وسوسے

کیا آپ نے کبھی کیرم بورڈ کھیلا ہے؟
اگر کھیلا نہیں تو دوسروں کو کھیلتے دیکھا تو ہو گا۔ اس میں دو فریق ہوتے ہیں۔ کھیلنے والے دو بھی ہو سکتے ہیں اور چار بھی۔ چار ہوں تو دو ساتھی ایک طرف اور دو ساتھی فریق مخالف میں ہوتے ہیں۔ ایک گوٹیاں سفید دوسرے کی سیاہ رنگ کی ہوتی ہیں۔ اپنی گوٹیوں کو پاکٹ میں ڈال کر‘ ان کی تعداد کم کرنا ہوتی ہے۔ جس کی گوٹیاں پہلے ختم ہو جائیں اور وہ سرخ رنگ کی ملکہ کو بھی ہتھیا لے‘ وہ جیت جاتا ہے۔
چار دوست ایک بار کیرم بورڈ کھیل رہے تھے‘ دو کی گوٹیاں سفید رنگ کی تھیں۔یوں ہوا کہ ایک کے ساتھی نے ایک بار فریقِ مخالف کی گوٹی پاکٹ میں ڈال دی۔ دوسری بار بھی اس نے ایسا ہی کیا‘ یا اُس نے ایسا ہو گیا‘ اس نے سیاہ رنگ کی گوٹی پاکٹ کر ڈالی۔ جب تیسری بار بھی اس سے ایسا ہی کیا تو اس کے ساتھی نے کھیل روک دیا اور اپنے ساتھی سے پوچھا۔ یار‘ اصل بات بتائو‘ تم کس کے ساتھ ہو؟
کیرم بورڈ کی ایک بازی چند دن پہلے امرتسر میں کھیلی گئی۔ 
ایک طرف مودی تھے۔ ان کے ساتھ ایرانی فریق بنے ہوئے تھے۔ اشرف غنی بھی مودی کے پہلو میں بیٹھے تھے ؎
بدھو میاں بھی حضرتِ گاندھی کے ساتھ ہیں
اک گو مشتِ خاک ہیں مگر آندھی کے ساتھ ہیں
دوسری طرف ہمارے مشیرِ خارجہ تھے۔ حالاتِ حاضرہ کا طالب علم حیرت سے پوچھتا ہے کہ وہ کس کے ساتھ تھے؟ وہ اپنی کوئی گوٹی پاکٹ نہ کر سکے۔ اس لیے کہ جب مودی نے تقریر میں پاکستان پر تابڑ توڑ حملے کیے تو نکتۂ اعتراض پر مشیر خارجہ نہ اُٹھے۔ انہیں درمیان میں بولنا چاہیے تھا۔پھر جب اشرف غنی نے اپنے مربی کی گود میں بیٹھ کر اچھل اچھل کر پاکستان پر حملے کیے‘ طالبان کی امداد کا الزام لگایا اور پانچ سو ملین ڈالر کی پاکستانی امداد پاکستان کے منہ پر ماری تب بھی مشیر خارجہ خاموش رہے۔ صرف یہی نہیں‘ اس کے بعد افغان صدر سے ملاقات بھی کی۔ کانفرنس میں ان کی نشست بھی ان کے مرتبہ سے کہیں نیچے تھی۔ انہیں رہنمائوں کے برابر نہیں‘ ایک صحافی کے ساتھ بٹھایا گیا تھا۔
ایک پاکستانی سوچتا ہے کہ ایسا کیوں ہوا‘ اور ایسا مسلسل کیوں ہو رہا ہے؟ جب بھارتی وزیر اعظم نے پچھلے دنوں دھمکی دی کہ پاکستان کو ایک ایک بوند کے لیے ترسایا جائے گا‘ تو لازم تھا کہ اس کے مقابلے میں ہمارے وزیر اعظم‘ اس دھمکی کا جواب دیتے مگر وزیر اعظم خاموش رہے!
اس سے ذہن میں وسوسے اٹھتے ہیں۔ خیالات جنم لیتے ہیں۔ خدا بھلا کر ے گیتوں کا ورنہ''وات‘‘ جیسا سرائیکی کا لفظ کب کا ختم ہو گیا ہوتا۔
چن کتھاں گزاری ایٔ رات وے
مینڈا جی دلیلاں دے وات وے
یہاں دلیلوں سے مراد وسوسے ہیں اور وات منہ کو کہتے ہیں یعنی دل وسوسوں کے منہ میں جا رہا ہے‘ کہیں وسوسے اسے کھا ہی نہ جائیں۔
بھارت کے مقابلے میں ہمارا معذرت خواہانہ رویہ‘ ان کی دھمکیوں کے مقابلے میں ہمارے حکمرانوں کی خاموشی‘ آخر سبب کیا ہے؟ کہیں ہمیں دھوکہ تو نہیں دیا جا رہا؟ کہیں ہم فروخت تو نہیں کیے جا رہے ہیں؟ دل ‘ حالات دیکھتا ہے تو اپنی دلیلیں‘ خود تعمیر کرتا ہے۔ وسوسوں کی مُہین چادر خود بُنتا ہے۔ وہ کسی رو رعایت کسی مصلحت کا پابند نہیں۔
پھر مشیر خارجہ کا یہ کہنا کہ کل بھوشن کے خلاف کوئی ثبوت نہیں‘ صرف سٹیٹ منٹ ہے‘ کیا معنی رکھتا ہے؟ آخر یہ کہنے کی کیا ضرورت تھی؟ کون سی سفارتی یا مملکتی مجبوری تھی؟ کیا یہ جرم کافی نہیں کہ وہ ایک فرضی نام سے ہماری سرزمین میں موجود تھا؟ کیا وہ یہاں رامائن کا سبق پڑھنے آیا تھا یا یہاں اس کی پھوپھی تھی جسے ملنے آیا ہوا تھا؟
