آج سے ٹھیک 45سال پہلے‘ اسی تاریخ کو ‘ لیفٹیننٹ جنرل اے اے کے نیازی نے ڈھاکہ میں شکست کی دستاویز پر دستخط کیے تھے۔
45سال کا عرصہ بہت زیادہ نہیں تو بہت کم بھی نہیں۔ اس میں پانچ سال مزید جمع کریں تو نصف صدی بن جاتی ہے۔ قوموں کی تاریخ میں کبھی تو سینکڑوں سال چپ چاپ ایک ہی رو میں بہتے چلے جاتے ہیں۔ بھارت کے اچھوتوں کو دیکھیے۔ صدیوں سے کوئی تغیر ہے نہ ارتعاش۔ انفرادی اور اجتماعی زندگی ان کی جیسی تھی‘ ویسی ہی ہے۔ کبھی چند برس صدیوں کو مات کر جاتے ہیں۔ علائوالدین خلجی کا عہد نکال دیں تو 1208ء سے لے کر 1857ء تک کے 649 برس‘ شیر شاہ سوری کے پانچ برسوں کے مقابلے میں ہیچ نظر آتے ہیں۔ پہلی عالمی جنگ کے خاتمے اور دوسری جنگِ عظیم کی ابتدا کے دوران اکیس برس کا عرصہ ہے۔ ان اکیس برسوں میں کیا نہیں ہوا۔ روس میں لینن کا ستر سالہ اشتراکیت کا تجربہ شروع ہوا۔ ہٹلر نے یورپ کی پوری زمین پر نئی مٹی بچھا دی۔ صدیوں سے چلی آتی قوی ہیکل سلطنت عثمانیہ کا مینار زمین بوس ہو گیا۔ انہیں اکیس برسوں کے دوران مسلم وسط ایشیا چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں بٹ کر اپنے لباس اور اپنے رسم الخط سے محروم ہو گیا۔
سوال یہ ہے کہ 16 دسمبر 1971ء سے لے کر 16 دسمبر 2016ء تک کے 45 برسوں میں ہم نے کیا سیکھا۔ افسوس! صد افسوس! ہم نے کچھ نہیں سیکھا‘ سوائے اس کے کہ اپنے گریبان میں نہیں جھانکنا اور اپنی ہر ناکامی کا الزام دوسروں پر دھرنا ہے۔ کیا آپ نے کبھی غور کیا کہ بنی اسرائیل کے جن وقتوں کا تذکرہ کلامِ مجید میں کیا گیا ہے‘ ان وقتوں میں بنی اسرائیل پر‘ دوسری طاقتوں نے بے پناہ مظالم ڈھائے مگر کلامِ پاک میں سارا زور ان غلطیوں پر ہے جو بنی اسرائیل سے سرزد ہوئیں اور ہوتی ہی رہیں۔ اس لیے کہ کوئی بیرونی طاقت کبھی ظفر یاب نہیں ہو سکتی جب تک کہ اندر کا کھوکھلا پن اس کا استقبال نہ کرے۔
ہم یہ رونا تو روتے ہیں کہ بھارت نے مشرقی پاکستان پر حملہ کیا مگر ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ ہمیں مقامی حمایت حاصل نہیں تھی۔ ہم مکتی باہنی کا تذکرہ تو کرتے ہیں مگر یہ نہیں بتاتے کہ الیکشن کے بعد ہم نے جیتی ہوئی پارٹی کو اقتدار دینے سے انکار کر دیا تھا‘ بلکہ اسمبلی کا اجلاس تک نہیں ہونے دیا۔ دھمکیاں دی گئیں کہ جو ڈھاکہ جائے گا اس کی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی۔1971ء کے واقعات کے پیچھے ایک پوری تاریخ ہے‘ ربع صدی کے عوامل ہیں۔ بدقسمتی سے ان سارے عوامل کا غیر جانب دارانہ اور عقل پر مبنی تجزیہ نہیں کیا جاتا۔ مگر ہمارے ایسا نہ کرنے سے ان عوامل کی اہمیت کم نہیں ہوتی!
