استانبول‘ لاہور ‘رباط اور جدّہ کے رہنے والو! کبھی حلب بھی تمہارے شہروں جیسا ایک شہر تھا!
کبھی حلب میں بھی بازار خریداروں سے چھلکتے تھے ۔کبھی حلب میں بھی مغرب و مشرق کے سیاحوں کے ہجوم تھے۔ کبھی حلب میں بھی بچے اُجلی وردیاں پہنے ‘ صبح صبح اپنے سکولوں کو جاتے تھے۔ کبھی حلب کے شفاخانوں میں بھی مریضوں کا علاج ہوتا تھا۔ کبھی حلب میں بھی لوگ باگ ‘ اپنے گھروں میں‘ چاول اور روٹی کھا کر‘ صوفوں کے ساتھ ٹیک لگا کر ٹیلی ویژن دیکھتے تھے اور ساتھ قہوہ اور کافی پیتے تھے۔ استانبول‘ لاہور ‘رباط اور جدہ کے رہنے والو! کیا تمہیں کچھ خبر ہے کہ وہاں کیا ہوا اور کیا ہو رہا ہے؟
حلب! جو شہروں میں ایک شہر تھا۔ ہیروں میں ایک ہیرا تھا۔ آسمان اسے للچائی ہوئی نظروں سے دیکھتا تھا اور سمجھتا تھا کہ اس روشن ستارے پر زمین کا نہیں آسمان کا حق ہے! حلب دنیا میں بے مثال تھا۔ حلب میں پیدا ہونے والے اور پرورش پانے والے اور رہنے والے‘ اپنے آپ کو ستارہ بخت اور بہشت نصیب گردانتے تھے۔
حلب! جو شاہراہِ ریشم پر واقع تھا‘ آنے والے اور کوچ کرنے والے اور پڑائو کرنے والے قافلوں کا مرکز تھا۔ بحرِ روم کے مشرقی ساحل کے قریب اور وادیٔ فرات کے مغرب میں واقع یہ شہر بیسیوں شاہراہوں کے اوپر بس رہا تھا ۔ یہ دنیا کے ان چند شہروں میں سے ہے جو ہزاروں برس سے مسلسل آباد ہیں! کون ہے جو اس شہر سے فیض یاب نہیں ہوا‘ یونانی ‘رومی ‘ باز نطینی‘ ایرانی‘ اموی ‘ ایوبی‘ مملوک اور عثمانی! سب اس کی زلفِ گرہ گیر کے اسیر تھے! اس کا قلعہ دنیا بھر میں مشہور ہے! اس کی مسجد کا جواب نہیں! اس میں مدارس تھے اور محلات‘ محلے ختم ہونے کا نام نہیں لیتے تھے۔ کارواں سرائے بے شمار تھے‘ مقامی لوگ ان کارواں سرائوں کو ''خان‘‘ کہتے ہیں۔ بارہویں صدی سے پندرہویں صدی تک یہ شاہراہِ ریشم کا مصروف ترین شہر تھا!
اور حلب کا بازار‘ دنیا کے مسقّف بازاروں میں طویل ترین تھا! تیرہ کلو میٹر تک‘ چھت بازار کے ساتھ چلتی تھی۔ سینکڑوں برس تک یہ عظیم الشان بازار پوری دنیا کی تجارت کو اپنی طرف کھینچتا رہا۔ ہر جنس کی الگ مارکیٹ تھی‘ یہ اون کا سُوق تھا تو وہ تانبے کا‘ یہاں زینیں بکتی ہیں تو وہاں پارچہ جات! یہاں عطریات تو وہاں آبدار شمشیریں! یہاں چین کا ریشم فروخت ہوتا تھا اور ترکستان کا سُوت اور ہند کے مصالحے اور اٹلی کا بلور اور عراق کے دھاتی برتن اور زنجبار کے عطریات ! پھر کارواں سرائوں میں ٹھہرنے والے تاجر ان اشیا کو لے کر چہار سمتوں میں پھیل جاتے تھے!
