ظلِّ الٰہی

فاتحہ پڑھ کر قبرستان سے نکل رہا تھا کہ ایک مخنی سی آواز نے چونکا دیا ''مجھے بھی ساتھ لے چلو‘‘۔ حیران ہو کر اِدھر اُدھر دیکھا۔ ایک قبر بالین سے کھلی ہوئی تھی۔ ایک مردہ اندر سے جھانک رہا تھا۔ اُس کے سر پر تاج تھا۔ کتبہ دیکھا تو محمد شاہ رنگیلا کا نام لکھا تھا۔ میں فوراً کورنش بجا لایا اور عرض گزار ہوا۔ ''عالی جاہ! جو حکم آپ کا‘‘۔
آپ باہر نکلے۔ چغہ درست کیا۔ فرمانے لگے ''بھائی! مرے ہوئے دو اڑھائی سو سال ہو گئے‘ سوچا تمہاری دنیا دیکھ آئیں! سنا ہے بہت کچھ ایسا ہے ‘جو ہمارے زمانے میں نہیں تھا۔ سنا ہے سڑکوں پر دوڑنے والی مشینیں ہیں‘ ہوا میں اڑن کھٹولے ہیں! نام و پیام سمندر پار والوں سے بھی کرنا ہو تو چند ثانیے لگتے ہیں! متحرک تصویروں والا ڈبہ ہر گھر میں موجود ہے‘ جس سے آوازیں بھی نکلتی ہیں!‘‘
ظلِّ الٰہی کو لیے گھر آیا۔ تمام اہلِ خانہ نے جھُک کر فرشی سلام کیے۔ آپ لائونج میں صوفے پر تشریف فرما ہوئے‘ سامنے ٹی وی چل رہا تھا۔ ٹک ٹاک لڑکیوں کا شہرۂ آفاق پروگرام آن ائر تھا۔ بادشاہ سلامت نے پوچھا؛ بھئی یہ کیا قصہ ہے؟
نہ چاہتے ہوئے بھی سارا قصہ سنانا پڑا۔ حکمِ حاکم تھا۔ کیا کرتا۔ مانا کہ آپ کا عہدِ اقتدار 1719ء سے 1748ء تک صرف انتیس برس رہا‘ مانا کہ آپ نے کوہِ نور ہیرا‘ تختِ طائوس اور بہت کچھ اور‘ گنوا دیا‘ مگر تھے تو ہمارے بادشاہ!
ٹِک ٹاک لڑکیوں کے واقعات جہاں پناہ نے بہت دلچسپی سے سنے۔ وزارتِ خارجہ کا ذکر آیا تو حیران ہوئے‘ پوچھا‘کیا آج کل وزارتِ خارجہ میں اس قسم کی چھنال عورتیں بھی بلا روک ٹوک آتی جاتی ہیں؟کیا اندر جانے کے لیے پرچی نہیں بنتی؟ اندر بیٹھے ہوئے کسی بڑے آدمی کی سرپرستی اور ضمانت کے بغیر آخر کوئی کیسے اندر جا سکتا ہے؟‘‘۔
پھر حیران ہو کر پوچھنے لگے...'' کیا حکومت نے اب تک پتہ نہیں چلایا کہ یہ عورتیں اتنی حساس وزارت کے اندر کیسے جا پہنچیں؟ کیا متعلقہ وزیر کو مطلق کوئی پروا نہیں؟‘‘
یہ کالم نگار کیا کہتا! ایک طرف بادشاہ سلامت کے سوالات‘ دوسری طرف حکومتِ وقت! ہم اِدھر کے نہ اُدھر کے!
ظلِّ الٰہی نے حریم شاہ کے متعدد انٹرویو سنے اور بار بار سنے۔ جب اس نے فخر سے بتایا کہ فلاں کو میں بہنوئی کہتی ہوں‘ تو حیران ہوئے! ظلِّ الٰہی کے کمنٹ یہاں دہرائے نہیں جا سکتے!
پھر فرمایا...''بھئی ! ناچ گانے والی بہت سی عورتیں ہمارے دربار سے بھی وابستہ تھیں‘ مگر کیا مجال کہ کاروبارِ مملکت میں دخیل ہوں! جب حکومت کا کام اور تفریح آپس میں گڈ مڈ ہو جائیں تو نتیجہ تباہی نکلتا ہے! جن وزیروں کے نام اِن ٹک ٹاک لڑکیوں کے ساتھ آئے یا لائے گئے‘ حکومت کو ان سے کچھ تو پوچھ گچھ کرنی چاہیے تھی!‘‘۔
خاصے میں عالی مرتبت نے پلائو نوش فرمایا اور شیرے والے گلاب جامن! فرمایا ہمارے جدِّ امجد شہنشاہ اورنگ زیب بریانی پسند فرماتے تھے۔ ان کے ایک شہزادے کے پاس‘ ایک باورچی تھا کہ کمال بریانی پکاتا تھا۔ شہنشاہِ معظم نے وہ باورچی اپنی تحویل میں لینا چاہا ‘مگر شہزادہ طرح دے گیا! بہر طور‘ جدِّ امجد جب شہزادے کے پاس تشریف لے جاتے تو اس کے باورچی کی تیار کردہ بریانی کی فرمائش ضرور کرتے!
قیلولہ سے اٹھے تو کہنے لگے؛بھائی میاں! وہ تصویری ڈبہ پھر چلائو‘ کیا دلچسپ ایجاد کفار نے پیش کی ہے! ہم نے تو جامِ جمشید صرف داستانوں میں پڑھا تھا۔ ان نصرانیوں‘ یہودیوں نے تو اسے نا صرف ایجاد کیا‘ بلکہ گھر گھر پہنچا دیا!
تعمیل ِ ارشاد میں ٹیلی ویژن آن کر دیا۔ بدقسمتی کہ عین اس وقت ''بُوٹ‘‘ کا واقعہ پیش آیا۔ بادشاہ سلامت کا چہرا غصّے سے سرخ ہو گیا! فرمایا... ''ملک کے حساس ترین اور باوقار ادارے کو اِن لوگوں نے بازیچۂ اطفال بنا کر رکھ دیا! ہم تو پاکستانی عساکر کے لیے ہمہ وقت دست دعا ہیں!‘‘ پھر فرطِ جذبات سے اُٹھے‘ انگشتِ شہادت آسمان کی طرف اٹھائی اور یوں گویا ہوئے...''بخدا! پاکستانی مسلح افواج نہ ہوتیں تو ایران سمیت سارا مشرقِ اوسط‘ بھارت کے رحم و کرم پر ہوتا اور مودی کو خوش کرنے والی ریاستوں کا درجہ سکم اور بھوٹان سے زیادہ نہ ہوتا۔ یہ پاکستانی افواج ہیں‘ جو بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم کے راستے میں سدِّ سکندری بنے ہوئے ہیں! خدا انہیں سلامت رکھے اور ان کے وقار میں کبھی کمی نہ آئے!‘‘
بہت دیر افسوس کرتے رہے کہ اب لوگ میڈیا کی میزوں پر بُوٹ لا رکھتے ہیں! پھر ایک سوال اچانک یوں داغا کہ میں پریشان ہو گیا...''بھئی! اینکر نے فوراً پروگرام جاری رکھنے سے انکار کیوں نہ کر دیا؟ اس پر لازم تھا کہ فوراً‘ ایک ثانیہ توقف کیے بغیر‘ بوٹ کو ہٹوا دیتا۔ لگتا ہے کہ وہ بھی اس ناقابلِ رشک حرکت میں برابر کا قصور وار ہے! مگر چونکہ میڈیا سے ہے‘ اس لیے اس کے خلاف کوئی کارروائی ہونے سے رہی!‘‘۔
ظلِّ الٰہی نے شہر شہر‘ جگہ جگہ لنگر سرکاری سرپرستی میں کھولے جانے کا بھی نوٹس لیا۔ فرمایا: ہم تو چینی کہاوت سنتے تھے کہ مچھلی دینے کے بجائے مچھلی پکڑنا سکھائو کہ روزگار لگ جائے۔ اگر لوگوں کو مفت روٹی کا چسکا پڑ گیا تو کام کیسے کریں گے؟
پھر حیران ہوئے کہ بڑی بڑی تنخواہیں اور مراعات پانے والے بیورو کریٹ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے بیویوں کو خیرات دلواتے رہے۔ کہنے لگے: ہم تو ایسے بدبختوں کا زن بچہ کو لہو میں پسوا دیتے تھے۔ ایسے سرکاری ملازمین کو بھاگتے گھوڑوں کے پیچھے بندھوا دینا چاہیے! سرکاری خزانے کی لوٹ مار... وہ بھی سرکاری اہلکاروں کے ہاتھ سے ... ناقابلِ تصّور ہے اور ناقابلِ معافی!