رہی یہ بات کہ بھارتی وزیر داخلہ کی کل والی گیدڑ بھبکی کا جواب ہمارے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے دیا تو اس سے وسوسے دور نہیں ہوتے اس لیے کہ سب جانتے ہیں چوہدری نثار علی حکمِ حاکم کی تعمیل کرنے والے بندے ہی نہیں‘ وہ جو کچھ کرتے ہیں یا کہتے ہیں‘ اپنی سوچ کے مطابق کرتے ہیں۔یس، سر یس سر کہنے والے ہوتے تو مدتوں وزیر اعظم سے قطع کلامیاں نہ ہوتیں۔ ایک بار پھر اس حقیقت کی نشان دہی کرنا نامناسب نہ ہو گا کہ حکومت میں وہ واحد اہم شخصیت ہیں جو وسطی پنجاب کی پٹی سے تعلق نہیں رکھتے۔ اس کے باوجود ان کی اہمیت وہی ہے جو خواجہ سعد رفیق‘ خواجہ آصف‘ اسحاق ڈار اور ان دوسرے رہنمائوں کی ہے جو وسطِ پنجاب سے ‘ بالخصوص لاہور سے یا نواحِ لاہور سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ پالیسی معاملات پر بولتے ہیں اور جرأت سے بولتے ہیں۔ ورنہ وزیر تو خاقان عباسی بھی ہیں اور شیخ آفتاب احمد بھی!! دور افق پر نظر جمانے والے تو یہ بھی گمان رکھتے ہیں کہ چوہدری نثار علی خان کا خمیر‘ آخرِ کار‘ کسی ڈوبتی شام کو‘ کسی ابر آلود صبح کو‘ انہیں نون لیگ سے باہر لے آئے گا ؎
کسی کو کیا خبر کیا کچھ چھپا ہے پردۂ شب میں
نہیں قدرت کے اسرارِنہاں کا راز داں کوئی
کیا خبر‘ کل یا پرسوں وہ تحریک انصاف کی طاقت بنے ہوئے ہوں!
ہم امرتسر واپس جاتے ہیں۔ توہین ایک شخص کی نہیں ہوئی۔ مشیر خارجہ کی نہیں ہوئی۔ توہین پاکستان کی ہوئی۔ اس ضمن میں بے جا نہ ہو گا اگر منجھے ہوئے‘ سرد و گرم چشیدہ سفارت کار جناب منیر اکرم کی ایک تحریر کا اقتباس قارئین کی خدمت میں پیش کیا جائے۔
''کچھ عشرے قبل غیر جانب دار تحریک کے رہنمائوں کے ایک اجلاس میں جب میزبان ملک کے صدر نے کیمپ ڈیوڈ سمجھوتے پر کڑی تنقید کی تو مصر کے وزیر خارجہ نے اسی وقت تقریر میں مداخلت کی۔ امرتسر میں اگر پاکستان مودی اور اشرف غنی کی تقریروں کے دوران پوائنٹ آف آرڈر پر مداخلت کرتا تو یہ اس کا حق ہوتا کیوں کہ مودی اور اشرف غنی ایجنڈے کی خلاف ورزی کر رہے تھے اور کانفرنس کے اصل مقصد کو سبوتاژ کر رہے تھے! پھر اگر احتجاج کو نظر انداز کیا جاتا تو ہمارے وفد کو واک آئوٹ کرنا چاہیے تھا۔ یہ بھی نہ ہوتا تو کم از کم پاکستان بھی کانفرنس کے دوران بھارت اور افغانستان کو بتاتا کہ وہ کیا کچھ کر رہے ہیں!‘‘
مقامِ عبرت ہمارے لیے یہ ہے کہ اگر وہاں کوئی ہمارے حق میں بولا بھی تو وہ روس کا نمائندہ تھا۔ بھارت میں تعینات روسی سفیرنے پاکستان کی حمایت کی!
اب جب دنیا کہہ رہی ہے ؎
مگر یہ راز آخر کھل گیا سارے زمانے پر
حمیت نام ہے جس کا گئی تیمور کے گھر سے
تو کیا وقت آ نہیں گیا جب ہم جھرجھری لیں‘ پروں کو جھاڑیں اور اپنے آپ کو مجتمع کریں؟ کیا ہمیں کوئی اور یاد دلائے گا کہ پاکستان کا انحصار افغانستان پر نہیں‘ یہ افغانستان ہے جس کی شہ رگ پاکستان کے ہاتھ میں ہے۔ تصوّر کیجیے‘ اگر ترکی کی توہین کسی ایسی کانفرنس یمں ہوتی تو کیا ترکی کا یہی رویہ ہوتا؟ یہاں تک کہ قطر اور یو اے ای جیسے چھوٹے ممالک بھی یوں بھیگی بلّی نہ بنے ہوتے۔ مشیرّ خارجہ کو عملاً قیدی بنا کر رکھا گیا۔ وہ گولڈن ٹیمپل جا سکے نہ آزادی سے نقل و حرکت کر سکے۔
اور کچھ نہیں تو ہم افغان مہاجرین کو جلد واپس بھیجنے کے پروگرام کا اعلان کر سکتے ہیں۔ ہم افغانستان کو یہ بھی باور کرا سکتے ہیں کہ اگر وہ دشمنی سے اور ہر جگہ آتشیں نفرت انگیز بیانات دینے اور مکروہ تقریریں کرنے سے باز نہ آیا تو تجارتی پابندیاں بھی عائد کی جا سکتی ہیں۔
آخر وسوسے تو دل میں اٹھتے ہی ہیں! ع
ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں