دونوں لڑکوں نے ایک ہی بات کہی کہ بچوں کے لیے کھلونے لانے کی کوئی ضرورت نہیں! دلیل دونوں کی الگ الگ تھی۔ بڑے کا کہنا تھا کہ کھلونے گھر میں بہت ہیں۔ کمرے بھرے پڑے ہیں۔ بچوں کے نزدیک کھلونوں کی کوئی وقعت نہیں۔ آدھ گھنٹہ کھیلنے کے بعد بے نیاز ہو جاتے ہیں۔ چھوٹے کا کہنا تھا کہ پاکستان میں مہنگے ہیں اور کوالٹی بھی مشکوک۔ اس کا خیال تھا کہ وہ خرید کر ایئرپورٹ لے آئے گا اور ہم پہنچیں گے تو ہمیں دے دے گا، گویا کہ ہم لائے ہیں۔ مگر دادا نے کہ گرم و سرد چشیدہ تھا‘ بات نہ مانی! کھلونے پاکستان سے خریدے۔ چاروں کے ایک جیسے! حمزہ نے فرمائش کی تھی کہ کالے رنگ کی گاڑی ہو اور ریموٹ کنٹرول والی ہو۔ چنانچہ چاروں کے لیے گاڑیاں ہی لی گئیں۔ ہاں، رنگ مختلف تھے۔ حمزہ باپ اور ماں کے ساتھ ایئرپورٹ آیا ہوا تھا۔ تیمور اور اس کا باپ میلبورن سے ڈیڑھ گھنٹہ کی مسافت پر تھے اور ابھی راستے میں تھے۔ پھر وہی ہوا جو دادا کو معلوم تھا۔ پانچ منٹ صبر کرنے کے بعد حمزہ نے پوچھا: ''میری کالی کار کہاں ہے؟‘‘۔ اُسے بتایا کہ سلیٹی رنگ کے اٹیچی کیس میں پڑی ہے۔ وہ اٹیچی کیس کے پاس گیا اور اسے ہاتھ لگایا۔
''گھر پہنچ کر اُسے چلاتے ہیں‘‘۔ دادا نے کہا۔
شادابی اس کے معصوم چہرے پر پھیل گئی۔ یہ الگ بات ہے کہ گھر پہنچے تو وہ گاڑی میں سو چکا تھا۔ صبح اُٹھ کر سب سے پہلے اس نے گاڑی کا پوچھا۔
بچے دنیا میں دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ خوش بخت جن کے نانا‘ نانی‘ دادا‘ دادی حیات ہوتے ہیں اور ان بچوں کو ان کے پاس یا قریب رہنے کا موقع بھی ملتا ہے۔ دوسری قسم وہ ہے جو اس ناقابلِ بیان نعمت سے محروم ہوتے ہیں یا محروم رہ جاتے ہیں۔ دوسری طرف کا معاملہ ذرا سا پیچیدہ ہے۔ جن کے پوتے‘ پوتیاں‘ نواسے‘ نواسیاں نہیں ہوتے‘ وہ جانتے ہی نہیں کہ یہ پھل کیسا ہے‘ اس کی مٹھاس کتنی آسمانی ہے اور اس کا ذائقہ کتنا بہشتی ہے۔ جس طرح ماں کے پیٹ میں مقید بچے کو سمجھانا ناممکن ہے کہ دُنیا میں درخت کیسے ہیں اور جہاز اور ٹرین کیسی ہے‘ اسی طرح، بالکل اسی طرح‘ جو دادا یا نانا نہیں ہے‘ اسے یہ باور کرانا ممکن ہی نہیں! وہ جنہیں زندگی اتنی مہلت دے دیتی ہے کہ وہ اِس پھل کو دیکھیں اور چکھیں‘ خوش قسمت ہیں! دُنیا میں جتنی بھی فرحت بخش نعمتیں ہیں جیسے کڑکتی‘ چلچلاتی دُھوپ میں خنک سایہ‘ جیسے شدت کی پیاس میں ٹھنڈا میٹھا پانی‘ جیسے مہینوں کے سمندری سفر کے بعد کنارے کا نظر آنا‘ ان سب نعمتوں میں بچوں کے بچوں کا ہونا اور ان کی قربت سرِفہرست ہے۔ شہنشاہ اکبر نے بیربل سے پوچھا تھا: ''مجھے بتائو‘ دنیا میں انسان کے لیے سب سے بڑی تسلّی کیا ہے؟‘‘ بیربل نے ایک لمبی سرد آہ بھر کر جواب دیا تھا کہ جہاں پناہ! یہ اس وقت ہاتھ آتی ہے جب ایک باپ اولاد سے بغل گیر ہوتا ہے! اس اولاد کی اولاد سے بغل گیر ہونا‘ اس سے بھی بڑی تسلّی ہے۔ یہ ایک ایسی نعمت ہے جس کا نعم البدل دولت ہے نہ مرغّن کھانے نہ اقتدار! ایک نواب نے اپنے ایک بچپن کے دوست سے‘ جو غریب کسان تھا‘ پوچھا کہ بدبخت! تمہاری صحت کا راز آخر کیا ہے۔ میں بادام اور چہار مغز کھاتا ہوں‘ مربّے اور انواع و اقسام کی شیرینیاں اور پھل تناول کرتا ہوں، مصفیٰ پانی میرے لیے فلاں چشمے سے آتا ہے، پھر بھی صحت ہے کہ پُھس پُھسی ہی رہتی ہے۔ اِدھر تُم ہو کہ کھٹی لسّی تمہیں مشکل سے میسّر ہے مگر ہٹے کٹے تنومند ہو۔ کسان نے کہا نواب صاحب! آپ کیا کھاتے ہیں؟ مٹی اور راکھ! میں جب کھیتوں میں ہل چلا کر گھر آتا ہوں تو میرے پوتے اور نواسے میرے اُوپر چھلانگیں لگاتے ہیں۔ کوئی چومتا ہے‘ کوئی داڑھی کھینچتا ہے‘ پھر وہ مجھے کھینچ کر دکان پر لے جاتے ہیں جہاں میں انہیں ریوڑیاں، بتاشے‘ نُگدی اور مکھانے خرید کر دیتا ہوں۔ انہیں کھاتا دیکھتا ہوں تو سیروں خون بڑھتا ہے‘ یہ ہے صحت کا راز! تمہارے پاس چوراسی دیہات پر مشتمل جاگیر تو ہے مگر اولاد ہے نہ اولاد کے بچے!
پھر جن کی اولاد اور اولاد کے بچے ان کے پاس ہیں‘ وہ دوسروں سے زیادہ خوش بخت ہیں۔ اس کی شہادت کلام پاک میں بھی ملتی ہے۔ سورۃ مدثر میں اللہ تعالیٰ ایک دشمن رسولؐ کا ذکر کرتے ہوئے‘ وہ نعمتیں گنواتے ہیں جو اس بدبخت کو ملیں۔ بہت سا مال اور اس کے ساتھ حاضر (موجود) رہنے والے بیٹے!! گویا اولاد کا ہونا نعمت ہے اور اس کا پاس یا قریب رہنا اضافی نعمت ہے!
بات کھلونوں سے شروع ہوئی تھی۔ جیسے ہی بچوں کو خبر ملتی ہے کہ دادا‘ دادی یا نانا‘ نانی آ رہے ہیں تو ان کے دلوں میں اُمید کے باغ کھل اُٹھتے ہیں۔ وہ اُن کھانے والی اور کھیلنے والی چیزوں کا تصّور کرتے ہیں جو وہ لائیں گے۔ اس خوشی کا کوئی جواب نہیں! کون سا کھلونا ہے جو ان کے پاس پہلے سے نہیں ہوتا اور کھانے کی کون سی چیز ہے جو انہیں میسر نہیں! مگر پدر بزرگ اور مادر بزرگ جو کچھ لاتے ہیں اس کا مزہ ہی اور ہے۔ ماں باپ کو منع کرنے والے لڑکے اپنا زمانہ بھول گئے کیا؟ والدہ مرحومہ جب بھی آتی تھیں سوجی کا کہّار (میٹھا سفوف) بنا کر ضرور لاتی تھیں‘ جسے یہ بچے جو اب باپ ہیں‘ اس قدر رغبت سے کھاتے تھے کہ دیکھ کر حیرت ہوتی تھی۔ یہ نسل یوں بھی قسمت کی اتنی دھنی نہیں جتنی ہماری تھی۔ ان کے بزرگ شہروں سے آتے ہیں۔ چاکلیٹس‘ مٹھائیاں‘ کیک اور پیسٹریاں لاتے ہیں۔ ہمارے بزرگ گائوں سے تشریف لاتے تھے۔ باجرے کا میٹھا آٹا لاتے تھے اور چاول‘ مکئی اور جوار کے مرونڈے اور تنور میں نرم کئے ہوئے سبز چنے اور گندم کے کرسپی چٹختے دانے جنہیں ہم اٹک چکوال کے علاقے میں بھُوٹی کہتے تھے اور منوں کے حساب سے خربوزے جو آج کل کے شیور کے خربوزوں کی طرح گنجے اور بے رنگ نہیں ہوتے تھے بلکہ پیلے سبز اور ارغوانی اور کئی رنگوں کے‘ اور موٹھ کی پھلیاں ہوتی تھیں اور دودھ سے بھری بوتلیں اور دہی اور لسّی کی پوری پوری چاٹیاں! اور ستّو جنہیں بڑی عمر کے لوگ پانی میں گھول کر پیتے تھے مگر بچوں کو خشک ستّو گھی اور شکر کے ساتھ ملا کر دیئے جاتے تھے۔ گھی تب گھی ہوتا تھا! ہائیڈروجن کی ماری ہوئی گریس نما شے نہیں ہوتی تھی!
