انڈونیشیا کئی ہزار جزیروں پر مشتمل ہے۔ اس کے مشرقی جزیروں میں فجر ساڑھے پانچ بجے ہوتی ہے۔ ہزاروں مسجدوں میں موذن کھڑے ہو کر اذان کہتے ہیں۔ اذان کے درمیان ایک کلمہ ہے اَشہَدُ اَنَّ مُحَمَّدً رَّسُولُ اللّٰہ ۔ میں شہادت دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے رسول ہیں۔ یہ شہادت فضائوں میں گونج اٹھتی ہے۔
انڈونیشیا کے درمیانی جزائر کا وقت ایک گھنٹہ پیچھے ہے۔ یعنی ایک گھنٹہ بعدمرکزی جزائر میں محمد رسول اللہ کے کلمات بلند ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ پھر ایک گھنٹہ بعد جاوا اور سماٹرا کے مغربی جزیروں میں یہی نام بلند ہونے لگتا ہے۔
ایک گھنٹے بعد ملائیشیا کی باری آتی ہے پھر تھائی لینڈ کی۔ ابھی تھائی لینڈ میں محمدؐ کے نام کی گونج باقی ہے کہ ڈھاکہ میں محمد رسول اللہ کی آوازیں اٹھنے لگتی ہیں۔ پھر کلکتہ میں ۔ ایک گھنٹہ بعد سری نگر میں!
سری نگر اور سیالکوٹ میں فجر کا وقت ایک ہی ہے۔ تاشقند ، سمرقند اور بخارا بھی اسی ٹائم زون میں ہیں۔ ان تمام شہروں میں محمدؐ کا نام ایک ہی وقت میں گونجتا ہے۔
پھر افغانستان اور ایران اٹھتے ہیں۔ پھر خلیج کی ریاستیں اور مسقط! اتنے میں مکہ اور مدینہ میں صبح ہوتی ہے، جہاں سے اس روشنی کا آغاز ہوا تھا۔ وہاں ہزاروں مسجدوں میں محمدؐ کی رسالت کا غلغلہ برپا ہوتا ہے۔
استنبول اور خرطوم ایک ہی ٹائم زون میں ہیں۔ اس سے ایک گھنٹہ پہلے قاہرہ سے لے کر سکندریہ تک محمدؐ کا نام گونجنے لگتا ہے۔ پھر خرطوم سے لے کر استنبول تک فضا اس شہادت سے بھر جاتی ہے۔ پھر یہ سعادت لیبیا میں طرابلس کے ہاتھ آتی ہے۔ اتنی دیر میں الجزائر سے ہوتی ہوئی، فاس رباط، کاسا بلانکا، طنجہ، قرطبہ، غرناطہ، بارسلونا اور میڈرڈ میں پھوٹنے لگتی ہے۔ بحراوقیانوس کا مشرقی کنارہ محمدؐ کے نام سے گونجنے لگتا ہے۔
اب صبح نے بحراوقیانوس پار کرنا ہے۔ ٹورنٹو سے لے کر فلوریڈا تک، واشنگٹن سے لے کر نیو جرسی تک بے شمار مساجد ہیں جہاں رسالت کی گواہی فضائوں میں تیرتی آسمان کی طرف پرواز کرتی ہے۔
مگر ٹھہریے، جتنی دیر میں صبح کی اذان کا سفر بحر اوقیانوس پار کرتا ہے، انڈونیشیا کے مشرقی حصے میں، جہاں سے ہم نے یہ سفر شروع کیا تھا، ظہر کی اذانیں گونجنے لگتی ہیں۔ ظہر، ڈھاکہ اور کلکتہ پہنچتی ہے تو جکارتہ اور سنگاپور میں عصر کی اذانیں ہونے لگتی ہیں۔ افریقہ میں جب عشاء کی اذانیں ہو رہی ہوتی ہیں تو انڈونیشیا کے مشرقی حصے میں صبح کی اذان ایک بار پھردی جا رہی ہوتی ہے۔
غور کیجیے، اس کا کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ کرۂ ارض پر کوئی وقت ایسا نہیں جب فضا میں محمد رسول اللہﷺ کے کلمات بلند نہ ہو رہے ہوں۔ ایک دو یا دس مقامات سے نہیں، ہزاروں، لاکھوں مقامات سے!