عثمانیوں کے زرہ پوش لشکری جب ویانا کی دیواروں کا محاصرہ کر رہے تھے تو ان میں حلب کے بیٹے بھی شامل تھے۔ حلب کی اموی مسجد سینکڑوں سال تک تدریس کا مرکز رہی۔ شیخ العرب والعجم حضرت شہاب الدین سہروردی کو حلب نے اپنی طرف کھینچ لیا! قلعہ یہاں کا‘ صلاح الدین ایوبی نے صلیبیوں کو شکست دینے کے بعد تعمیر کیا ۔ پھر بعد کی صدیوں میں اس کے برج اور مینار بنے اور پتھریلے پُل! حلب میں وینس کی جمہوریہ نے 1548ء میں قونصل خانہ قائم کیا۔ فرانس نے 1562ء میں اور ہالینڈ نے 1613ء میں ! شیکسپیئر نے اپنے شہرہ‘ آفاق ڈرامے میکبتھ میں اور پھر اوتھیلو میں حلب کا ذکر کیا۔
حلب ہمیشہ دمشق کے مقابلے میں‘ صنعتی اور تجارتی مرکز رہا۔1958ء میں مصر اور شام کی متحدہ حکومت بنی تو حلب صدر ناصر کے حامیوں کا مرکز تھا۔ پھر اتحاد ٹوٹ گیا۔1970ء میں حافظ الاسد کی آمریت کا آغاز ہوا تو اس کا جھکائو دمشق کی طرف تھا۔ دمشق کے تاجروں کی ہمدردیاں نئی حکومت کے حق میں تھیں۔ وسائل کو حلب سے دمشق کی طرف موڑ دیا گیا۔ حلب شام کا اول کے بجائے دوسرا بڑا شہر بن گیا۔ مگر پھر بھی حلب حلب تھا! 2006ء میں اسلاک ایجوکیشنل سائنٹیفک اینڈ کلچرل آرگنائزیشن نے حلب کو اسلامی ثقافت کا صدر مقام قرار دیا۔
مگر استانبول‘ لاہور‘ رباط اور جدہ کے رہنے والو! پھر حلب اجڑ گیا! شام میں خانہ جنگی کے شعلے حلب تک بھی پہنچ گئے۔2013ء کا موسم بہار تھا جب شام کی حکومتی فوج نے حلب کے مغربی حصے میں مورچے بنائے اور باغیوں نے مشرقی حصّے میں! تیرہ ہزار انسان دنوں میں قتل ہو گئے! آہ! ان میں پندرہ سو تعداد ان پھولوں کی تھی جو پانچ برس سے کم تھے! طرفین نے غارت گری میں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی پوری پوری کوشش کی! بھاری اسلحہ حکومتی فوج کے پاس تھا۔ توپخانے اور جہازوں کی بمباری نے شہر کو کھنڈر بنا دیا۔ میزائلوں نے رہائش گاہوں کے اندر گُھس گُھس کر آگ اور خون کا کھیل کھیلا۔ شام کی وزارتِ خارجہ کا بیان ہے کہ ایک ہزار فیکٹریاں لوٹی گئیں۔ عظیم الشان تاریخی بازار کی دکانیں مع سازو سامان نذر آتش ہوئیں۔ تاریخی عمارتیں اور مسجد امیہ بری طرح زخمی ہوئیں۔ کچھ تو جل کر خاکستر ہو گئیں۔
نومبر2013ء میں معروف اطالوی صحافی خاتون فرانسسکا بوری نے حلب سے رپورٹنگ کی کہ باغیوں کے مختلف گروہ شریعہ کے نفاذ کے حوالے سے آپس میں بھی لڑ رہے تھے! بوری نے دیکھا کہ شہر کے ہزاروں مکین فاقہ کشی سے جاں بلب تھے۔ وبائی امراض عام تھے! ادویات عنقا تھیں۔ میڈیکل سٹاف کہیں نہیں میسر تھا۔پانی تھا نہ بجلی نہ خوراک! چار ماہ قبل‘ یعنی اگست 2016ء میں روسی جہاز نے ایک ایسے ہسپتال پر بمباری کی ہے جو بیماروں سے اٹا پڑا تھا اور وہ سب سویلین تھے!