وہ بچے ہی کیا جو کھلونوں سے جلد اکتا نہ جائیں! یہی تو بچپن ہے اور بچپن کی معصومیت! اس کی تہہ میں وہ دانائی ہے جو بچوں کے پاس ہے مگر افسوس! بڑوں کے پاس نہیں! یعنی چیزوں سے دل نہ لگانا۔ حقِ ملکیت نہ جتانا! کتنا ہی قیمتی کھلونا کیوں نہ ہو‘ بچے کا دل اس سے اچاٹ ہو جاتا ہے۔ کئی برس گزرے‘ غالباً ڈاکٹر وزیر آغا کا ''اوراق‘‘ تھا جس میں بلراج کومل کی نظر پڑھی تھی۔ آخری چند سطریں حافظے پر کھُد گئیں۔ بچہ ماں باپ سے ریڈیو کا تقاضا کرتا ہے۔ غریب ماں باپ پیسہ پیسہ بچا کر، جوڑ کر اسے ریڈیو خرید دیتے ہیں۔ ایک ہفتے بعد بچہ ریڈیو سے اکتا جاتا ہے۔ نظم کی آخری سطریں دیکھیے:
یہ ایک ہفتے کی بات ہے اور کل سے مُناّ یہ کہہ رہا ہے / یہ جانور صبح و شام بیکار بولتا ہے / مہیب خبروں کا زہر گیتوں میں گھولتا ہے / گلی میں کوئی فقیر آئے تو اس کو دے دو / مجھے اکنّی کا مور لے دو!
بچوں کی ایک قسم وہ ہے جو دیہات میں رہتی ہے۔ شہروں میں نوکریاں کرنے والے بھائی‘ ابو‘ چاچے‘ مامے جب چھٹی پر آتے ہیں تو شہر سے پھل اور کھلونے لاتے ہیں۔ سامان اترتے ہی پھلوں کی خوشبو ٹوکروں سے چھن چھن کر باہر آنے لگتی ہے‘ یہ وہ چیزیں ہیں جو گائوں میں نہیں ملتیں! اپنا اپنا پیکج ہے۔ کچھ فائدے اور نقصانات گائوں والے پیکج میں ہیں اور کچھ شہر والے پیکج میں! سول سروس میں شامل ہوئے چند ماہ ہی گزرے تھے۔ کراچی کے گورنمنٹ ہوسٹل میں جو چڑیا گھر کے بالمقابل ہے‘ قیام تھا! ایک رات سوتے ہوئے اچانک آنکھ کھُلی۔ نہ جانے کہاں سے اور کیسے گائوں کی خوشبو کمرے میں داخل ہوئی! دل و جان معطر ہو گئے مگر ساتھ ہی کرب کا کانٹا روح میں چبھا۔ نہ معلوم کیسے اُتری مگر نظم تھی کہ کاغذ پر اترتی رہی‘ پھر رات کے ساتھ ساتھ ڈھلتی رہی:
گھنے پیٹر‘ شاخوں پر بُور اور اونچے پہاڑ/ ہری جھاڑیاں اور سبزے کی موٹی تہیں/ سڑک کے کناروں پہ کھمبوں کے تار/ ہوا سے ہلیں سر سرائیں/ رسیلے جھکوروں میں وہ تیز نشہ کہ بس سو ہی جائیں / کسی ایک کو پیاس لگ جائے تو سب کے سب / کھیلتے مسکراتے / نشیبی چٹانوں میں بہتے ہوئے میٹھے جھرنے کی جانب چلیں / اور ہاتھوں کے پیالوں کو اک دوسرے کے لبوں سے لگا دیں / کبھی کوئی بس آئے اور جو بھی اترے / محبت سے احوال پرسی کرے اور اسباب سر پر دھرے / گائوں کا راستہ لے / کبھی کوئی چرواہا کندھے پر لاٹھی رکھے اور ہاتھوں کو لاٹھی پہ لٹکائے / آہستہ آہستہ ریوڑ لیے گزرے / اور پوچھتا جائے ''کیوں جی کہاں جا رہے ہو؟‘‘ / کبھی دور کے کھیت سے اک مدھر تان اٹھے اور سب بھول جائیں / کہ کیا کہہ رہے تھے / پھر اک بس رُکے اور ابّا نظر آئیں اور / کنکروں اور لکیروں کی دلچسپ معصوم بازی کو سب بھول جائیں / کوئی زین گھوڑے پہ کسنے لگے کوئی سامان اٹھائے / شہر سے آنے والے پھلوں کی مہک ہر طرف پھیل جائے / کھلونوں کی جھنکار دل میں عجب گدگدی سی مچائے/ حویلی کے چوبی منقش بڑے در پہ دادی کھڑی منتظر ہوں...آٹھ بجنے کو ہیں/ ناشتہ کب سے تیار ہے / آج آفس نہیں جائیں گے کیا؟