پھر دوبارہ غور کیجیے، یہ اندازہ جو آپ نے لگایا ہے، صرف لمحہ موجود کے حوالے سے لگایا ہے۔ آنکھیں بند کر کے سوچیے، ایسا کب سے ہو رہا ہے؟ سینکڑوں سال سے! یعنی کتنی ہی صدیوں سے ہر وقت فضائوں میں، ہر لمحہ زمین کے کسی نہ کسی حصے میں، محمدؐ کا نام گونج رہا ہے۔
اب دوبارہ آنکھیں بند کرکے سوچیے، قیامت تک ایسا ہوتا رہے گا۔ جو مسجدیں قائم ہیں، وہ تو قائم ہیں، کتنی نئی مسجدیں تعمیر ہو رہی ہیں۔
اب مسجدوں کی بات بھی چھوڑیے، جہاں بھی، کسی سکول میں، کسی بازار میں، کسی گھر میں، کسی جنگل میں، کسی دفتر میں، دو یا چار یا پندرہ مسلمان مل کر نماز پڑھتے ہیں، اقامت ضرور کہتے ہیں۔ ہر اقامت میں محمدؐ کی رسالت پر گواہی دی جاتی ہے! کیا خبر قیامت تک کتنا وقت باقی ہے۔ کتنے لمحے، کتنے سال، کتنی صدیاں!! ایسا ہی ہوتا رہے گا۔
سوچیے، اس لمحے کرۂ ارض پر کتنے انسانوں نے صلی اللہ علیہ و سلم کہا ہوگا! جمعہ کے دن ہر امام خطبہ میں قرآن کی آیت پڑھتا ہے: صلوا علیہ وسلموا تسلیما! جیسے ہی اس کے ہونٹوں سے یہ آیت طلوع ہوتی ہے، حاضرین محمدﷺ پر درود بھیجنا شروع کر دیتے ہیں۔ تصور کیجئے، کتنے کروڑوں انسان ہر جمعہ کے دن ایسا کرتے ہوں گے! چودہ سو سال سے ایسا کرتے آئے ہیں۔ ایسا کرتے رہیں گے۔
اب ان نعتوں اور قصائد کا تصور کیجئے، جو آج تک محمد ﷺ کی شان میں کہے گئے۔ یہ سلسلہ حضرت حسان بن ثابت سے شروع ہوا۔ میرے ماں باپ آپ پر قربان، حضرت حسانؓ آپ کی کیسی تعریف کر گئے ہیں:
وَ اَحسنَ مِنکَ لَم تَرقَطُّ عَینِی
وَ اَجمَلَ مِنکَ لم تَلِدُ النساء
خُلِقتَ مُبَرَّاً مَن کُلِّ عَیبً
کَاَنَّکَ قَد خُلِقتَ کَمَا تَشاء
آپ سے زیادہ حسین میری آنکھ نے کچھ نہیں دیکھا۔ آپ سے زیادہ جمیل کسی عورت نے نہیں جنا۔ آپ ہر عیب سے پاک پیدا کیے گئے۔ گویا آپ کو اسی طرح پیدا کیا گیا جیسا کہ آپ چاہتے تھے۔
ہمیں تو صرف سعدی کا اور حافظ کا اور رومی کا اور اقبال کا اور کچھ دوسرے شعراء اور ادیبوں کا معلوم ہے۔ ہمیں تو صرف یہ معلوم ہے کہ ہندو شعرا کا نعتیہ کلام ترتیب دیا گیا ہے۔ مگر یہ تو ایک پہاڑ جیسے گلیشیئر کا ایک کنارا ہے۔ محض ایک کنارا۔ دنیا میں کتنی ہی زبانیں ہیں۔ ہر زبان میں محمد ﷺ کے قصائد کہے گئے۔ صرف فارسی ، عربی، ترکی اور اردو کا تصور کیجیے۔ ہزاروں سال سے جو کتابیں لکھی جا رہی ہیں، ان کا آغاز حمد خدا کے بعد شان رسالتؐ سے ہوتا ہے۔ سینکڑوں سال سے تو ہر کتاب میں معراج کی تعریف الگ ہو رہی ہے۔ جامی، نظامی، خسرو، سنائی، انوری، خاقانی جیسے کتنے ہی آئے اور آپ کی شان میں موتی بکھیرتے ، ہیرے لٹاتے، نوک قلم سے نیلم اور الماس نکالتے رخصت ہوگئے۔
