ہم جس چھت کے نیچے رہ رہے ہیں اس کو سہارا دینے والے سارے ستون نفاق کے ہیں۔ باہر لان میں نفاق کی گھاس ہے حویلی کا پھاٹک کڑی سے نہیں نفاق سے بنایا گیا ہے کمروں میں فرش اور الماریاں نفاق کے میٹریل سے بنی ہیں۔ نفاق ہمارا پرچم ہے۔ نفاق ہمارا نشان ہے۔ علامتیں ہماری ساری کی ساری نفاق کی ہیں۔ استعارے تشبیہیں کنائے سب نفاق کے ہیں۔
ہم نے دیمک کو کتابوں کی حفاظت پر مامور کیا ہوا ہے۔ چوہوں کے مسائل حل کرنے کے لیے جو کمیٹی بنائی ہے اس کے ارکان‘ اس کا چیئرمین سب بلّے اور بلیاں ہیں۔ ہم ممیاتی بکریوں کی پیٹھوں پر دستِ شفقت پھیر کر‘ ہار بھیڑیوں کی گردنوں میں ڈالتے ہیں۔ ہم نے لکڑ ہاروں کو جنگل کے پہرے پر بٹھا رکھا ہے اس سب کچھ کے باوجود ہم خوش ہیں۔ خوش ہی نہیں مست ہیں! ظلم کی انتہا یہ ہے کہ ہم اپنے ہر قدم پر داد طلب نظروں سے ادھر ادھر دیکھتے ہیں۔ ہم اپنے ہر اٹھائے ہوئے اقدام پر واہ واہ سبحان اللہ سننا چاہتے ہیں۔ ہماری بدبختی کہ ہمیں داد بھی مل جاتی ہے اور واہ واہ سبحان اللہ کہنے والے بھی میسر آ جاتے ہیں۔
جنہوں نے یہ خبر سن لی ہے وہ خوش قسمت ہیں۔ جنہوں نے نہیں سنی وہ سن لیں کہ سینیٹ کے چیئرمین صاحب نے پسے ہوئے و اماندہ طبقات پر ایک کتاب تصنیف کی ہے۔ آپ نے بتایا ہے کہ پسا ہوا طبقہ وہ پاکستان ہے جو اشرافیہ کو نظر نہیں آتا اور فرمایا ہے کہ چوکوں پر بھیک مانگنے اور شیشے صاف کرتے بچوں کے پیچھے کارفرما مافیا کو بے نقاب کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کتاب کی تقریب میں پسے ہوئے طبقات کی بھر پور نمائندگی کے لیے سپیکر قومی اسمبلی‘ وزیر خزانہ‘ وزیر قانون‘ سینیٹ میں قائد ایوان‘ ایک سابق وزیر اعظم قمر زمان کائرہ نیر بخاری‘ وسیم سجاد‘ محمد میاں سومرو‘ محمود خان اچکزئی سمیت بہت سے دوسرے پسے ہوئے حضرات موجود تھے!
سچ کہا اس موقع پر جناب رضا ربانی نے کہ پسا ہوا طبقہ اشرافیہ کو نظر ہی نہیں آتا۔ کتنا بڑا سچ ہے جو جناب کے منہ سے نکلا ہے! تین بار آپ کی پارٹی کی حکومت رہی مگر یہ پسا ہوا طبقہ پارٹی کو نظر نہ آیا۔ پانچ برس کی حکومت تو ماضی قریب ہی میں پارٹی نے مکمل کی ہے۔ چوکوں پر بھیک مانگتے اور شیشے صاف کرتے بچوں کے پیچھے کارفرما مافیا کو کیوں نہیں بے نقاب کیا؟ کتاب کے مصنف آج بھی ملک کے تیسرے بلند ترین منصب پر فائز ہیں۔ صدر اور وزیر اعظم کے بعد آپ کا مرتبہ عالی ترین ہے۔ تو اس مافیا کو بے نقاب کرنے کے لیے آپ کیوں کچھ نہیں کرتے؟ کیا چیز مانع ہے؟ چلیے‘ حاجیوں کے احرام بیچنے پر اور ایفی ڈرین والے جرائم پر تو آپ مہر بلب ہیں کہ آپ کے اپنے طبقہ‘ اشرافیہ پر زد پڑتی ہے‘ بھیک مانگتے اور گاڑیوں کے شیشے صاف کرتے بچوں کے پیچھے کارفرما مافیا کو آپ طاقت ور منصب پر بیٹھ کر کیوں نہیں بے نقاب کر رہے ہیں؟ کیا اس میں بھی اشرافیہ ملوث ہے؟
سندھ پولیس کے سربراہ جناب اے ڈی خواجہ نے پولیس پر ہونے والے مظالم کی دہائی دی تو کہاں؟ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری میں! اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا!! تاجر اور صنعت کار!! جو اس ملک میں قانون شکنی کے سرخیل ہیں‘ آپ کو یہ رونا رونے کے لیے مناسب ترین لگے!! حضور! کسی ٹریڈ یونین کے پاس چلے جاتے! طلبہ کو یہ دکھڑا سناتے وکیلوں کے بار میں چلے جاتے! ڈاکٹروں کے کسی اجتماع میں یہ تقریر فرماتے! ارے خواجہ صاحب! تاجروں کو پولیس پر ہونے والے مظالم پر اتنی ہی تشویش ہے جتنی ٹیکس ادا کرنے والوں کی حقیر تعداد پر!! ان