شیخ مجیب الرحمن نے 1966ء اور 1969ء کے درمیان جیل میں اپنی خود نوشت لکھنا شروع کی مگر 1955ء تک کے واقعات سے آگے نہ بڑھ سکی۔ یہ ناتمام خود نوشت 2010ء کے لگ بھگ شائع ہوئی۔
اب اس کا اردو ترجمہ بھی چھپ چکا ہے۔ اس میں سے چند اقتباسات قارئین کی خدمت میں پیش کئے جا رہے ہیں۔ کاش ہم میں اتنی ہمت اور جرأت پیدا ہو جائے کہ ہم دوسروں کا نقطہ ٔ نظر‘ ٹھنڈے دل و دماغ سے سُن سکیں!
''مشرقی پاکستان کی سیاست اور مغربی پاکستان کی سیاست میں بہت فرق ہے۔ وہاں بڑے بڑے تاجر‘ زمیندار اور نواب وقت گزاری کے لیے سیاست کرتے ہیں۔ اس کے برعکس ملک کے مشرقی بازو میں متوسط طبقہ سیاست میں زیادہ سرگرم ہے۔ چونکہ مغربی پاکستان میں متوسط طبقہ مضبوط نہیں ہے اس لیے یہ لوگ ملکی معاملات پر بہت کم توجہ دیتے ہیں۔ عوام انہی باتوں پر یقین کر لیتے ہیں جو جاگیردار اور ان کے مذہبی رہنما انہیں بتاتے ہیں۔ اس کے برعکس چونکہ کسان تحریک کا آغاز بہت عرصہ پہلے بنگال ہی سے ہوا تھا اس لیے اس صوبے کے عوام مغربی پاکستان کے عوام کے مقابلے میں سیاسی معاملات سے زیادہ باخبر ہیں۔ مزید برآں بنگالیوں نے تحریکِ پاکستان میں بھی زیادہ سرگرمی سے حصہ لیا تھا۔ عرصۂ دراز سے بنگال میں دیہات کی سطح پر حکومتیں قائم تھیں اور عوام کو یونین بورڈ‘ لوکل بورڈ اور ڈسٹرکٹ بورڈ کا تجربہ تھا۔ ان سب چیزوں کی وجہ سے ہی وہ سیاسی معاملات سے زیادہ باخبر تھے۔ وہ صحیح اور غلط میں بہت بہتر طریقے سے تمیز کر سکتے تھے اور یہ بات انہوں نے بھر پور طریقے سے 1946ء میں مطالبہ پاکستان پر ہونے والے عام انتخابات میں ثابت بھی کر دکھائی تھی‘‘۔
ایک اور اقتباس:
''پاکستان کو ایک جمہوری ملک ہونا چاہیے تھا۔ یہاں تمام عقائد کے ماننے والوں کونسل اور مذہب سے قطعِ نظر مساوی حقوق ملنے چاہئیں تھے۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ جن لوگوں نے تحریکِ پاکستان کے دوران قیامِ پاکستان کی مخالفت کی تھی آج پاکستان کو ایک مذہبی ریاست کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کر رہے تھے اور مذہب کے نام پر اپنے اپنے مفادات حاصل کرنے کے لیے ملکی سیاست میں زہر گھول رہے تھے۔ معاشی و سماجی اصلاحات کے منصوبے بنانے کے بجائے مسلم لیگ کے رہنما ہم آواز ہو کر صرف ایک ہی نعرہ لگا رہے تھے''اسلام‘‘۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ انہیں عوام کی خوشحالی کی کوئی پروا نہیں جب کہ قیامِ پاکستان کا مقصد ہی یہ تھا! اسی کے لیے متوسط طبقے نے کسانوں اور مزدوروں نے تحریکِ پاکستان کے دوران بڑی بڑی قربانیاں دیں تھیں۔ ایسا لگتا تھا کہ مسلم لیگ اور اس کے حامی ظالموں اور جاگیرداروں کا ساتھ دینے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں کیونکہ حکومت کی لگامیں انہی لوگوں کے ہاتھ میں ہیں‘‘۔
''اس کے برعکس مشرقی پاکستان کی معیشت سے کمایا جانے والا زرِمبادلہ اب مغربی پاکستان میں صنعتیں اور کارخانے لگانے میں استعمال ہو رہا تھا۔ سرمایہ داروں کا ایک گروہ سامنے آیا جو عوام کا استحصال کر کے زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کے درپے تھا۔ یہ لوگ راتوں رات کروڑ پتی بن گئے۔ ان میں سے بیشتر کراچی میں بیٹھے بیٹھے درآمد برآمد کے لائسنس فروخت کر کے صنعت کاروں کے طور پر معروف ہو گئے۔ یہ بھی مسلم لیگ حکومت ہی کا کارنامہ تھا۔ خواجہ ناظم الدین کی انتظامیہ پر کمزور گرفت کے باعث ہی وہ لوگ زیادہ منافع کمانے اور ترقی کرنے کے قابل ہو گئے تھے‘‘۔
یہ اقتباسات بتاتے ہیں کہ مشرقی پاکستان میں شروع ہی سے احساسِ محرومی تھا جو حقائق پر مبنی تھا۔ پھر ایوب خان کا دس سالہ اقتدار اور پھر جنرل یحییٰ خان کی جانشینی نے مشرقی پاکستانیوں کو یقین دلا دیا کہ جرنیل شاہی میں وہ کبھی مغربی پاکستان کے ہم پلّہ نہیں ہو سکتے۔
تاریخ کا انصاف دیکھیے کہ ہم نے کل ایک صوبے میں کامیاب ہونے والی جماعت کو پورے پاکستان پر حکومت کرنے کی اجازت نہیں دی‘ یہاں تک کہ وہ صوبہ تنگ آمد بجنگ آمد کے مطابق لڑ بھڑ کر الگ ہو گیا۔ آج45برس بعد‘ بچے کھچے پاکستان پر ایک صوبہ نہیں‘ ایک صوبے کے صرف چار اضلاع لاہور‘ سیالکوٹ‘ فیصل آباد اور گوجرانوالہ حکومت کر رہے ہیں۔ وزیر اعظم کے اردگرد کون ہیں؟ اسحاق ڈار‘ خواجہ سعد رفیق‘ خواجہ آصف‘ عابد شیر علی‘ خرم دستگیر ‘ احسن اقبال استثنا صرف چوہدری نثار علی خان کو حاصل ہے۔(گزشتہ کالم میں اس کے متعلق مفصل لکھا جا چکا ہے) کوتاہ نظری کی انتہا دیکھیے کہ مسلم لیگ نون کا چیئرمین بھی پنجاب سے ہے۔ وہی سینیٹ میں قائدِ حزبِ اقتدار بھی ہیں۔ سپیکر نیشنل اسمبلی اور چیئرمین سینٹ بھی دونوں پنجابی ہیں۔ کیا آپ کے ذہن میں سندھ یا پنجاب سے تعلق رکھنے والے کسی وفاقی وزیر کا نام آ رہا ہے؟ ہیں! دو تین یقیناً ہیں۔ مگر وسطی پنجاب کے وزرا کے سامنے ان کی حیثیت وہی ہے جو آندھی کے مقابلے میں مشتِ خاک کی ہوتی ہے!
آپ نے ایسے ماں باپ ضرور دیکھے ہوں گے جو بچوں کی باہمی لڑائی میں ہمیشہ اپنے بچوں کا دفاع کرتے ہیں اور آنکھیں بند کرکے کرتے ہیں۔ ان بچوں کی نفسیات کبھی صحت مند نہیں ہو سکتیں! یہ عملی زندگی میں بھی اسی زعم میں رہتے ہیں کہ غلط صرف دوسرا فریق ہے۔ ہمارا حال بھی وہی ہے‘ معصوم کوئی بھی نہیں۔ غلطیاں بنگالیوں سے بھی ہوئیں۔ انہیں اب یہ فائدہ ہے کہ ان کا ملک لسانی اور نسلی حوالے سے ایک اکائی ہے۔ ہمارا حال مختلف ہے۔ ہم نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی سے سبق نہ سیکھا اور اپنے طرزِ عمل میں تبدیلی نہ کی تو مستقبل میں بے پناہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
چھوٹے صوبوں میں اٹھنے والی ہر لہر کو کندھے اچکا کر مسترد کرنے سے کچھ حاصل نہ ہو گا! کچھ حاصل ہو گا تو صرف زیاں! یہ چھوٹے صوبے چیخ چیخ کر پنجاب کو کہہ رہے ہیں ؎
خوبصورت بہت ہو تم لیکن
دوسروں کا بھی کچھ خیال کرو