روز قیامت تک نابغے پیدا ہوتے رہیں گے، عبقری ابھرتے رہیں گے، جینئیس ظاہر ہوتے رہیں گے۔ محمد رسول اللہ کی شان میں نعتیں لکھتے رہیں گے۔ پڑھتے رہیں گے، خطبے دیتے رہیں گے، کتابیں تصنیف کرتے رہیں گے۔ کتنے شبلی، کتنے ڈاکٹر حمید اللہ، کتنے سلیمان ندوی،کتنے ابوالاعلیٰ مودودی، کتنے سید قطب، کتنے یوسف قرضاوی، کتنے وہب الزحیلی، کتنے شیخ البانوی، کتنے قاسم نانوتوی، کتنے احمد رضا خان، کتنے اقبال، کتنے سعدی پیدا ہوتے رہیں گے۔ شان رسالت پر اپنی زبانیں، اپنے قلم قربان کرتے رہیں گے اور حافظ محمد ظہور الحق ظہورؔ کی طرح اظہار عجز کرتے رہیں گے ؎
ہے شان تری اس سے کہیں ارفع و اعلیٰ
جو لفظ تری شان کے شایاں نظر آیا
کتنے کیٹ سٹیونز، یوسف اسلام بن کر، کتنے جنید جمشید کروڑوں کی موسیقی تج کر، محمد کا روضہ قریب آ رہا ہے، پڑھتے پڑھتے اپنے رب کے حضور حاضر ہوتے رہیں گے۔
آج تک کوئی شخص مطمئن نہیں ہوا۔ عظیم تخلیقی صلاحیتوں کے مالک جب شان رسالتؐ بیان کرنے لگتے ہیں تو الفاظ کا دامن تنگ لگتا ہے۔ قلم وسعتوں میں کھو جاتے ہیں اور تخلیق کار پکار اٹھتا ہے ؎
مری زباں پہ لغت بولتی ہے اور مجھے
ملا نہ لفظ تری آنکھ کے فسوں کے لیے
غالب جیسا شاعر، لغت جس کے آگے رکوع میں کھڑی رہتی ہے اور الفاظ و معانی جس کے گھر کا پانی بھرتے ہیں، آخر میں تھک ہار کر کہنے پر مجبور ہو جاتا ہے ؎
غالب ثنائے خواجہ بہ یزداں گزاشتیم
کاں ذات پاک مرتبہ دانِ محمدؐ است
کہ ہماری کیا بساط! آپ کی تعریف تو آپ کا پروردگار ہی کرسکتا ہے!
کسی نے مشک و گلاب سے ہزار بار منہ دھویا پھر بھی نام لینے کی ہمت نہ ہوئی۔ کسی نے اس ادب گاہ کو عرش سے نازک تر گردانا۔
پھر سوچیے، اس وقت جب محمد ﷺ کے غلاموں کا غلام یہ سطور نذرکر رہا ہے، اس وقت جب آپ بھیگتی آنکھوں سے یہ مضمون پڑھ رہے ہیں، کتنے ہی انسان، کتنے ہی قافلے مدینہ کی طرف رواں ہوں گے! کتنے جالیوں کے سامنے کھڑے آنسو بہا رہے ہوں گے! کیا کوئی کمپیوٹر انسانوں کی اس تعداد کا شمار کرسکتا ہے جو پندرہ صدیوں میں، کرۂ ارض کے مختلف خطوں سے چل کر مدینہ حاضر ہوا؟ قیامت تک انسان مدینہ کی طرف چلتے رہیں گے۔ حاضر ہوتے رہیں گے اور ہر واپس آنے والا، دوبارہ حاضر ہونے کی کسک دل میں سنبھالتا رہے گا ؎
وہ دانائے سُبُل خَتم الرسل مولائے کُل جس نے
غبارِ راہ کو بخشا فروغِ وادیٔ سینا
نگاہِ عشق و مستی میں وہی اوّل وہی آخر
وہی قرآں وہی فرقاں، وہی یٰسین وہی طہٰ
التماس: پڑھنے والوں سے التماس ہے کہ ایک بار دعا کردیں، یہ عاجزانہ ہدیہ قبول ہو جائے۔