چرواہا‘ اردگرد سے بے نیاز‘ اپنے پروردگار سے ہم کلام تھا۔
''تو کہاں ہے؟ میرے پاس آ کہ چاکری کروں۔ تیرے سر میں کنگھی کروں۔ تیرے ہاتھ چوموں۔ پائوں ملوں‘ سونے کا وقت آئے تو بستر بچھا دوں۔ اے میرے خدا! میری جان تجھ پر قربان‘ میری آل اولاد اور مال و دولت تجھ پر نثار۔ میں ساری بکریاں تجھ پر قربان کر دوں۔ تو بیمار پڑے تو غم خواری کروں‘‘۔
موسیٰ علیہ السلام نے یہ سب باتیں سنیں تو ناراض ہوئے، فرمایا : کیا کفر بک رہے ہو۔ منہ میں روئی ٹھونسو۔ چرواہا پریشان ہو گیا، کہنے لگا، موسیٰ آپ نے میرا منہ تو سی ہی دیا‘ شرمندگی سے میری جان بھی خاکستر کر دی‘ یہ کہہ کر گڈریے نے کپڑے پھاڑے اور روتا پیٹتا جنگل میں گم ہو گیا۔ اس پر حضرت موسیٰ کو وحی آئی کہ ہمارے بندے کو توُ نے ہم سے جدا کر دیا ؎
تو برائے وصل کردن آمدی
نے برائے فصل کردن آمدی
تُو ملانے کے لیے مبعوث ہوا نہ کہ جدائیاں ڈالنے کے لیے۔ ہم اندر باہر کا سب حال جانتے ہیں۔ پھر حضرت موسیٰ نے اس گڈریے کو ڈھونڈا اور صورتِ حال سے آگاہ فرمایا۔
گڈریا خوش قسمت تھا کہ پیغمبر وقت پر وحی اتری اور وہ باعزت بری ہو گیا۔ آج کے زمانے میں ہوتا تو کیا کرتا! وحی تو کسی پر اترنی نہیں! ہاں یہ ممکن ہے کہ تختۂ دار پر لٹکا دیا جاتا یا کسی ''باغیرت‘‘ مجاہد کی گولی کا نشانہ بن جاتا۔
پہلی بار یہ بات کالم نگار نے دو تین برس قبل بیرون ملک سُنی۔ وہ بات نہیں‘ جس کا تذکرہ اوپر ہوا ہے، بلکہ وہ بات جو آگے بیان ہو گی۔ فاروق نصیر کی باتیں سنجیدگی سے کبھی لی ہی نہ تھیں۔ اس لیے جس دن اس نے بڑے فخر سے بتایا کہ کلاس میں اس نے ''سٹینڈ‘‘ لیا کہ وہ GOD کا لفظ استعمال نہیں کرے گا اور صرف اللہ کہے گا تو اس کی بات روا روی میں آئی اور ٹل گئی۔
پھر ای میل ملنا شروع ہو گئیں۔ کچھ قارئین کو کالم نگار کے ایمان کی سلامتی کی فکر تھی۔ ان کا اصرار تھا کہ ''خدا‘‘ کا لفظ استعمال کرنا جائز نہیں! کچھ کو جواب دیا کچھ کو نظرانداز کیا۔
مگر ماتھا اس وقت ٹھنکا جب ایک مقبول خاص و عام مولانا صاحب کو یو ٹیوب پر سُنا۔ بار بار کہہ رہے تھے اور ٹھوک بجا کر کہہ رہے تھے کہ خدا کہنا درست نہیں! صرف اللہ ہی کہا جا سکتا ہے!
گویا ہزار ڈیڑھ ہزار سال کا دینی‘ متصوفانہ اور اخلاقی ادب حضرت کے ایک فرمان سے دریا برد ہو گیا! اقبال کو تو چھوڑیے کے اِس زمانے کے ہیں۔ رومی‘ سعدی‘ ثنائی اور عطار کا کیا کریں گے؟ کیا لاکھوں کروڑوں صفحات پر پھیلے ہوئے الفاظ میں سے خدا کا لفظ جہاں جہاں آیا ہے‘ کاٹ دیں گے؟
اب تو مدارس سے فارسی کو بیک بینی دوگوش نکال باہر کر دیا گیا ہے۔ شاید یہ اہم خبر وہاں پہنچ گئی کہ یہ آتش پرستوں کی زبان ہے۔ بہرطور ہزار سال سے زیادہ فارسی مدارس میں پڑھائی جاتی رہی۔ بوستانِ سعدی اور گلستانِ سعدی اب بھی پڑھائی جاتی ہیں۔ گلستانِ سعدی کا پہلا فقرہ ہی ''غیر اسلامی‘‘ ہے، یعنی ''منّت خدای را عزّ و جل‘‘
بوستان سعدی کا آغاز یوں ہوتا ہے ؎
بہ نام خدا وند جان آفرین
حکیم سخن در زبان آفرین
مثنوی رومی کی جس حکایت سے کالم کا آغاز کیا گیا ہے‘ صرف اسی میں رومی نے خدا کا مقدس لفظ چار بار استعمال کیا ہے۔
سامنے مولانا مفتی محمد شفیع مرحوم کی مشہور تفسیر ''معارف القرآن‘‘ پڑی ہے۔ صرف ایک جلد اٹھاتا ہوں، یہ تیسری جلد ہے۔ اکتوبر 1981ء کی مطبوعہ ہے۔ یوں ہی ایک صفحہ کھولتا ہوں۔ یہ کون سا صفحہ ہے؟ یہ 103 ہے ''خدائے عزّ و جل‘‘ کا لفظ دو بار استعمال ہوا ہے۔ صفحہ 204 پر لکھا ہے ''خدا نے توبہ قبول کی‘‘۔ بغیر کسی ترتیب کے صفحات الٹتا ہوں۔ 379 صفحہ پر خدا کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ 399 پر بھی مفتی صاحب نے یہ ''غیر اسلامی‘‘ نام استعمال کیا ہے۔ حضرت مفتی صاحب دیوبند میں پڑھے‘ وہاں پڑھایا‘ پھر پاکستان کے مفتی اعظم رہے لیکن اصل مسئلہ سے ''بے خبر‘‘ ہی رہے! حیرت ہے کہ سینکڑوں سال گزرے، مگر یہ زندگی اور موت کا ''نازک‘‘ مسئلہ صرف آج کے مولوی صاحبان پر منکشف ہوا ؎
سرِّ خدا کہ عابد و زاہد کسی نہ گفت
در حیرتم کہ بادہ فروش از کجا شنید
عابد و زاہد تو گزر گئے؟ اب بادہ فروش مسائل سمجھائیں گے!
غور کیجئے‘ ہماری روزمرہ کی گفتگو میں خدا کا پاک نام ہم کتنی بار استعمال کرتے ہیں۔ ان پڑھ سے ان پڑھ شخص کو یہ تو یاد ہی ہے کہ ع
بعد از خدا بزرگ توئی‘ قصّہ مختصر!
یا یہ کہ ؎
خدا کرے کہ مری ارض پاک پر اترے
وہ فصل گل جسے اندیشۂ زوال نہ ہو
اب یہ شعر بھی بدلنا ہو گا ؎
لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری
زندگی شمع کی صورتِ ہو خدایا میری
اس پر بھی پابندی لگا دیجیے ع
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
ظفر علی خان کا یہ شعر تو لاکھوں لوگوں کو یاد ہو گا ؎
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
سینکڑوں ہزاروں مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ مگر اصل بیماری یہ ہے کہ ایک طبقہ ہماری زندگیوں پر تصرّف چاہتا ہے۔ ہم سانس بھی اس کی مرضی کا لیں۔ لباس بھی اس کی خواہش کا پہنیں۔ اب نوبت یہاں تک آ گئی ہے کہ اپنے پروردگار کو پکارتے وقت بھی صرف اُس کے محدود علم کا خیال رکھیں۔
حضرت! ہم آپ کے آگے ہاتھ جوڑتے ہیں! خدا کے لیے ہمیں ہمارے حال پر چھوڑ دیجیے۔ ہماری زندگیوں میں زہر نہ گھولیے۔ ہمیں ڈکٹیٹ نہ کیجیے۔ Non-Issues کو ہماری زندگیوں کا مقصد و محور نہ بنائیے۔ ابھی ملائیشیا میں آپ نے فیصلہ کیا کہ اللہ کا لفظ غیر مسلم استعمال نہیں کر سکتے۔ انہیں یہ لفظ استعمال کرنے سے پہلے عہد رسالت میں بھی نہ روکا گیا۔ دیکھیے، سورۃ یونس:
''تو پوچھ کون روزی دیتا ہے تُم کو آسمان سے اور زمین سے یا کون مالک ہے کان اور آنکھوں کا اور کون نکالتا ہے زندہ کو مردہ سے اور نکالتا ہے مردہ کو زندہ سے اور کون تدبیر کرتا ہے کاموں کی سو بول اٹھیں گے کہ اللہ!‘‘
پھر آپ نے بنگلہ دیش میں فتویٰ دیا کہ مسجد میں کرسی کا استعمال جائز نہیں! سعودی عرب سمیت مشرق وسطیٰ کی کس مسجد میں کرسیاں نہیں رکھی ہوئیں‘ جدہ کی ایک مسجد میں باقاعدہ صوفے پڑے ہوئے دیکھے۔ ایک مسلمان جو بوڑھا ہے‘ معذور ہے‘ کیا کرے؟ کیا وہ نماز پڑھنا چھوڑ دے اور اس لیے کہ آپ خوش ہو جائیں! آپ بغلیں بجا سکیں کہ ہم ہیں ان کی زندگیوں کے مالک!
اب پاکستان میں آپ یہ نیا مسئلہ کھڑا کر رہے ہیں کہ خدا کا لفظ استعمال نہ کرو! ایک ہزار سال کا دینی ادب جو ایران‘ ترکی‘ وسط ایشیا اور برصغیر میں تخلیق ہوا‘ آپ کی بے دلیل خواہش کی بھینٹ چڑھا کر نذر آتش کر دیں؟ کچھ تو خدا کا خوف کیجیے۔ آپ اس مفلوک الحال بھوکی‘ ننگی‘ کرپشن کی ماری ہوئی قوم سے اس کا خدا بھی چھین لینا چاہتے ہیں۔
پہلے آپ نے فرمایا کہ ٹیلی ویژن حرام ہے۔ جھگڑے ہوئے۔ میاں کے بیوی سے‘ بیوی کے میاں سے‘ اولاد کے والدین سے‘ والدین کے اولاد سے‘ تعلقات خراب ہوئے‘ گھر اجڑے‘ طلاقیں ہوئیں‘ پھر ایک دن ٹیلی ویژن ''مسلمان‘‘ ہو گیا۔ بس ایک خاص طبقے کو پروگرام ملنے کی دیر تھی۔ کبھی کہا گیا کہ میز کرسی پر بیٹھ کر کھانا کھانا بدعت ہے! یہ کرسی پارلیمنٹ میں بھی جائز ہے‘ وزارت میں بھی روا ہے۔ اسلامک ایڈوائزری کونسل میں بھی ''اسلامی‘‘ ہے۔ صرف مدارس کے طلبہ کے لیے ''غیر اسلامی‘‘ ہے! کیونکہ ان کی ننھی منی معصوم زندگیوں پر آپ کو مکمل اختیار ہے!
بارش ہو رہی تھی۔ ایک صاحب بھیگتے جا رہے تھے۔ ایک مولانا چھتری لیے اُسی راستے پر گامزن تھے۔ انہوں نے کرم کیا اور چھتری کا ایک حصّہ اُن صاحب کے سر پہ کر دیا۔ ان صاحب نے اِس ''لفٹ‘‘ کا باقاعدہ شکریہ بھی ادا کیا۔ ایک ہفتہ بعد وہ صاحب ایک ریستوران میں اپنے مہمانوں کے ساتھ بیٹھے تھے۔ کہیں سے مولانا نمودار ہوئے اور کہنے لگے‘ جناب اُس دن میں چھتری مہیا نہ کرتا تو آپ بھیگ جاتے۔ اُن صاحب نے پھر شکریہ ادا کیا۔ لیکن اب مولانا کا یہ معمول ہو گیا کہ وہ جہاں کہیں ان صاحب کو دیکھتے‘ احسان جتاتے۔ وہ شخص تنگ آ گیا۔ ایک دن وہ ساحلِ سمندر پر سیر کر رہا تھا۔ مولانا بھی وہیں تھے‘ اس سے پہلے کہ وہ ایک بار پھر جتاتے‘ اس شخص نے کپڑوں سمیت سمندر میں چھلانگ لگا دی۔ غوطے کھائے‘ سانس بند کر کے پانی کے اندر چلا گیا‘ پھر باہر نکلا اور کہا، حضرت! اِس سے زیادہ تو نہ بھیگتا!
چنانچہ درخواست ہے کہ آپ اپنی چھتری ہمارے سر سے بے شک ہٹا لیجیے۔ اسلام پر صرف آپ کی اجارہ داری نہیں‘ جنہیں آپ تکبر سے اور حقارت سے دیکھ رہے ہیں‘ وہ بھی خدا ہی کے بندے ہیں اور چار حرف انہوں نے بھی پڑھ رکھے ہیں۔
مگر ٹھہریے! آپ کے پاس تو اپنی چھتری ہی نہیں! یہ چھتری جو آپ نے تان رکھی ہے‘ یہ تو آپ نے خود کہیں سے مانگی ہے!