حضرات کا پولیس سے صرف اتنا تعلق ہے کہ پولیس انہیں حفاظت مہیا کرے تاکہ یہ نفع کماتے رہیں اور ٹیکس چراتے رہیں! آپ قانون کے محافظ ہیں! آپ نے تاجروں سے خطاب کیا تو پہلے ان سے یہ تو منواتے کہ وہ ملک کی حالت پر رحم کرتے ہوئے کاروبار غروب آفتاب کے ساتھ بند کریں اور صبح وقت پر شروع کریں کہ ساری مہذب دنیا میں یہی ہو رہا ہے! آپ ان سے یہ تو کہتے کہ وہ خوراک ادویات اور بچوں کے دودھ میں ملاوٹ بند کریں۔ ذخیرہ اندوزی‘ ناجائز نفع خوری اور چور بازاری سے توبہ کریں! بن مانگے گاہک کو رسید دیں اور ٹیکس والوں کو وہی رسید دکھائیں! دو دو رجسٹر نہ بنائیں! ملک میں تجاوزات کے مکروہ جرم میں کم و بیش اسیّ نوے فیصد حصہ تاجروں کا ہے۔ فٹ پاتھوں پر ان کے قبضے ہیں۔ پارکنگ کے رقبوں کو یہ استعمال کر رہے ہیں۔ شاہراہوں اور دکانوں کے بیچ جو جگہ عوام کی ہے اس پر یہ بیٹھے ہیں یا ان کے کارندے! جو طبقہ ستر سال میں ری فنڈ(Refund)پالیسی نہ بنا سکا‘ جو یہ کہہ کر کہ ''خریدا ہوا مال واپس یا تبدیل نہ ہو گا‘‘صارفین کے رخسار پر تھپڑ رسید کرتے ہیں‘ وہ قانون تبدیل کرانے کے لیے آپ کی مدد کریں گے!! یہ تو قانون توڑنے میں خود سرِفہرست ہیں!
آپ تاجر طبقے کی دھاندلی ملاحظہ فرمائیے اور کانوں کو ہاتھ لگائیے! حکومت پنجاب نے پنجاب ڈرگ ایکٹ 1976میں ترمیم تجویز کی ہے اس تجویز کی رو سے جعلی‘ غیر معیاری یا پرانی دوا رکھنے اور فروخت کرنے والے دوا فروش کو گرفتار کیا جائے گا اس پر اس ''محب وطن‘‘ اور ''قانون پسند‘‘ طبقے نے مظاہرہ کیا بینر لٹکائے۔ دکانیں بند کیں۔ بیماروں کو ادویات سے محروم رکھا۔ مریضوں کی''دعائیں‘‘ لیں! مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ جہاں ان کی تنظیم کے عہدیدار نے اس ترمیم کی مخالفت کی وہیں یہ دعویٰ بھی کیا کہ کسی دوا فروش کی دکان میں کوئی غیر معیاری دوا موجود ہی نہیں اور یہ کہ سپلائی کرنے والے‘ دوا کی مدت ختم ہونے سے پہلے ہی دکانوں سے ایسی دوائیں اٹھا لیتے ہیں! ارے میاں! تو پھر ترمیم سے گھبرانے کی کیا ضرورت ہے ؟ آں را حساب پاک است از محاسبہ چہ باک؟ آپ پاک صاف ہیں تو محاسبہ سے خوف زدہ کیوں ہیں؟
وسطی پنجاب میں متعلقہ حکام نے خشک دودھ کے سوا نو ہزار بیگ پکڑے ہیں جو افغانستان کے لیے درآمد کئے گئے تھے اور سمگل کر کے واپس پاکستان میں منگوائے گئے۔ مالیت اس مال کی چھ کروڑ روپے ہے اور محصول اس پر لاکھوں کا بنتا ہے۔ یہ سمگل شدہ مال ایک رائس مل سے برآمد ہوا۔ کیا چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے ارباب حل و عقد اس واردات کی مذمت کریں گے؟
پولیس کے صوبائی سربراہ نے درست بات غلط جگہ پر کی۔ اس میں شک ہی کیا ہے کہ ایک سو چھپن سالہ پرانا قانون آج کے معاشرے کے لیے اتنا ہی نقصان دہ ہے جتنی ایک دوا جو اپنی مدت پوری کر چکی ہے! یہ بھی حقیقت ہے کہ پولیس فورس‘ بالخصوص پولیس کا جوان مظلوم ہے۔1861ء کے قانون میں سب سے بڑا سقم کیا ہے اور پولیس کا جوان کیوں مظلوم ہے؟ اس کی تفصیل ہم آئندہ ملاقات میں بتائیں گے۔