یہ ایک تشویشناک صورتِ حال ہے حد سے زیادہ تشویشناک!
سعودی عرب کی حکومت نے گزشتہ دس سال کے دوران حج اور عمرہ میں سرِفہرست رہنے والے ملکوں کی فہرست جاری کی ہے۔ اس کے مطابق مصر پہلے اور پاکستان دوسرے نمبر پر ہے۔ انڈونیشیا تیسرے‘ ترکی چوتھے‘ ایران پانچویں‘ بھارت چھٹے‘ اردن ساتویں‘ الجزائر آٹھویں اور ملاایشیا نویں نمبر پر ہے۔
انڈونیشیا آبادی کے اعتبار سے سب سے بڑا مسلمان ملک ہے۔ اس کی آبادی 25کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ حج اور عمرہ کی فہرست میں پاکستان کا نمبر اس سے اوپر ہے!
اسی ملک پاکستان کے بارے میں‘ جو حج اور عمرہ کی سعادت حاصل کرنے میں پورے عالم اسلام میں دوسرے نمبر پر ہے‘ جی ہاں! اس ملک کی سب سے بڑی عدالت نے تسلیم کیا ہے کہ بچوں کو خالص دودھ نہیں دیا جا رہا۔ فوڈ اتھارٹی کے حکام نے دو دن پہلے تسلیم کیا ہے کہ کمپنیوں اور شیر فروشوں کا دودھ انسانوں کے پینے کے قابل نہیں۔ اس میں کیمیکل‘ یوریا اور گنے کا رس ملایا جا رہا ہے۔ ڈائریکٹر جنرل فوڈ نے عدالت کو بتایا کہ حلیب کے دودھ سے ''فارمالین‘‘ نکلا۔ اس پر عدالت نے کہا کہ ''فارمالین‘‘ تو مردہ جسم کو محفوظ کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ عدالت کو بتایا گیا کہ کھلا دودھ تو کھلا دودھ ہے‘ڈبوں میں بند دودھ میں بھی ڈی ٹرجنٹ پائوڈر اور دیگر کیمیائی مادے ملائے جا رہے ہیں۔
تشویش سے بچنے کے لیے ہم فرض کرتے ہیں کہ دودھ میں یوریا‘ گنے کا رس اور فارمالین ملانے والے لوگ‘ وہ نہیں جو حج اور عمرہ کرتے ہیں۔ آخر حج اور عمرہ کرنے والے لوگ معصوم بچوں کو قتل کیوں کریں گے۔
امریکہ کے معروف معتبر اخبار وال سٹریٹ جرنل نے دو دن پیشتر‘ ٹوبہ ٹیک سنگھ میں شراب نوشی سے مرنے والوں کے حوالے سے بتایا ہے کہ پاکستان اس میدان میں کہاں کھڑا ہے۔ پاکستان میں نشہ بازوں کا علاج کرنے والے قدیم ترین مرکز ولنگ ویز(Willing Ways)کے پروجیکٹ ڈائریکٹر نے ‘ جو ایک مسلمان ڈاکٹر ہے بتایا ہے کہ تقریباً دو کروڑ پاکستانی باقاعدگی سے شراب نوشی کرتے ہیں۔ ان شراب نوشوں میں تمام مذہبی طبقات اور تمام انکم گروپ شامل ہیں۔ یعنی کیا امیر اور کیا غریب‘ اور کیا مذہبی اور کیا غیر مذہبی‘ سب ان دو کروڑ میں شامل ہیں۔
یاد آیا کہ اورنگزیب عالمگیر کے عہد کے ضمن میں کہا جاتا ہے کہ حکومت کے عمائدین اور کارندوں میں شراب نوشی اس قدر عام تھی کہ صرف دو افراد شراب نہیں پیتے تھے۔ ایک دربار کے شیخ الاسلام اور دوسرے بادشاہ خود۔ اور حقیقت یہ تھی کہ شیخ الاسلام بھی پی لیتے تھے۔ صرف بادشاہ نہیں پیتا تھا!
تشویش سے بچنے کے لیے ہم فرض کرتے ہیں کہ یہ دو کروڑ افراد وہ نہیں جو حج اور عمرہ کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔
کیا آپ کبھی کوئی زرعی زمین یا پلاٹ یا مکان فروخت کرنے یا خریدنے کے سلسلے میں کسی کچہری میں گئے ہیں؟ اس عمل کو انتقال کہتے ہیں۔ یعنی جائیداد یا زرعی زمین فروخت کرنے والے کے نام سے‘ خریدنے والے کے نام منتقل ہو جاتی ہے۔ اس کام کے لیے رشوت دینا پڑتی ہے۔ بچنے کی صرف ایک صورت ہے کہ متعلقہ ڈپٹی کمشنر یا اسسٹنٹ کمشنر آپ کا ذاتی طور پر جاننے والا ہو اور وہ اپنے دفتر میں آپ کو بٹھا کر یہ کام اپنی نگرانی میں‘ اپنے خصوصی حکم کے تحت کرائے۔ آپ خود سوچیے‘ کتنے سائل‘ اس سطح کے افسروں تک ایسی رسائی رکھتے ہوں گے؟ انتقال کا یہ کام ہر ضلع‘ ہر تحصیل میں ہفتے کے چھ دن اور مہینے کے 24دن ہو رہا ہے۔ اس کالم نگار کا بیٹا چند سال قبل بیرونِ ملک منتقل ہوا تو اس نے فیصلہ کیا کہ اپنا مکان باپ کے نام منتقل کرا دے تاکہ ٹیکس اور دیگر امور کے لیے اسے بار بار آنا نہ پڑے۔ کالم نگار سے دارالحکومت کی کچہری نے پچیس ہزار روپے طلب کئے۔ کالم نگار نے متعلقہ اسسٹنٹ کمشنر تک رسائی حاصل کی اور رشوت دینے سے بچ گیا۔ سرکاری فیس ڈیڑھ یا دو ہزار روپے تھی!
2006ء میں اس کالم نگار نے ایک سرکاری ادارے (ہائوسنگ فائونڈیشن) کے خلاف ہائی کورٹ میں مقدمہ دائر کیا۔ ایک سال گزر گیا مگر تاریخ نہ ملی۔ کالم نگار کا بھانجا‘ وہیں وکالت کرتا تھا۔ اس نے بتایا کہ پانچ سو روپے دے کر اس نے تاریخ حاصل کی۔ کالم نگار نے بھانجے کو ڈانٹا اور تنبیہ کی کہ تاریخ لینے کے لیے آئندہ رشوت نہ دے۔ اس پر اس نے ہنس کر کہا کہ ماماجی! پھر تو تاریخ نہیں ملے گی۔
ان سب امور میں کتنے لوگ ملوث ہوں گے؟ پاکستان میں کل کتنے اضلاع اور تحصیلیں ہیں جہاں کچہریوں میں انتقال کا کام ہو رہا ہے؟ پنجاب کے اضلاع36ہیں‘ سندھ کے 29‘ بلوچستان کے 32‘ کے پی کے 26‘ آزاد جموں و کشمیر کے 10‘ اور گلگت بلتستان کے دس۔ کل اضلاع 143ہوئے ۔ کسی ضلع میں تین تو کسی میں چار تحصیلیں ہیں۔ ہم ہر ایک میں تین ہی شمار کرتے ہیں۔ یوں اضلاع اور تحصیلوں کی کچہریوں کی کل تعداد 572ہوئی۔ اب ان میں سات قبائلی ایجنسیاں شامل کیجیے۔ یوں کل تعداد 579ہوئی۔ یعنی تقریباً پونے چھ سو کچہریوں میں ہر روز‘ ہر سائل سے رشوت لی جاتی ہے۔ اب ان عدالتوں کا اندازہ لگائیے جہاں تاریخ لینے کے لیے‘ فیصلے کی نقل لینے کے لیے اور کئی دیگر امور کے مٹھی گرم کرنا پڑتی ہے۔
تشویش سے بچنے کے لیے ہم فرض کر لیتے ہیں کہ یہ سب حرام خور‘ وہ نہیں جو حج اور عمرہ کی سعادت حاصل کرتے ہیں اور جن کے طفیل اس مبارک عمل میں ہمارے پیارے وطن کا نام پچپن مسلمان ملکوں میں دوسرے نمبر پر ہے!
ہم میں سے ہر شخص جانتا ہے کہ ملاوٹ‘ جعل سازی‘ ٹیکس چوری‘ ذخیرہ اندوزی اور کم ماپ تول میں ہمارا ملک بدنام ہے۔ دودھ کو چھوڑیے‘ جعلی ادویات کی ہزاروں فیکٹریاں کام کر رہی ہیں۔ خالی کیپسول فروخت کرنے والوں سے اعداد و شمار لیجیے تو ہوش ٹھکانے آجائیں گے۔خالص آٹا‘ خالص شہد‘ خالص گھی‘ خالص مرچیں‘ خالص بیسن قصّۂ پارینہ بن چکے ہیں۔ چائے کی پتی میں چنوں کا بُورا شامل ہے۔ میک اپ کے سامان سے لے کر سر دھونے والے شیمپو تک بازار جعل سازی سے اٹے پڑے ہیں۔ ٹیکس آبادی کا آٹھ فیصد سے کم حصہ دے رہا ہے۔ حساب کتاب کے رجسٹر دو دو رکھے جاتے ہیں۔ ایک دکھانے کے لیے‘ ایک اصل۔ گاڑیوں میں استعمال ہونے والا آئل جعلی بن رہا ہے۔ مرغیوں کی خوراک میں حرام مردہ جانوروں کے گلے سڑے اعضا شامل کیے جا رہے ہیں۔ گدھوں‘ کتوں‘ کووں کا گوشت انسانوں کو عام کھلایا جا رہا ہے۔ لاکھوں گاڑیاں‘ موٹر سائیکل چوری ہو رہے ہیں۔ صرف دارالحکومت سے تین گاڑیاں اوسطاً روزانہ اٹھائی جا رہی ہیں اور یہ ہندسہ بھی ڈیڑھ سال پہلے کا ہے۔ تاجر‘ ڈاکٹر اور مالدار افراد اغوا ہو رہے ہیں اور خطیر رقمیں دے کر چھوٹ رہے ہیں۔ دوسروں کی زمینوں پر ناجائز قبضے دن رات ہو رہے ہیں۔ دکانداروں سے ٹیکس کے محکمے‘ لیبر کے محکمے اور کئی دیگر محکمے باقاعدگی سے منتھلی لے رہے ہیں۔
تشویش سے بچنے کے لیے ہم فرض کرتے ہیں کہ یہ سب لوگ‘ وہ نہیں جو حج اور عمرہ کی سعادت حاصل کرتے ہیں!
تو پھر تشویش کی بات یہ ہے کہ ہم پاکستانیوں کے نام پر حج اور عمرہ کرنے والے لوگ کون ہیں؟