اجتماعی قبریں دریافت ہوئیں تو ان میں دفن ہونے والوں کے اعضا کٹے ہوئے نکلے۔ جہاں کبھی لوگ رہتے تھے وہاں اب ٹینک تھے‘ توپیں تھیں‘ راکٹ لانچر تھے اور مارٹر گولے!
23دسمبر 2016ء کو شامی وزارتِ دفاع نے شہر کو مکمل فتح کر لینے کا اعلان کیا۔ شہر نہیں یہ ایک مرگھٹ ہے جو بشار الاسد نے فتح کیا ہے!
حلب کے شہریوں کے لیے سرکاری فوج اور باغیوں میں کوئی فرق نہیں! دونوں موت کے نقیب تھے۔ دونوں طرف موت کھیل رہی تھی! کئی ماہ کے حکومتی محاصرے نے سول آبادی کو کچل کر رکھ دیا۔
استانبول‘ لاہور ‘رباط اور جدہ کے رہنے والو! کیا تمہیں معلوم ہے کہ حلب کے بچوں نے رونا بھی چھوڑ دیا ہے! وہ اتنے خوف زدہ ہیں کہ چیخنا بھول گئے ہیں۔ ہسپتالوں میں لیٹے اور بیٹھے ہوئے ان بچوں کے چہروں پر مٹی اور جما ہوا خشک خون ہے جو وہ ناخنوں سے چھیل رہے ہیں! لوگ گھروں میں سو رہے ہوتے تھے تو جہاز ان پر بم مارتے تھے۔ خاندانوں کے خاندان نیست و نابود ہو گئے‘ اپارٹمنٹ‘ بلڈنگیں منہدم ہوئیں۔ انسان سریے اور سیمنٹ اور اینٹوں تلے دب گئے۔ اُدھر دیکھو! ہسپتال کے کھچا کھچ برآمدے میں دو بچے چل رہے ہیں۔ جیسے موت کے دو ننھے منے سائے! وہ اپنی مائوں کو ڈھونڈ رہے ہیں۔ مگر ان کے چہرے لکڑی کی طرح ہیں! جذبات سے عاری! چہروں پر خون ہے اور مکھیاں بھنبھنا رہی ہیں۔ اقوام متحدہ کا سیکرٹری جنرل کہتا ہے کہ حلب ایک دوزخ کی شکل اختیار کر چکا ہے! بان کی مون اور کر بھی کیا سکتا ہے! جہاں امریکہ اور روس ملوث ہوں‘ اقوام متحدہ وہاں نظر ہی نہیں آتی! جب جھگڑا بڑے ملک اور چھوٹے ملک میں ہو تو چھوٹا ملک نظر نہیں آتا۔ جب جھگڑا دو چھوٹے ملکوں کے درمیان ہو تو اقوام متحدہ وہاں شیر بن جاتی ہے!
بارک اوباما شامی حکومت اور روس اور ایران پر ظلم و ستم کا الزام لگا رہا ہے اور روسی ایرانی اور شامی حکومتیں‘ ترکی پر باغیوں کی حمایت کا الزام لگا رہی ہیں! سسکتی بلکتی بین کرتی انسانیت کے ساتھ کسی کی ہمدردی نہیں! سب اپنے مفادات کے اسیر ہیں۔ جو داعش کے خلاف ہیں‘ وہ بھی اس کے حق میں ہیں۔ بین الاقوامی قوتیں گرگٹ کی طرح لحظہ بہ لحظہ رنگ بدلتی ہیں! انسان! دونوں طرف انسان لاشوں کی صورت پڑے ہیں!
حلب! آہ! حلب! جہاں نغمے نہیں‘ بین کی صدائیں ہیں! ہے کوئی جو شہرِ آشوب لکھے؟