سوال یہ ہے کہ اتحادی جماعتوں کو حکومت گرا کر حاصل کیا ہوگا؟
اس امر کا امکان صفر ہے کہ عمران خان ''اِن ہاؤس‘‘ تبدیلی کے لیے راضی ہوں گے۔ ہار ماننا ان کی سرشت میں نہیں! اگر انہیں دیوار سے لگایا گیا تو وہ اسمبلی توڑ کر نئے انتخابات کرائیں گے۔ اس صورت میں کیا ضمانت ہے کہ اتحادی جماعتوں کو پھر اتنی ہی نشستیں حاصل ہوں گی؟ کیا خبر کون نئی حکومت بنائے گا! یہ بھی ممکن ہے کہ اتحادیوں کو اِس وقت جو کچھ حاصل ہے‘ نئے انتخابات کے بعد اُس سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیں!
مسلم لیگ ق اس وقت کسی گھاٹے میں نہیں! پنجاب عملاً اُس کی جیب میں ہے۔ پرویز الٰہی صرف صوبائی اسمبلی کے سپیکر ہی نہیں‘ اور بھی بہت کچھ ہیں! پنجاب کی بیورو کریسی سے ان کے دیرینہ روابط تازہ ہو گئے ہیں۔ اس میں کیا شک ہے کہ ناصر درانی اگر اُس وقت پیش منظر سے غائب نہ بھی ہوتے تو قاف لیگ کی موجودگی میں پنجاب بیورو کریسی کا رُخ وہ مقصدیت کی طرف کبھی نہ موڑ سکتے اور کچھ عرصہ بعد اپنی ناکامی کے پیش نظر ہٹ جاتے۔ ایک کمزور اور غیر مؤثر وزیراعلیٰ قاف لیگ کی لیڈر شپ کو خوب راس آ رہا ہے۔ رہا وفاق تو اگرچہ ایک ہی وزارت ان کے پاس ہے ‘مگر وہ وزارت انتہائی اہم ہے۔
یہی وہ وزارت ہے ‘جو ایم کیو ایم اور جے یو آئی جیسی ''سمجھ دار‘‘ جماعتوں کی ارضِ موعود (Promised Land) رہی ہے! الغرض‘ قاف لیگ کے پاس ملول ہونے کی کوئی ٹھوس وجہ نہیں ہے!
ایم کیو ایم کی رنجش‘ حسبِ معمول وقتی ہے۔ یہ بار گیننگ کا دنیا بھر میں مانا ہوا طریقہ ہے۔ پیپلز پارٹی نے اسے سندھ حکومت میں شمولیت کی پیشکش کی ہے مگر پیپلز پارٹی کراچی اور حیدر آباد کے لیے کتنی فنڈنگ مہیا کر سکتی ہے؟ برائے نام! وفاقی حکومت کو خدا حافظ کہہ کر ایم کیو ایم کو نقصان تو ہو سکتا ہے‘ فائدہ کچھ نہ ہوگا!
ایم کیو ایم کا معاملہ باقی تین اتحادی جماعتوں سے مختلف ہے۔ یکسر مختلف!! کاش وفاق‘ سندھ‘ خیبر پختونخوا اور خاص طور پر پنجاب اُن اسباب کا ادراک کر سکے جو ایم کیو ایم کے تولّد (Genesis) کا باعث بنے۔ یہ ایک دردناک کہانی ہے۔ اور انصاف کی متقاضی ہے!
یہ اعتراض اکثر و بیشتر سننے میں آتا ہے کہ سال گزرنے کے باوجود ایم کیو ایم والے اپنے آپ کو مہاجر کہتے کہلواتے ہیں! مگر زمانی لحاظ سے یہ کوئی نہیں دیکھتا کہ انہوں نے مہاجر کہلوانا کب اور کیوں شروع کیا۔
کیا کسی کو یاد ہے کہ جئے سندھ کا نعرہ کب لگایا گیا؟ ولی خان کی پارٹی پختون حوالے سے کب سے سیاست میں ہے؟ بلوچستان میں نسلی اور لسانی حوالے سے پارٹیاں ایم کیو ایم سے پہلے وجود میں آئیں یا بعد میں؟ حقائق تلخ ہیں!
مہاجروں کے مہاجر بننے سے بہت پہلے سندھیوں‘ پختونوں اور بلوچوں نے اپنی اپنی قومیت کے جھنڈے بلند کیے۔ مہاجر اُس وقت مہاجر نہ تھے۔ صرف اور صرف پاکستانی تھے۔ اردو بولنے والے پڑھے لکھے نوجوان‘ جب تلوار مارکہ مونچھوں والے سندھی وڈیروں کو کراچی کی شاہراہوں پر کلاشنکوف برداروں کے حصار میں دیکھتے تو سہم جاتے۔ کراچی میں دو ایسی ثقافتیں آمنے سامنے تھیں جو بُعد المشرقین پر واقع تھیں۔ ایک طرف اندرون سندھ اور اندرونِ بلوچستان کے جاگیردار‘ زمیندار اور سردار‘ جن کے پاس محلات تھے اور مسلح ملازموں کے دستوں کے دستے‘ دوسری طرف اعلیٰ تعلیم یافتہ‘ شائستہ‘ نرم گفتار اردو بولنے والے! پس ردّ ِعمل ناگزیر تھا!
الطاف حسین نے جب کراچی یونیورسٹی میں مہاجر طلبہ آرگنائزیشن کا ڈول ڈالا اُس وقت کراچی یونیورسٹی میں لسانی اور نسلی بنیادوں پر ایک درجن سے زیادہ طلبہ تنظیمیں مصروفِ سیاست تھیں! سندھی‘ بلوچی‘ کشمیری‘ براہوی اور دوسری علاقائی شناختیں رکھنے والے طلبہ کسی نہ کسی چھتری کے سائے تلے کھڑے تھے۔ یہ صرف اردو بولنے والے تھے جن کے پاس پاکستان کے علاوہ کوئی شناخت نہ تھی اور اس شناخت کو اہمیت دینے کے لیے کوئی تیار نہ تھا۔ جب ہر طرف علاقائی اور لسانی چھتریاں بہار دکھا رہی تھیں تو اردو سپیکنگ طلبہ نے بھی اپنی چھتری تان لی کہ ع
ایں گناہیست کہ در شہرِ شمانیز کننّد!
مہاجر طلبہ تنظیم کے بعد ایم کیو ایم کی تشکیل ہوئی۔ تاہم اردو بولنے والوں کی بدقسمتی اس کے بعد بھی ختم نہ ہوئی۔ ردِّعمل ہمیشہ انتہا پسندانہ ہوتا ہے۔ گالی کا جواب تھپڑ میں دینا انسانی فطرت کا خاصہ ہے۔ ایم کیو ایم ردّ ِعمل میں بنی تھی اس لیے انتہا پسندی کا شکار ہو گئی۔ الطاف حسین اور حواری توازن کھو بیٹھے! جو کچھ ہوا تاریخ کا حصہ ہے۔ بدقسمتی کی انتہا یہ ہوئی کہ الطاف حسین آخر میں غدار ثابت ہوئے! نظیری نیشاپوری کے بقول ؎
یک فالِ خوب راست نشد برزبانِ ما
شومئی چغد ثابت و یُمنِ ہما غلط
کوئی فال بھی درست نہ نکلی۔ الو کی نحوست صادق آئی اور کہا کہ خوش بختی غلط ثابت ہوئی!
ایم کیو ایم کا المیہ یہ ہے کہ سندھ کی (صوبائی) حکومت انہیں کبھی بھی نہیں مل سکتی! اندرونِ سندھ کے دیہی علاقوں کے لیے وہ اجنبی ہیں! عملاً اس وقت سندھ دو حصّوں میں منقسم ہے۔ ایم کیو ایم کے مسائل کا منطقی حل تو یہ ہے کہ اس تقسیم کو قانون کا لبادہ پہنا دیا جائے اور کراچی کو بھی دو حصّوں میں تقسیم کر دیا جائے۔ آخر اردو بولنے والی کمیونٹی اپنی تقدیر کی خود مالک کیوں نہیں ہو سکتی؟
ایم کیو ایم کی سنجیدہ لیڈر شپ کو ایک اور چیلنج بھی درپیش ہے۔ یہ اس لیڈر شپ کو نظر آ رہا ہے یا نہیں‘ بہرطور موجود ضرور ہے! الطاف حسین نے اردو بولنے والے جس نوجوان سے کتاب اور قلم چھین کر اُسے کلاشنکوف اور بوری پکڑائی تھی‘ اسے دوبارہ کتاب اور قلم کی طرف راغب کرنا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ چیلنج ایم کیو ایم کی لیڈر شپ کو نظر آ رہا ہے؟
تحریر کا آغاز اس سوال سے ہوا تھا کہ اتحادیوں کو حکومت سے نکل کر‘ یا حکومت گرا کر‘ فائدہ ہو گا یا نقصان کا اندیشہ؟ مگر اس سے بھی زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ کیا عمران خان کی حکومت کا خاتمہ پاکستان کے لیے نفع مند ثابت ہو گا یا خسارے کا سودا؟ استحکام کا تقاضا یہ ہے کہ اس حکومت کو اپنی آئینی مدت پوری کرنی چاہیے تاکہ کھرے اور کھوٹے کو الگ کیا جا سکے۔ اس میں شک نہیں کہ ابھی تک اس حکومت کی ٹوپی میں سرخاب کا کوئی ایک پَر بھی نہیں لگ سکا! ہر محاذ پر مایوسی ہے! مگر اس کا علاج صبر اور استقلال ہے‘ ہر راہرو کے ساتھ تھوڑی دیر چلنا کوئی علاج ہے نہ شفا ہی ممکن ہے!
وزیراعظم مہاتیر محمد نے اپنے تازہ ترین بلاگ میں یہی کہا ہے کہ تبدیلی کے عمل کو بار آور ہونے میں کم از کم دو سال ضرور لگتے ہیں۔ پالیسیاں ایک ہفتے میں بن جاتی ہیں مگر ان کا نفاذ مرحلہ وار ہوتا ہے۔پنجاب کے وزیراعلیٰ سے لے کر نوکر شاہی کی رعونت اور عوام دشمنی تک اس حکومت کے مسائل لاتعداد ہیں جن میں سے بہت سے‘ حکومت کے اپنے پیدا کردہ ہیں۔ اس کے باوجود‘ ملکی استحکام اور سیاسی پختگی کا تقاضا ہے کہ حکومت اپنا عرصہ پورا کرے۔ پانچ سال بعد عوام خود فیصلہ کریں گے۔ کارکردگی ایسی ہی رہی‘ جیسے اب تک رہی ہے تو انتخابات روزِ مکافات ثابت ہوں گے۔