ائر کنڈیشنر سے گرم ہوا خارج ہوتی دیکھ کر عالی جناب حیران ہوئے! کہنے لگے بھائی! ہمارے عہد میں خس کی ٹٹیاں ہوتی تھیں ‘مگر وہ صرف گرمیوں میں کام آتی تھیں! سرما میں دہکتی انگیٹھیاں ہوتی تھیں‘ چپان اور صدری پہنتے تھے‘ جن میں روئی ہوتی تھی! بس یوں سمجھو کہ چلتی پھرتی رضائیاں تھیں!
میں نے اپنے غریب خانے کا سب سے اچھا کمرہ جہاں پناہ کی شب باشی کے لیے آراستہ کیا‘ مگر شومئی قسمت! کہ شام کو پھر ٹیلی ویژن کے سامنے تشریف فرما ہو گئے۔ خبر چل رہی تھی کہ حکومت نے حکم دیا ہے کہ تصوف کو شاملِ نصاب کیا جائے! حیران ہوئے کہ تصّوف تو عمل کا نام ہے‘ پھر یہ کہ ہر استاد‘ ہر سکول ‘ ہر کالج یہ حساس مضمون پڑھانے کا اہل نہیں! اس کا تعلق باطن سے ہے۔ صوفیا پڑھاتے نہیں تھے‘ عمل سے اپنے پیروکاروں کو سکھاتے تھے۔ یہ عبادت اور ریاضت کا مضمون ہے۔ اس کا نصاب طے کرنا اور پڑھانا ہر کہ و مہ کے بس کی بات نہیں!‘‘
یہ کہا اور اُٹھ پڑے۔ چغہ زیب تن کیا‘ کہنے لگے‘ میاں! ہم تمہاری اس آج کل کی دنیا سے خوش نہیں ہوئے! بس ہمیں قبرستان چھوڑ آئو!‘‘ میں نے منت کی‘ ہاتھ جوڑے کہ جہاں پناہ! قسمت سے قدم رنجہ فرمایا ہے! ایک رات غم خانے میں بسر کریں گے تو ہماری خوش بختی ہوگی‘ مگر فرمایا کہ ہم اب رکنے کے نہیں! پھر سلسلۂ تیموریہ کے آخری چشم و چراغ کے شعر آبدیدہ ہو کر پڑھے؎
اسے چاہا تھا میں نے کہ روک رکھوں
مری جان بھی جائے تو جانے نہ دوں
کیے لاکھ فریب کروڑ فسوں
نہ رہا نہ رہا نہ رہا نہ رہا
قبر میں واپس جاتے ہوئے گلے ملے۔ آخری الفاظ درد ناک تھے۔ فرمایا... ''بھائی! کہنے کو تو ہمارا عہد بدنام ہے‘ مگر جو کچھ اب ہو رہا ہے‘ اس کا ہمارے عہد میں سوچا بھی نہ جا سکتا تھا!‘‘۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں