یہ محلّے کا عجیب و غریب گھر تھا۔ ایسا عجیب و غریب کہ ایک چیستان سے کم نہ تھا۔
گھر کے ذرائع آمدن نہ ہونے کے برابر تھے۔ گزر بسر قرضوں پہ ہوتی یا خیرات سے! ایک قرضہ اتارنے کے لیے دوسرا قرضہ لینا پڑتا اور دوسرا قرضہ اتارنے کے لیے تیسرے قرضے کا اہتمام کرنا پڑتا۔ کبھی مٹی کے تیل کا کنستر کوئی صدقے میں لا دیتا۔ کبھی یہ کہہ کر کوئی گھی کا ڈبہ دے دیتا کہ رقم بعد میں دے دینا۔ اس سب کچھ کے باوجود گھر والے گلے میں پستول حمائل کیے رکھتے اور کمر کے گرد گولیوں بھری پیٹی کسی رہتی۔ محلّے میں وقعت صفر کے برابر تھی مگر جب محلّے کے دو بڑے خاندانوں میں جھگڑا ہوتا تو اس عجیب و غریب گھر والے صلح صفائی کرانے آگے آگے ہوتے۔ یہ اور بات کہ کوئی ان پر توجہ دیتا نہ ان کی کسی بات کی کوئی اہمیت ہوتی! یہ خود ساختہ چودھری تھے! ان پر پنجابی کی وہ ضرب المثل صادق آتی تھی۔ شملہ بڑا ہے۔ دستار کو کلف لگی ہوئی ہے۔ دوسری طرف گھر میں بیوی بھوک سے ایڑیاں رگڑ رہی ہے!
کیا عملی زندگی میں ایسا ہوتا ہے یا اُوپر بیان کی گئی صورت حال محض تصوراتی ہے؟ ہو سکتا ہے آپ کے نزدیک یہ ایک خیالی اور فرضی تصویر ہو مگر کل کا بیان پڑھ کر یقین ہو گیا کہ ہم جن صورتوں کو فرضی خیال کرتے ہیں‘ وہ اصل میں بھی وجود رکھ سکتی ہیں!
''پاکستان مسلم دنیا کیلئے مثال بنے گا۔ اور اس کی قیادت کرے گا۔ کوشش کریں گے کہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان دوستی کرائیں۔ صدر ٹرمپ سے بھی کہا تھا کہ امریکہ اور ایران کی دوستی کرانے کے لیے ہم تیار ہیں‘‘۔
اللہ اللہ! اب ہم مسلم دنیا کے لیے مثال بنیں گے اور قیادت بھی فرمائیں گے! نہ صرف ایران اور سعودی عرب کے درمیان بلکہ ایران اور امریکہ کے درمیان بھی دوستی کرائیں گے!! ایک پرانی شعر نما کہاوت یاد آ رہی ہے؎
مال گودام سے لے گئی چیونٹی گندم کی اک بوری
جہلم کا دریا‘ سکھر کا پُل دونوں ہو گئے چوری!
انور مسعود نے ایک قطعہ خوب کہا ہے ؎
''راوی‘‘ کا بیاں ہے کہ مرے سابقہ پُل پر
چیونٹی کوئی کہتی تھی کسی فیلِ رواں سے
بے طرح لرز جاتا ہے یہ لوہے کا پُل بھی
جس وقت بھی ہم مل کے گزرتے ہیں یہاں سے
ہے نا وہی محلّے کے عجیب و غریب خانوادے والی بات! باہر اونچا شملہ اور گھر میں بھوک! ذرا مندرجہ ذیل پہلوئوں پر غور فرمائیے!
اوّل: ہماری معیشت کا انحصار آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک پر ہے! یہ دونوں ادارے امریکہ کے خانہ زاد ہیں! آئی ایم ایف کا ایک سابقہ ملازم ہمارے سٹیٹ بینک کا سربراہ ہے! مشیر خزانہ بھی وہیں سے بیعت ہیں! اگر یہ کہا جائے کہ امریکہ کی گود میں بیٹھے ہوئے یہ ادارے ہمارے مالک و مختار ہیں تو قطعاً مبالغہ نہ ہوگا! یوں ہم ایک لحاظ سے امریکہ کے ماتحت ہوئے! کیا کسی کا ماتحت‘ اُسے کہہ سکتا ہے کہ فلاں سے صلح کر لو؟
دوم: قرضوں میں ہمارا بال بال اٹا ہوا ہے۔ مستقبل قریب میں پیدا ہونے والا ہر بچہ لاکھوں کا مقروض ہے! تیل ہم نے ادھار لیا ہے! چین‘ شرقِ اوسط‘ مغرب‘ ہر دروازے پر ہمارا کشکول موجود ہے! انڈسٹری زبوں حالی کا شکار ہے! صنعت کار ملک سے بھاگے ہوئے ہیں۔ اور ویت نام‘ ملائیشیا‘ بنگلہ دیش اور دوسرے ملکوں میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ یعنی ؎
غنیؔ! روزِ سیاہِ پیرِ کنعان را تماشا کُن
کہ نورِ دیدہ اش روشن کند چشمِ زلیخارا
یعقوب علیہ السلام کی قسمت دیکھیے کہ نورِ نظر اُن کا مگر روشن زلیخا کی آنکھوں کو کر رہا ہے!
ہماری بہترین افرادی قوت ملک سے باہر بیٹھی ہے۔ اس لیے کہ عزائم اور اعلانات کے باوجود میرٹ مفقود ہے۔ دعوے اور وعدے سب مٹی مٹی ہو گئے! کوئی اگر اعداد و شمار ڈھونڈے کہ ہر روز کتنے اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد‘ دوسرے ملکوں کی امیگریشن کے لیے درخواستیں دے رہے ہیں تو ہماری چودھراہٹ کی قلعی کھُل جائے گی! ہمارا پاسپورٹ‘ رینکنگ میں اسفل السافلین کے مقام پر ہے! صلح کرانے ہم نکلے ہیں امریکہ اور سعودی عرب جیسے ملکوں کی جو ہمارے مربی‘ ہمارے مالک‘ ہمارے مختار‘ ہمارے سرپرست اور ہمارے گارڈین ہیں! ابھی کل کی بات ہے کہ حکم کی تعمیل میں ہم نے ملائیشیا جانے سے انکار کر دیا۔ ہم میں اتنی ہمت بھی نہیں تھی کہ وزارتِ خارجہ سے نچلی سطح ہی کا کوئی وفد بھیج دیتے! ترکی کے صدر نے اعلانِ عام کر کے ہمارا سفارتی راز بھی فاش کر دیا! ہم نکّو بن گئے! سعودی عرب کو وضاحتی بیان جاری کرنا پڑا۔ جو بات چیت سعودیوں سے خفیہ طور پر ہوئی تھی وہ چار دانگِ عالم میں پھیل گئی! ڈپلومیسی میں مہارت کا یہ حال ہے کہ ہم کسی راز کو راز نہیں رکھ سکتے! کون ہم پر اعتماد کرے گا؟
سوم! کیا ایران ہم پر اعتماد کرے گا؟ اس سوال کا جواب حاصل کرنے کے لیے ہمیں ایرانیوں اور عربوں کی تاریخ پڑھنا ہوگی۔ یہ جھگڑا آج کا نہیں‘ چودہ سو سال کا ہے! ہم یہ تو کہتے ہیں کہ ایران کی سر زمین سے کلبھوشن آیا‘ ہم چاہ بہار کے حوالے سے شکوہ تو کرتے ہیں‘ ہم یہ گلہ تو کرتے ہیں کہ ایران بھارت کے لیے نرم گوشہ رکھتا ہے مگر ہم اس حقیقت سے نظریں چراتے ہیں کہ ہم مشرق وسطیٰ میں اُن طاقتوں کی گود میں بیٹھے ہیں جن سے ایرانیوں کو جنم جنم دشمنی ہے! مانا یہ ہماری مجبوری ہے! مشرق وسطیٰ کی ان طاقتوں سے ہمارے مراسم مذہبی جذباتی اور اقتصادی حدود تک پھیلے ہوئے ہیں مگر ایران کی بھی تو مجبوریاں ہیں! وہ پھر ہم پر کیوں اعتماد کرے؟ وہ بھارت کے لیے نرم گوشہ کیوں نہ رکھے؟ ایسے میں ہم صلح کے لیے خود ساختہ ایلچی بنیں گے تو ایران ہنسنے کے علاوہ اور کیا کر سکتا ہے!
چہارم! آج کا ایران رومی‘ سعدی اور سنائی والا ایران نہیں! یہ شاہ عباس صفوی والا ایران ہے! شاہ عباس نے ایران کو مسلکی حوالے سے ایک اور ہی ملک بنا دیا۔ صفویوں اور عثمانی ترکوں کے درمیان مسلسل کشمکش رہی۔ یہاں تک کہ شاہ عباس نے یورپ کے ملکوں میں ایلچی بھیج کر انہیں عثمانی ترکوں پر حملہ کرنے کیلئے اکسایا۔ ایسا ہی ایک ایلچی زینل بیگ تھا جو چھ سال تک یورپی دارالحکومتوں میں اسی مقصد کیلئے پھرتا رہا۔ آخر‘ اُس نے مارچ 1609ء میں شاہ عباس کو خط لکھا کہ عیسائی بادشاہوں کی ہمارے ساتھ دوستی فریب کے سوا کچھ نہیں! ان کا اصل مقصد یہ ہے کہ ایرانی اور ترک ایک دوسرے سے لڑ کر تباہ ہو جائیں اور مسلمانوں کے مذہب کا یعنی اسلام کا بھی (بقول ان کے) قصّہ تمام ہو جائے!ایران کو سمجھنے کیلئے زیادہ نہیں تو کم از کم ایک کتاب (شاہ عباس مصنف David Blow کا مطالعہ ضرور کر لیا جائے۔ اس کے بعد صلح صفائی کیلئے ہم باہر نکلیں؎
رہروِ راہِ محبت کا خدا حافظ ہے
اس میں دو چار بہت سخت مقام آتے ہیں
یہ جو محاورے بنے ہیں تو صدیوں کے تجربوں کے بعد بنے ہیں۔ کہتے ہیں‘ جنہاں دے گھر دانے‘ اونہاں دے کملے وی سیانے!
پہلے ہم اپنے گھر کو ٹھیک کریں۔ خود کش دھماکے پھر شروع ہو گئے ہیں۔ کل کوئٹہ میں پندرہ بے گناہ مارے گئے۔گمان ہوتا ہے جیسے دنیا بھر کے دہشت گردوں کی جیبوں میں پاکستانی پاسپورٹ رکھے ہیں! پانی اور روٹی ہے نہ گیس! مگر اسلحہ میں ہر شخص خود کفیل ہے! مہنگائی آسمان تک پہنچ گئی ہے۔ وزیر کہتے ہیں فلاں آٹا کھائو‘ فلاں نہ کھائو! وزیراعظم کہتے ہیں سکون کی زندگی صرف قبر میں ہوتی ہے! عوام سربہ گریباں ہیں کہ اس نصیحت پر کیا کہیں!
ایسے میں ہم امریکہ اور ایران اور عرب اور ایران کے درمیان صلح کرانے نکلے ہیں اور مسلم دنیا کی قیادت کرنے!! سبحان اللہ! سبحان اللہ! مگر ٹھہریئے‘ پہلے یہ فیصلہ کر لیں کہ یہ خود اعتمادی ہے یا کچھ اور!!