہتی ہے مگر سابق چیف جسٹس دینے کے لیے تیار نہیں! موصوف نے سیاسی جماعت بنالی ہے۔ جان کا اتنا خطرہ ہے تو گھر کی چاردیواری میں رہو۔ مگر یہاں عزتِ نفس منڈی کی ارزاں ترین جنس ہے۔ ایک شخص نے دوسرے کوغیرت دلانے کے لیے طعنہ دیا تھا کہ تمہاری '' پیٹھ ‘‘ پر درخت اُگاہے۔ اس نے پلک جھپکائے بغیر آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جواب دیا کہ تمہیں کیا؟ اس کی چھاؤں میں بیٹھیں گے!
کروڑوں روپے محلات کی چاردیواریاں کھڑی کرنے کے لیے قومی خزانے سے لگائے جارہے ہیں۔ ایک کو چھینک آجائے تو خاندان کے خاندان عوام کے مال کو شیرِ مادر سمجھتے ہوئے ولایت کا رخ کرتے ہیں۔ وزیر اعظم تو دور کی بات ہے، کوئی صوبائی گورنر یا وزیر اعلی یا وفاقی وزیر تک بازار سے سودا سلف خود نہیں خریدتا کہ عوام کی حالتِ زار کا اندازہ ہی کر لے۔ جہاں سے انہوں نے گزرنا ہو، وہاں راتوں رات پکی سڑک بن جاتی ہے۔ یہ طبقۂ اشرافیہ ( بر وزن بدمعاشیہ) ہر اُس چیز سے دور بھاگتا ہے جہاں عوام کا گزر ہو۔ ان کے تعلیمی ادارے، ان کے ہسپتال، ان کی سیر گاہیں، سب کچھ الگ ہے۔ خریداری کے لیے یہ لندن، دبئی اور نیو یارک یوں جاتے ہیں جیسے یہ ان کے مقامی محلّے ہوں۔
چند سال قبل بھو جاایئر لائن کا طیارہ چک لالہ کے قریب گر کر تباہ ہوا۔ روایات کہتی ہیں کہ وہ پرواز کے لیے فٹ نہیں تھا مگر کلیئرنس دے دی گئی۔ پرسوں قومی ایئر لائن کا طیارہ چترال سے چلا اور حویلیاں کے مقام پر کریش ہوگیا۔ جنید جمشید اور ان کی بیگم بھی شہید ہونے والوں میں شامل ہیں۔ نوجوان ڈپٹی کمشنر اپنی بیوی اور بیٹے کے ساتھ اسی طیارے میں سوار تھا۔ 47قیمتی جانیں تلف ہوگئیں۔ ہماری قومی ایئر لائن دنیا کی خطرناک ایئر لائنوں میںشامل ہوچکی ہے۔ سیاسی بنیادوں پر ملازمین اس قدر اس میں ٹھونسے گئے اور یہ عمل اتنے طویل عرصہ تک جاری رہا کہ اب یہ اس کچھوے کی مثال ہے جو بھاری پشت کی وجہ سے چل ہی نہیں سکتا۔ فی جہاز افرادی قوت اتنی زیادہ ہے کہ کسی ترقی یافتہ ایئر لائن میںاس تناسب کا سوچاہی نہیں جاسکتا۔ یونین اس قدر طاقت ور ہے کہ کسی اتھارٹی کو کسی معاملے میں کوئی فیصلہ نہیں کرنے دیتی۔ چلنے دیتی ہے، نہ نجی شعبے میں لے جانے دیتی ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ حزبِ اختلاف کی جماعتیں یونین کے ساتھ کھڑی ہیں۔ ایک مذہبی سیاسی جماعت، جس نے سوشلزم کے خلاف ایک زمانے میں کشتوں کے پشتے لگادیے تھے، آج قومی ایئر لائن اور سٹیل مل جیسے سراسرناکام اداروں کو نجی شعبے میں منتقل کرنے کی مخالف ہے۔ صرف اس لیے کہ حکومت ایسا چاہتی ہے۔
ہمارا شمار اب صومالیہ اور عراق جیسے ملکوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ پاسپورٹ بے وقعت ہے۔ کرنسی کی قیمت شرم ناک ہے۔ حکمران پاناما جیسے معاملات میں گلے تک دھنسے ہوئے ہیں۔ عوام مر رہے ہیں۔ ریل گاڑیوں میں، جہازوں میں، شاہراہوں پر، کچھ افلاس سے تنگ آکر خود کشیاں کر رہے ہیں۔ مودی چھری تیز کر رہا ہے۔ اشرف غنی نے آنکھیں ماتھے پر رکھولی ہیں۔ رہی سہی کسر ٹرمپ پوری کردے گا۔
اے خاصہء خاصان ِرسل! وقت دعاہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں