ساری پڑھائی، اعلیٰ تعلیم، ساری تھیوریاں‘ سب بیکار ثابت ہوئیں۔ تربیت، ماحول، آئی کیو، سب خرافات ہیں۔ صحیح وہی نکلا جو بزرگ کہا کرتے تھے اور ہم اسے خاطر میں نہیں لاتے تھے۔ الاسکا سے لے کر جنوبی افریقہ تک اور اٹلانٹک کے مشرقی کنارے سے لے کر بحرالکاہل کے مغربی گھاٹ تک جدید ترین یونیورسٹیوں میں پڑھایا جانے والا علمِ نفسیات، گھاس کے تنکے کی بھی حیثیت نہیں رکھتا۔ کہاں کی نفسیات؟ کون سی تھیوریاں؟ بان کی چارپائیوں پر، کڑھے ہوئے تکیوں سے ٹیک لگائے، درختوں کی چھاؤں تلے بابے‘ چاچے‘ مامے جو کہتے تھے، ٹھیک کہتے تھے۔
یہی تو فردوسی نے بادشاہ کے بارے میں کہا تھا۔ تجربہ کہتا ہے، مشاہدہ تصدیق کرتا ہے، تاریخ گواہی دیتی ہے کہ فردوسی نے سچ کہا تھا۔ درختوں کی چھاؤں تلے، بان کی چارپائیوں پر، کڑھے ہوئے تکیوں سے ٹیک لگا کر دانش کے موتی بکھیرنے والے چاچے ‘مامے‘ بابے فردوسی سے کیا کم تھے! ؎
اگر مادرِ شاہ بانو بُدی
مرا سیم و زر تا بہ زانو بُدی
بادشاہ اگر ملکہ کا بیٹا ہوتا تو میں آج گھٹنوں تک سونے چاندی میں کھڑا ہوتا۔
وگر شاہ راشاہ بودی پدر
بسر بر نہادی مرا تاجِ زر
بادشاہ اگر خاندانی بادشاہ ہوتا تو آج میرے سر پر سونے کا تاج رکھتا۔
فردوسی تفصیل سے بتاتا ہے کہ اصل، اصل ہوتا ہے اور عکس، عکس! اگر کسی درخت کی سرشت ہی کڑوی ہے تو اسے بے شک باغِ بہشت میں لگا دیجیے، اُسے جوئے خُلد سے پانی دیجیے، اس کی جڑوں میں شہد انڈیلیے، پھل کڑوا ہی دے گا! ناپاک زادہ سے اچھی اُمید رکھنا ایسے ہی ہے جیسے یہ سوچنا کہ سیاہ فام حبشی، دھونے سے سفید ہو جائے گا۔
1936ء میں جب بمبئی کے علاقے مالا بار میں قائدِاعظم کی کوٹھی تعمیر ہوئی تو اُس وقت اُس پر دو لاکھ روپے لگے تھے‘ یعنی آج کے کروڑوں ڈالر! بہترین لباس پہننے والے قائدِاعظم کے پاس چار چار گاڑیاں تھیں۔ اُس زمانے میں پندرہ سو ماہوار کی ملازمت ٹھکرائی کہ اتنا تو میں ایک دن میں کماؤں گا اور پھر ایسا کر کے دکھایا۔
اور لیاقت علی خان؟ تین سو گاؤں ان کی ملکیت میں شامل تھے۔ ان میں ساٹھ گاؤں کرنال کے علاقے میں تھے۔ زمینداری مشرقی پنجاب سے لے کر یوپی تک پھیلی ہوئی تھی۔ دہلی میں پاکستانی سفیر آج بھی لیاقت علی خان کی عطا کردہ کوٹھی میں رہائش رکھتا ہے۔
عقل مند بتاتے تھے کہ غریب امیر ہو جائے تو پچاس برس تک غربت اُس کے نہاں خانۂ دل سے نہیں نکلتی اور گردشِ زمانہ امیر کو قلاش کر دے تو خوئے امارت اس کے طور اطوار اور اخلاق و کردار سے برسوں نہیں جاتی! بھُوکے کو کھانا ملے تو بڑے بڑے نوالے ڈالتا ہے اور چبائے بغیر نکلتا ہے۔ سروے کر کے دیکھ لیجیے، جو لوگ اپنے ملازموں سے نرمی سے پیش آتے ہیں اور ان کی غربتِ نفس کا خیال رکھتے ہیں، ان میں سے اکثر وہ ہیں جو بچپن سے ملازموں کے عادی ہیں۔ ایسے ہی گھرانوں کے بچے اپنے ڈرائیوروں‘ باورچیوں اور چوکیداروں کو نام لے کر نہیں بلاتے۔
امارت کی خُو کیا ہے، جو باقی رہتی ہے؟ قناعت ہے اور سیر چشمی! بھوک آنکھ میں نہ ہو تو اسے سیر چشمی کہتے ہیں۔ طارق نعیم کاشعر ہے ‘ ؎
یوں ہی تو کنجِ قناعت میں نہیں بیٹھا ہوں
خسروی، شاہ جہانی مری دیکھی ہوئی ہے
قائداعظم کے اختیار میں کیا نہیں تھا؟ ملک کے سربراہ تھے۔ چاہتے تو گاڑیوں، جہازوں، کارخانوں کے مالک بن جاتے۔ مگر حالت یہ تھی کہ جورابیں مہنگی قرار دے کر واپس کرا دیں۔ کابینہ کے اجلاس میں بیت المال سے چائے تک نہ پینے دی۔ فاطمہ جناح کچن کا پورا حساب رکھتی تھیں۔ آخری ایام میں جب خیر اندیشوں نے ان کا پسندیدہ باورچی لاہور سے منگوایا تا کہ بیماری کے دوران خوراک تسلی بخش ہو، تو باورچی واپس بھجوا دیا۔ جس طرح چھان بین کر کے سرکاری جہاز خریدا، ساری تفصیل پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔
لیاقت علی خان کے پاس پاکستان میں اپنا گھر نہیں تھا۔ پروا بھی نہیں تھی۔ ان کی شہادت کے بعد کابینہ نے بیوہ کے لیے سرکاری رہائش گاہ کی منظوری دی۔ کرنال کے نواب اور ملک کے وزیراعظم کا سازو سامان کیا تھا، چند کپڑے، چند کتابیں‘ کچھ سگریٹ لائٹر! اور بینک میں 47 ہزار روپے!
پھر وقت نے کروٹ لی! اب ان کا حال دیکھیے، جن کے پاس کچھ بھی نہ تھا! اقتدار ملا تو کتنے بڑے بڑے نوالے منہ میں ٹھونسے اور چبائے بغیر نگلے! ایک جماعت نے تو حد ہی کر دی۔ مڈل کلاس کا نام اتنا بد نام کیا ہے کہ قیامت تک عوام مڈل کلاس کے سحر میں نہیں آئیں گے۔ حقیقت کچھ اور ہے۔ مڈل کلاس تھی ہی نہیں! خدا کے بندو! یہ تو لوئر کلاس کی بھی لوئر تھی! زیریں ترین! اُس سے بھی زیادہ زیریں!
اتنے بڑے بڑے نوالے!
اتنی غیر یقینی کیفیت!
اتنے لمبے ہاتھ!
کسی کے اہلِ خانہ لاس اینجلز کے گراں ترین سیکٹر میں رہائش پذیر ہیں۔
کسی کے پٹرول پمپ شکاگو سے ہیوسٹن تک پھیلے ہوئے ہیں۔
اور اس ریاست کے اندر ریاست (State within state) کادارالحکومت لندن ہے۔
جائیدادیں ہیں اور سمندر پار ہوائی جہازوں کے پھیرے!
پاناما لیکس کو اورسرے محل کو کیا روئیں! جدہ کے کارخانوں، پیرس کے قدیم محلات اور نیویارک کے پینٹ ہاؤس کا کیا ذکر کریں، نام نہاد مڈل کلاس پارٹی کے رہنماؤں کے بچوں کی شادیاں دبئی میں منعقد ہو رہی ہیں۔ پام دبئی کے اساطیر اٹلانٹک ہوٹل سے لے کر دبئی کریک کے شیرٹن ہوٹل تک جنوبی پاکستان کی مڈل کلاس کی داستانیں تاریخ کے صفحے پر اپنا وجود ثبت کر رہی ہیں۔ دبئی کے کرِیک اور پام وہ علاقے ہیں جہاں دنیا کے بہترین اور گراں ترین ہوٹل اور ریستوران واقع ہیں!
کوئی ہے جو ان کے اثاثے پوچھے؟ پَھرولے؟ اور تفتیش کرے؟ وہ تو عمر فاروق اعظمؓ تھے جن کے گورنر نے کہا تھا کہ یہ مال بیت المال کا ہے اور یہ تحائف مجھے ملے ہیں۔ امیر المومنین نے وہ بھی بیت المال میں ڈال لیے اور پوچھا: تم گورنر نہ ہوتے تو پھر بھی تمہیں لوگ دیتے؟ اب اس اسلام کے قلعے میں کوئی نہیں جو پوچھے کہ میاں! گیارہ سال گورنر رہے۔ اس سے پہلے کے اثاثے کیا تھے اور ''سیاست‘‘ میں آنے کے بعد کتنے ہوئے؟
یہ ایک نیا ٹرینڈ ہے کہ شادیاں دبئی میں منعقد ہونا شروع ہو گئی ہیں۔ یہ نودولتیے پن کی انتہا ہے! اس سے پہلے سیاست میں آکر غریب غربا نودولتیے بنتے تھے تو جائدادیں محلات اور کارخانے تو بناتے تھے، بچوں کی شادیاں ملک کے اندر ہی کرتے تھے۔ ہاں! نودولتیا پن ڈشوں کی تعداد، جہیز اور شان و شوکت کے دیگر مظاہر سے پوری طرح جھلکتا تھا۔
اور یاد رکھیے! یہ آغاز ہے۔ اس کے بعد جو مقابلہ نو دولتیوں میں ہو گا اسے دنیا دیکھے گی۔ تماشائی کچھ محفوظ ہوں گے‘ کچھ کانوں کو ہاتھ لگا کر استغفار پڑھیں گے۔ وہ تیرہ تالی کھیلی جائے گی کہ غربت سے امارت میں داخل ہونے والے، ملک کے اندر فائیو اور سیون سٹار ہوٹلوں کی طرف دیکھنا بھی گوارا نہیں کریں گے!
پھر اُن افراد کی دولت کا اندازہ لگائیے جو چہار دانگِ عالم سے، اُڑن کھٹولوں میں بیٹھ کر، دبئی کے ان پرستانوں میں اُتریں گے اور دُلہا دُلہن کو یا ان کے ماں باپ کو لفافے دیں گے۔
سبحان اللہ! کیا کلاس ہے! شادیاں منعقد کرنے والے اور ان میں شرکت کرنے والے!
نودولتیوں کا نو دولتیوں سے مقابلہ ہے! ع
نشہ بڑھتا ہے شرابیں جو شرابوں میں ملیں