چوتھی بین الاقوامی کانفرنس کا یہ میلہ اسلام آباد میں برپا ہوا۔ چار دن خوب گہما گہمی رہی۔ ملک بھر کے ادیبوں اور شاعروں کو ایک جگہ جمع ہو کر کچھ کہنے اور کچھ سُننے کے مواقع ملے۔ اس موقع پر جنہیں نہیں بلایا گیا یا نہیں بلایا جا سکا‘ وہ اپنے اپنے مقام پر غم و غصّہ اتارتے رہے۔ جنہیں بلایا گیا‘ ان میں سے بھی کچھ ایسے تھے جو انتظامات پر تنقید کرتے رہے۔ شاید انسانی فطرت ہے کہ خوش مشکل سے ہوتی ہے ؎
نہ مطمئن ہے فقیہِ حرم نہ رندِ خراب
اِسے سزا کا ہے دھڑکا‘ اُسے جزا معلوم!
ایک ادبی میلہ آرٹس کونسل کراچی والے بھی سال بہ سال منعقد کرتے ہیں۔ اس میں مگر فیصلے فردِ واحد کے ہاتھ میں ہوتے ہیں۔ ایک ہی صاحب طے کرتے ہیں کہ کون شاعر ہے اور کون نا شاعر‘ اور کون ادیب ہے اور کون غیر ادیب! اکادمی ادبیات کا میلہ اس لحاظ سے غنیمت ہے کہ اس میں فیصلے فردِ واحد کے ہاتھ میں نہیں! اب کے متعلقہ وزارت کا قلم دان عرفان صدیقی کے پاس تھا۔ وہ خود کم و بیش اسی کوچے کے پرانے راہرو ہیں۔ تمام ممتاز اہل قلم سے ذاتی حوالے سے شناسائی رکھتے ہیں۔ ہر ایک سے ملتے ہیں، بات سنتے ہیں۔ ان کی سیاسی وابستگی اپنی جگہ‘ مگر بنیادی طور پر تعلق اہلِ قلم سے ہے۔
اکادمی ادبیات کے چیئرمین ڈاکٹر قاسم بگھیو ایک وضعدار اور خوش اخلاق شخص ہیں ؎
بہت جی خوش ہوا اے ہم نشیں کل جوش سے مل کر
ابھی اگلی شرافت کے نمونے پائے جاتے ہیں
ان کی خوش قسمتی دوچند اس حوالے سے ہوئی کہ ان کے پاس کام کرنے والے نوجوان خود شعر و ادب کی وادی کے مسافر ہیں۔ اختر رضا سلیمی آغازِ شباب ہی میں اقلیم شعر پر دھاک بٹھا چکا ہے۔ اس کا ایک شعر تو ضرب المثل ہی بنتا جا رہا ہے ؎
پھر اس کے بعد گر گیا سونے کا بھائو بھی
اک شام اس نے کان سے جھُمکا اتارا تھا
مگر سلیمی کا اصل کارنامہ اس کا ناول ''جاگے تھے خواب میں‘‘ ہے۔ اسلام آباد اور اٹک کے درمیان بہتا دریائے ہرو اس کا لینڈ سکیپ ہے۔ زمان و مکان سے ماورا ہو کر اس نے نیا تجربہ کیا ہے اور ناول کے تالاب میں وہ کنکر پھینکا ہے کہ ارتعاش تھم ہی نہیں رہا! عاصم بٹ‘ جو اکادمی ادبیات کے لاہور آفس کا مدارالمہام ہے فکشن اور تراجم کے میدان میں نام پیدا کر چکا ہے۔ افسانوں کے متعدد مجموعوں کے علاوہ ''دائرہ‘‘ اور ''ناتمام‘‘ کے عنوان سے ناول تصنیف کر چکا ہے۔ نوجوان افسر علی یاسر کا تازہ مجموعۂ کلام ''غزل بتائے گی‘‘ اس کی شاعری کی صلاحیتوں کے ضمن میں بہت کچھ بتاتا ہے! ایک خوش آیند اقدام اکادمی کے چیئرمین نے اب کے یہ کیا کہ ڈائریکٹر جنرل کی مسند کے لیے حسبِ سابق سرکار سے کوئی گردن بلند بیورو کریٹ ادھار نہیں لیا بلکہ ڈاکٹر راشد حمید کو تعینات کیا ہے، جس کا تعلق لکھنے پڑھنے کی دنیا سے ہے اور اکادمی ادبیات میں پہلے ہی اس نے اچھا اور کامیاب وقت گزارا ہے! اس ٹیم کی موجودگی‘ چیئرمین ڈاکٹر قاسم بگھیو کے لیے نعمت ثابت ہوئی۔ سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ یہ سارے نوجوان حفظِ مراتب سے آگاہ ہیں‘ مودََّب ہیں اور شعرا اور ادیبوں کی حساسیت سے بخوبی واقف ہیں! اِن پوسٹوں پر اگر روایتی بیوور کریٹ قابض ہوتے تو وہ تھری پیس سوٹ پہن کر سگار کے لمبے لمبے کش تو لے لیتے مگر انہیں یہ نہ معلوم ہوتا کہ کون ادیب کتنے پانی میں ہے‘ کس کی آئو بھگت کرنی ہے اور کس کے ساتھ کیا سلوک کرنا ہے۔ بیورو کریٹ عام طور پر شاعروں اور ادیبوں کو نظر انداز کر کے‘ اپنے شدید احساس کمتری کو تسکین دیتا ہے۔ اس میں مستثنیات یقیناً ہیں، کچھ بیورو کریٹ پڑھے لکھے بھی ہوتے ہیں۔ اس قدر کہ بیورو کریٹ لگتے ہی نہیں!
شاعر اور ادیب بظاہر منکسر المزاج ہوتے ہیں مگر سچ یہ ہے کہ وہ بہت حساب ہوتے ہیں۔ ان کے دل آبگینے ہوتے ہیں جنہیں ٹھیس بہت جلد لگتی ہے۔ وہ اس معاملے میں نازک دل ہوتے ہیں کہ انہیں ان کا وہی مقام دلوایا جائے جس کا وہ استحقاق رکھتے ہیں۔ لٹریچر سے تعلق رکھنے والے لوگ ہی ایک معاشرے کا اصل سرمایہ ہیں۔ وہ جو مجید امجد نے گلاب کے پھولوں کے بارے میں کہا تھا کہ ؎
سلگتے رہتے ہیں چپ چاپ‘ ہنستے رہتے ہیں
مثالِ چہرۂ پیغمبراں گلاب کے پھول
تو یہ شاعروں اور ادیبوں پر بھی صادق آتا ہے۔ محمود غزنوی نے فردوسی کا دل توڑا تو فردوسی نے اس پر جو اشعار کہے‘ قلم توڑ کے رکھ دیا۔ محمود غزنوی کی ایسی تصویر کھینچی کہ اس کی ساری فتوحات اور انتظامی کامرانیوں پر پانی پھیر دیا! ؎
شنیدم کہ شہ مطبخی زادہ است
بجائی طلا نقرہ ام دادہ است
کہ سنتے ہیں بادشاہ ایک باورچی کی اولاد ہے، جبھی تو سونے کے بجائے مجھے چاندی دی!
ایسی کانفرنسوں کا اصل چارم ادب سے تعلق رکھنے والے نوجوان دلدادگان کے لیے یہ ہوتا ہے کہ وہ سینئر شاعروں اور ادیبوں کو جیتی جاگتی صورت میں دیکھ لیتے ہیں۔ ان کی تصانیف کو خریدنے والے‘ انہیں شوق سے پڑھنے والے اور اپنی لائبریریوں میں سجا سجا کر رکھنے والوں کے لیے کیا یہ کم انعام ہے کہ وہ ان شخصیات کو قریب سے دیکھ سکتے ہیں۔ ان سے بات چیت کر سکتے ہیں‘ انہیں سُن سکتے ہیں۔ کہیں کشور ناہید اپنے مداحوں میں گھری ہیں اور بے باک گفتگو سے ان کے دل موہ رہی ہیں۔ وہ دیکھیے‘ مستنصر حسین تارڑ ایک ہجوم کے درمیان سوالوں کے جواب دے رہے ہیں۔ ایک پرستار بتا رہی ہے کہ اس نے اعتکاف کے دوران ان کی تصنیف ''غارِ حرا میں ایک رات‘‘ پڑھی۔ وہاں عطاء الحق قاسمی اپنے وابستگان کو اپنی تصانیف کے بارے میں بتا رہے ہیں۔ ساتھ ساتھ پھلجھڑیاں بھی چھوڑ رہے ہیں۔ قہقہے ہیں کہ چاندی کی طرح چمکتے ہیں۔ کالم نگاری کو ادب کے ساتھ اس بابے نے ایسا آمیز کیا ہے کہ بس اسی کا حصّہ ہے۔ کچھ نوجوان انور شعور کو گھیرے کھڑے ہیں۔ وہاں سحر انصاری بیٹھے ہیں اور گفتگو کر رہے ہیں۔ سننے والے ہمہ تن گوش ہیں۔ عقیل عباس جعفری سے لے کر فاطمہ حسن تک‘ ڈاکٹر مرزا حامد بیگ سے لے کر سعود عثمانی تک‘ ڈاکٹر ابرار احمد سے لے کر صابر ظفر تک‘ سب کو ایک ہی چھت تلے دیکھا جا سکتا ہے! اس لحاظ سے ایسی کانفرنسوں تک رسائی رکھنے والے قارئین خوش بخت ہیں۔ ورنہ پڑھنے والا بعض اوقات‘ زندگی بھر‘ اپنے پسندیدہ ادیبوں اور شاعروں کو ملنے اور دیکھنے کی حسرت پوری نہیں کر پاتا ؎
سنے ہیں تذکرے اُس کے مگر دیکھی نہیں ہے
محبت پاس سے گزرے تو کہنی مار دینا
پہلو مگر اس قضیے میں ایک اور بھی ہے۔ یہ بڑے بڑے شاعر‘ یہ نامور ادیب‘ اتنے تنک مزاج‘ اتنے سیماب صفت اور اس قدر لا ابالی ہوتے ہیں کہ بس ان کی صحبت‘ تھوڑی دیر ہی کے لیے روا رکھنی چاہیے۔ ان کے مزاجوں کا کچھ پتا نہیں ہوتا! ان میں سے اکثر کا یہ عالم ہے کہ ؎
تلخ کر لیتا ہوں ہر لذت کی شیرینی کو میں
کیوں نگہ میری نگاہِ دُور بیں رکھی گئی
کہیں پڑھا تھا کہ جس زمانے میں ہوائی جہاز نہیں تھے یعنی انیسویں صدی میں‘ فرانسیسی ادب کی ایک دلدادہ خاتون نیو یارک میں رہتی تھی۔ اس کا اوڑھنا بچھونا فرانسیسی ادب تھا۔ ایک ایک شاعر اور ادیب کے بارے میں اتنی معلومات رکھتی تھی گویا انسائیکلو پیڈیا تھی! جب پڑھا کہ یہ سارے اس کے پسندیدہ بڑے بڑے ادیب شاعر پیرس کے کافی ہائوسوں اور چائے خانوں میں بیٹھتے ہیں تو ان سے ملنے کا شوق چرایا۔ بحری جہاز میں بیٹھی‘ بحرِاوقیانوس پار کیا اور پیرس پہنچ گئی۔ مگر جب ان بڑے بڑے اہلِ قلم سے ملنا جلنا شروع کیا‘ انہیں نزدیک سے دیکھا تو سخت دلبرداشتہ ہوئی۔ بطور انسان‘ یہ لوگ اُس بلندی کے حامل نہیں تھے‘ جسے اپنی تحریروں میں شد و مد سے پیش کرتے تھے۔ ناقابلِ اعتبار ‘ پارے کی طرح تغیر پذیر‘ بعض اوقات جذبات سے بھی عاری‘ اپنے آپ میں گم‘ کبھی اپنے آپ سے بھی نالاں ‘ چنانچہ خاتون نے کتابیں دریا برد کیں‘ دوبارہ بحری جہاز میں بیٹھی اور ادب اور ادیب دونوں سے توبہ کی! مگر یہ حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ عظیم تخلیقی کارنامے سرانجام دینے والے لوگ نارمل ہو بھی نہیں سکتے۔ ایک نارمل شخص نوکری کرتا ہے‘ شام کو سبزی، گوشت، دال خریدتا ہے، سوتا ہے اور بس! بقول اکبر الہ آبادی ؎
ہم کیا کہیں احباب کیا کارِ نمایاں کر گئے
بی اے کیا نوکر ہوئے پنشن ملی پھر مر گئے
راتوں کو جاگنے والے‘ سوچنے والے‘ لکھنے والے‘ شمعوں کی جگہ آنکھیں جلانے والے‘ کائنات سے لے کر زندگی تک کے اسرار و رموز پر غور کرنے والے نارمل کیسے ہو سکتے ہیں! ادیب اور شاعر تو اہلِ طریقت کی طرح ہوتے ہیں ؎
گہی برطارِم اعلیٰ نشینیم
گہی بر پشتِ پائی خود نہ بینیم
کبھی تو ناقابل بیان بلندیوں پر ہوتے ہیں اور کبھی یہ عالم ہوتا ہے کہ اپنے ہی پائوں کا اوپر کا حصّہ نہیں نظر آتا۔
کانفرنس کی رونمائی یعنی افتتاح جناب وزیر اعظم پاکستان نے کیا۔ ادیبوں اور شاعروں کو شکوہ ہے کہ وہ اگر ان کے ساتھ چائے بھی پی لیتے‘ ''عوام‘‘ میں کچھ دیر گھل مل بھی جاتے ‘ تو کیا ہی اچھا ہوتا! معروف شاعر نصیر احمد ناصر نے بہت بر محل کمنٹ دیا ہے:
''وزیر اعظم تقریر ختم کر کے ڈائس سے ہی فوراً واپس چلے گئے۔ کتنا اچھا ہوتا اگر وہ چند منٹ چائے پر ادیبوں اور شاعروں کے ساتھ گزار لیتے۔ کسی سے ہاتھ ملاتے‘ کسی سے ہیلو ہائے کرتے‘ تھوڑی مسکراہٹ اچھالتے۔ دو چار گھونٹ چائے کے بھرتے، ایک آدھ مِنی پیسٹری کھاتے، آخر دور و نزدیک سے آئے سینکڑوں ادیب و شاعر اسی ملک کے شہری اور انسان ہیں جس کے وہ سربراہ ہیں۔ اس طرح غیر ملکی مندوبین کے سامنے ملک کا جمہوری اور سافٹ امیج بھی بنتا۔ یہ کوئی انوکھی بات نہیں۔ حقیقی جمہوری اور ترقی یافتہ ملکوں میں تو یہ ایک عام سی بات ہے‘‘۔