عزت مآب ہز ایکسی لینسی جناب رانا ثناء اللہ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے وزیر قانون ہیں۔ پنجاب یوں سمجھیے ملک کا 75 فیصد حصّہ ہے۔ اس طرح عزت مآب رانا صاحب ملک کے 75 فیصد حصّے کے وزیر قانون ہیں۔
یہ خبر وحشت ناک تھی۔ خبر کا عزت مآب رانا صاحب کے قلمدانِ وزارت سے براہ راست تعلق تھا مگر عزت مآب رانا صاحب ایک طویل عرصہ سے جوڈیشل سسٹم کو ''موثر‘‘ بنانے میں مصروف ہیں۔ جوڈیشل سسٹم کو ''مضبوط‘‘ بنانے کے علاوہ عزت مآب رانا صاحب پراسیکیوشن کو بھی ''موثر‘‘ بنانے کے لیے اقدامات کر رہے ہیں۔ عزت مآب رانا صاحب کا اوڑھنا بچھونا قانون کا نفاذ اور قانون کی حکمرانی ہے! یہ مصروفیات ہمہ گیر ہیں اور عزت مآب رانا صاحب ان مصروفیات کے کیچڑ میں کمر تک نہیں‘ گلے تک دھنسے ہوئے ہیں۔ بس یہ مجبوری ہے، جس کی وجہ سے یہ وحشت ناک خبر رانا صاحب تک نہیں پہنچ سکی۔
ہماری قابلِ صد احترام عدلیہ انصاف کو عوام کے دروازے تک پہنچانے میں رات دن مصروف ہے۔ اس مصروفیت کا نتیجہ یہ ہے کہ لاکھوں لوگ جُرم کے ثبوت کے بغیر زندانوں میں بند ہیں۔ عدلیہ کے انصاف کی وجہ سے کچھ لوگ پھانسی چڑھ گئے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ وہ بے گناہ تھے۔ عدلیہ نے انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے ایک زندانی کو بے گناہ قرار دیا۔ معلوم ہوا کہ اُس بد بخت نے عدلیہ کی مصروفیت کو اہمیت نہ دیتے ہوئے زندان ہی میں موت کو بلا لیا۔ ان تمام مصروفیات کی وجہ سے یہ وحشت ناک‘ ہولناک اور رونگٹے کھڑی کر دینے والی خبر عدلیہ تک نہ پہنچ سکی۔ یوں بھی پچھلے سات سال سے ہماری قابلِ صد احترام عدلیہ عتیقہ اوڈھو کی دو عدد شراب کی بوتلوں والے مقدمے کو انصاف کی دہلیز تک لانے میں مصروف ہے‘ یہ مقدمہ بکرا بن گیا ہے۔ اس کے گلے میں انصاف کی رسّی ہے۔ عدلیہ اس رسّی کو کھینچ کر دہلیز تک لانے کی جدوجہد کر رہی ہے۔ دو دن پیشتر اس مقدمے کی سماعت 18 جنوری تک ملتوی کر دی گئی ہے۔ 18 جنوری سے مراد 18 جنوری 2018ء نہیں بلکہ 18 جنوری 2017ء ہے۔ گزشتہ روز ایک گواہ کا بیان ریکارڈ کر لیا گیا۔ جرح آئندہ تاریخ پر ہوگی۔ جو جانتے ہیں وہ جانتے ہیں، جو نہیں جانتے ان کی اطلاع کے لیے یہ بتا دینا برمحل ہو گا کہ یہ مقدمہ جس میں عدلیہ مصروف ہے‘ شراب کی دو بوتلوں کو‘ نصف جن کا ایک بوتل ہوتی ہے‘ مقامی پرواز کے ذریعے کراچی لے جانے کی کوشش پر قائم ہوا تھا! جس وحشت ناک خبر کا یہاں ذکر کیا جا رہا ہے‘ اُس خبر کی بدقسمتی یہ ہے کہ شراب کی ان دو بوتلوں کا مقدمہ ختم ہونے سے پہلے سرزد ہو گئی۔ اگر یہ مقدمہ ختم ہو گیا ہوتا‘ اور پھر یہ وحشت ناک خبر اُٹھی ہوتی تو انصاف قائم ہونے میں ذرا دیر نہ لگتی۔
یہ وحشت ناک خبر جو اسلام کے اس قلعے کے رخسار پر ایک طمانچہ ہے‘ اُن عَلَم برادران اسلام تک بھی ابھی تک نہیں پہنچی جو اس مملکت خدا داد میں اسلام کے کنٹریکٹر یعنی ٹھیکیدار ہیں! اصل میں وہ مصروف ہیں۔ ابھی وہ اسلام کی بنیادی ذمہ داریاں نبھانے میں گھٹنوں گھٹنوں دھنسے ہوئے ہیں۔ ابھی اس ملک کی کثیر آبادی اللہ تعالیٰ کو خدا‘ سائیں‘ راکھا کے ناموں سے پکارتی ہے۔ کچھ گستاخ اللہ تعالیٰ کو یہاں ''اللہ جی‘‘ کہہ کر پکارتے ہیں جبکہ ''جی‘‘ عربی زبان کا نہیں بلکہ مقامی زبان کا لفظ ہے۔
ان سب مادر زاد اندھوں کو روشنی دکھانے کا کام ابھی باقی ہے۔ ابھی تو یہ بھی نہیں طے ہوا کہ نیل پالش سے وضو ہوتا ہے یا نہیں‘ جرابوں پر مسح کرنا ہے یا نہیں‘ دستار کس رنگ کی زیادہ اجر و ثواب کی مستحق ہے۔ ابھی یہ بھی طے کرنا باقی ہے کہ کون سی مسجد میں نماز پڑھنا افضل ہے اور کس سے پیچھے نماز نہ پڑھنا تقرّب اِلَی اللہ کا بہترین طریقہ ہے۔ ابھی گلی گلی پھر کر‘ در در دستک دے کر لوگوں کو یہ بھی بتانا ہے کہ وعدہ خلافی ہو جائے تو یہ کہو اور یہ سمجھو کہ وعدہ کیا ہی کہاں تھا! وہ تو بس ایک بات کہہ دی تھی! ابھی ہمارے علماء کرام، ان کا سایہ تا حشر ہمارے سروں پر سلامت رہے، اس ٹوہ میں لگے ہیں کہ اِس ملک میں یہودیوں کے ایجنٹ کون کون ہیں! اگرچہ ہمارے مقدس‘ مکرّم اور محترم علماء کرام مغرب کی ساری ایجادات سے بدرجہ اُتم فائدہ اٹھاتے ہیں‘ گھڑیاں باندھتے ہیں‘ دو دو تین موبائل فون رکھتے ہیں۔ ایک جہاز سے اترتے ہیں تو دوسرے پر بیٹھ جاتے ہیں۔ سفر کرتے وقت کافروں کی بنائی ہوئی نصف درجن گاڑیاں آگے تو نصف درجن پیچھے رکھتے ہیں۔ مگر اس کے باوجود اُن لوگوں کی بیخ کنی میں مصروف ہیں جو ''مغربی طرزِ زندگی‘‘ اپنا رہے ہیں۔ اگر دین کے نگہبان ان تمام فرائض کی سرانجام دہی میں مصروف نہ ہوتے تو اس وحشت ناک خبر پر ضرور ایکشن لیتے اور دنیا کو بتاتے کہ اس کا اسلام سے اور اسلام کے اِس ناقابلِ تسخیر قلعے سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے!
اِس وحشت ناک خبر پر ایکشن لینا سب سے زیادہ ہماری ریاست اور حکومت کے سربراہوں پر لازم آتا ہے، مگر افسوس! وہ بھی ازحد مصروف ہیں۔ ریاست کے سربراہِ عالی مرتبت‘ گرامی قدر جنابِ صدر‘ قصرِ صدارت میں صدارتی ذمہ داریوں میں سخت مصروف ہیں اور دنیا و مافیہا سے بے خبر ہیں۔ رہے حکومت کے سربراہ جناب وزیر اعظم تو آپ رات دن شیرشاہ سوری کے حالات زندگی پڑھنے میں مشغول ہیں اور یہ جاننے میں کہ اُس بادشاہ نے شاہراہیں کہاں کہاں بنوائی تھیں۔ رات دن ایک کئے ہوئے ہیں۔ جس دن جناب وزیر اعظم کی تعمیر کردہ شاہراہوں کی لمبائی اور کُل چوڑائی‘ شیرشاہ سوری کی بنائی ہوئی سڑکوں کی لمبائی اور کل چوڑائی سے زیادہ ہو گئی تو عالی وقار صرف اُس دن اطمینان کا سانس
لے سکیں گے۔ اس کے علاوہ ہمارے وزیر اعظم کو حال ہی میں عدالتی کارروائی کے ذریعے معلوم ہوا ہے کہ ان کے لخت ہائے جگر ولایت میں کچھ جائیدادوں کے مالک ہیں۔ جناب وزیر اعظم کی ایک بڑی مصروفیت یہ بھی ہے کہ ان جائیدادوں کا اتہ پتہ معلوم کریں جن کے بارے میں حاشا و کلّا انہیں کچھ معلوم نہ تھا۔ اگر یہ سب مصروفیات‘ جن میں وہ صرف اور صرف غریب عوام کی وجہ سے پھنسے ہوئے ہیں‘ نہ ہوتیں تو خدا کی قسم! جناب وزیر اعظم خبر سنتے ہی بنی پور پہنچ جاتے اور جب تک ملزموں کو کیفرکردار تک نہ پہنچایا جاتا‘ تب تک دارالحکومت عارضی طور پر بنی پور منتقل کر دیتے!
بنی پور (رحیم یار خان) کے ماجد اور زلیخا نے پسند کی شادی کی۔ اس پر زلیخا کے رشتہ داروں نے پنچایت قائم کی! اس پنچایت نے فیصلہ سنایا کہ دولہا اور دلہن کو گولی مار دی جائے۔ دولہا اور دلہن کے پانچ رشتہ داروں کو بھی گولی مارنے کا فیصلہ کیا گیا۔ پنچایت نے یہ بھی حکم دیا کہ قتل کرنے کے بعد ان تمام افراد کے مردہ جسموں سے ان کے ناک اور ٹانگیں کاٹ دی جائیں! پنچایت نے یہ بھی فیصلہ سنایا کہ دولہا کے خاندان کی خواتین کو اغوا بھی کیا جائے! ماجد‘ اس کی دلہن اور اس کے رشتہ دار گھر بار چھوڑ کر اِدھر اُدھر بھاگ گئے ہیں!
اس جدید زمانے میں متوازی نظام انصاف (یعنی پنچایتوں اور جرگوں) کی سہولت صرف پاکستان میں دستیاب ہے! کیا ہی اچھا ہو اگر ایک متوازی‘ یعنی نجی، پولیس فورس بھی ہو! متوازی وزیراعلیٰ اور متوازی گورنر بھی ہوں! متوازی لشکر یعنی فوج تو موجود ہی ہے!!!