ہمارے ایک دوست کے صاحبزادے نے اسلام آباد کے مضافات میں دو کنال کا قطعۂ زمین خریدا۔ تعمیر شروع ہوئی تو صاحبزادے ملک سے باہر جا چکے تھے۔ بجلی، گیس اور پانی کے کنکشن کے لیے مالک کے دستخط کئی دستاویزات پر ضروری تھے۔ اس کا آسان حل والد نے یہ سوچا کہ قطعۂ زمین، بیٹے کے نام سے اپنے نام پر منتقل کرا لیا جائے۔ وفاقی دارالحکومت کی کچہری میں گئے۔ یہ کالم نگار ساتھ تھا! متعلقہ عملے نے بتایا کہ پچیس ہزار روپے لگیں گے! اس پر وضاحت کی کہ زمین کا یہ ٹکڑا اس وقت خریدا ہے نہ کوئی کمرشل سرگرمی ہے، بیٹے کے نام سے باپ کے نام پر منتقل کرانا ہے۔ پچیس ہزار روپے کس بنیاد پر؟ کیا اس کی رسید ملے گی؟ عملے میں جو نسبتاً سینئر کھڑپینچ تھا، اس نے ایک ادائے حاکمانہ سے جواب دیا کہ ''ریٹ‘‘ بتا دیا ہے‘ انتقال کرانا ہے تو کرا لیجیے، نہیں کرانا تو نہ کرائیے۔
ہم لوگ واپس آ گئے۔ دوسرے دن متعلقہ افسر (غالباً ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ریونیو) کو فون کیا۔ ان کے معاون (پی اے) نے ''تفتیش‘‘ کی۔ گریڈ پوچھا، تسلی کی کہ ''سائل‘‘ کس عہدے پر فائز ہے‘ پھر اپنے افسر سے بات بھی کرائی، ان کا موبائل فون بھی عنایت کیا۔ افسر صاحب بھلے آدمی تھے۔ یا شاید سرکاری ملازمت اور گریڈ کا کرشمہ تھا۔ مہربانی سے پیش آئے۔ متعلقہ عملے کے پاس بھیجنے کے بجائے ہمیں اپنے دفتر ہی میں بٹھایا، چائے کے ساتھ بسکٹ بھی منگوائے۔ وہیں رجسٹر منگوائے گئے۔ دستخط ہوئے، انگوٹھے لگے۔ آپ کا کیا خیال ہے کتنی فیس دی ہو گی اس انتقال کے لیے! صحیح طور پر یاد نہیں مگر صرف چودہ یا پندرہ سو روپے ادا کیے جو سرکار کے خزانے میں گئے۔
یہ پیپلز پارٹی کا زمانہ تھا یا مسلم لیگ نون کا یا جنرل مشرف صاحب کا، یاد نہیں! آج تحریک انصاف کا عہد ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے، تحصیلوں، کچہریوں، پٹوار خانوں میں صورتِ حال بدل گئی ہو گی؟ نہیں! وہی ہے! جوں کی توں! جس کو غلط فہمی یا خوش فہمی ہے کسی کچہری، کسی تحصیل میں جا کر دیکھ لے۔ زمین کا یا جائیداد کا انتقال کرانے کے مراحل پوچھ لے۔ نچلی سطح کے ہرکارے‘ پیش کار، نائب قاصد سے لے کر متعلقہ عملے تک مٹھی گرم کیے بغیر کام ہو جائے تو ازراہِ کرم اطلاع دے۔
مگر کیا یہ حقیقت ڈھکی چھپی ہے؟ کیا کوئی دعویٰ کر سکتا ہے کہ نئے پاکستان میں کچہریوں سے رشوت کا سدِّ باب کر دیا گیا ہے؟ نہیں! ہر کچہری میں، ہر تحصیل میں، ریونیو کے ہر دفتر میں، آج بھی رشوت کا بازار گرم ہے۔
سول سروسز اصلاحات پر وزیر اعظم کے مشیر ڈاکٹر عشرت حسین نے چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے افسوس کا اظہار کیا ہے کہ تھانوں میں رشوت یا سفارش کے بغیر کوئی کام نہیں ہوتا اور یہ کہ سکولوں اور ہسپتالوں کا احوال بھی بُرا ہے!
ملک بھر میں پھیلے ہوئے سینکڑوں تحصیل دفتروں اور کچہریوں میں کھلے عام چلتی پھرتی رشوت اور سفارش کا ذکر ڈاکٹر عشرت حسین نے نہیں کیا۔ ان کے بیان سے تاثر یہ ملتا ہے کہ تھانے، سکول اور ہسپتال خراب ہیں، جب کہ کچہریاں صاف شفاف ہیں! محکمۂ مال (ریونیو) کا ذکر نہ کرنے کے صرف دو اسباب ممکن ہیں، ایک سبب یہ ہو سکتا ہے کہ ڈاکٹر عشرت صاحب کو معلوم ہی نہ ہو کہ ریونیو کے دفتروں میں کیا ہو رہا ہے! دوسرا سبب یہ ہو سکتا ہے کہ انہیں معلوم تو ہے مگر انہوں نے اس کا ذکر کرنا مناسب نہ سمجھا۔ دونوں صورتوں میں انہوں نے اپنے منصب سے انصاف نہیں کیا اور ثابت کیا کہ وہ سول سروسز ریفارمز کے قلم دان کے اہل نہیں!
ان کا تعلق اصلاً سول سروس کے ڈی ایم جی گروپ سے ہے، جماعت اسلامی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ بندہ جماعت اسلامی سے نکل جاتا ہے مگر جماعت اس کے اندر سے نہیں نکلتی۔ یہی حال سول سروس کے اس مخصوص گروپ کا ہے۔ بڑے سے بڑے منصب تک پہنچ کر بھی ڈپٹی کمشنری نہیں بھولے گی۔ ڈاکٹر عشرت حسین کو کچہریوں میں ذلیل و رسوا ہوتی ہوئی خلقِ خدا اس لیے نظر نہیں آتی کہ کچہریوں کے ناخدا اس مخصوص گروپ کے افسر ہیں۔ پروفیسر اشفاق علی خان مرحوم ان افسروں کو ''لگان جمع کرنے والے‘‘ کہتے تھے!
ڈاکٹر صاحب آڈیٹر جنرل آف پاکستان کا ادارہ بھی ختم کرانے کے در پے ہیں۔ اس کے لیے انہوں نے سفارشات تیار کی ہیں۔ کیا آڈیٹر جنرل کا ادارہ ختم کرنے کی رائے دیتے وقت انہوں نے موجودہ اور سابق آڈیٹر جنرل صاحبان سے اس موضوع پر گفتگو کی؟ ان کے سالہا سال کے تجربے سے استفادہ کیا؟ لگتا ہے ڈاکٹر صاحب محکمہ ریونیو کے علاوہ ہر جگہ اصلاحات کا بلڈوزر چلانا چاہتے ہیں۔ مانا، تھانے خراب کارکردگی دکھا رہے ہیں۔ سکول اور ہسپتال بھی... مگر تحصیل دفتروں اور کچہریوں سے رشوت کا ناسور کون ختم کرے گا؟ اس کا تو آپ ذکر ہی نہیں فرما رہے!!
جو لوگ مسئلے کا حصہ (Part of problem) ہیں، وہ مسئلے کو کیا حل کریں گے! بیوروکریسی وزیر اعظم کے وژن اور کوشش کو ناکام کرنے پر تلی ہوئی ہے اور اسی بیوروکریسی کے ایک معروف نمائندے کو اصلاحات کا کام سونپ دیا گیا ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے عہدِ اقتدار میں لاکھ نقائص سہی، مگر ایک کام اُس زمانے میں تاریخ ساز ہوا کہ ڈپٹی کمشنر کا انگریزی ادارہ ختم کر کے ضلعی حکومتیں قائم کی گئیں۔ یہ ایک ایسا قدم تھا جس نے پاکستان کو کئی سال آگے کر دیا تھا۔ کہاں ڈپٹی کمشنر جو کمشنر اور چیف سیکرٹری کو خوش کرنے اور اپنی اگلی تعیناتی کی فکر میں لگا رہتا تھا۔ اس کا ضلع سے جذباتی تعلق تھا نہ اس نے پھر یہاں آنا ہوتا تھا۔ اور کہاں ضلع ناظم جو عوام میں سے تھا۔ اس نے یہیں رہنا تھا۔ مخالف اس کی نگرانی کر رہے ہوتے تھے۔ اس نے ووٹ لینے تھے۔ اسے کام کرنا پڑ رہا تھا۔ ترقیاتی منصوبے اُس زمانے میں ضلع ضلع، تحصیل تحصیل بنے، پروان چڑھے اور پھلے پھولے۔ افسوس! بعد میں آنے والے حکمران ڈپٹی کمشنر کو دوبارہ عوام پر مسلّط کر کے انگریزی استعمار واپس لے آنے میں کامیاب ہو گئے۔ بیورو کریسی عوام سے ہے نہ عوام کی اُس تک رسائی ہے! سات جنوری کے ایک حالیہ مضمون میں مثال دے کر بتایا گیا کہ بیورو کریسی، وزیر اعظم کے سٹیزن پورٹل کو کس طرح ناکام کر رہی ہے اور وفاقی دارالحکومت کا چیف کمشنر کس طرح شہریوں سے بات کرنے کا روادار نہیں! مگر وفاقی سیکرٹری کیپیٹل ایڈمنسٹریشن سے لے کر وزیر اعظم تک... کسی نے اس صورت حال کا نوٹس نہیں لیا۔ وزیر اعظم کا پورٹل نچلی سطح کے اہل کاروں کو قابو کر لیتا ہے مگر اعلیٰ بیورو کریسی کے لیے یہ ایک تماشے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا!
سول سروس اصلاحات، سول سروس کا کوئی سابق یا موجودہ رکن کبھی نہیں کر سکے گا۔ یہ کام عوامی نمائندوں کا ہے۔ وزیر اعظم اگر سول سروس اصلاحات میں سنجیدہ ہیں تو انہیں کسی اعلیٰ تعلیم یافتہ عوامی نمائندے کو یہ کام سونپنا چاہئے۔ اعتزاز احسن، رضا ربانی، احسن اقبال، قمر زمان کائرہ، ندیم افضل چن جیسے لوگ یہ بھاری پتھر اٹھا سکتے ہیں! ڈاکٹر عشرت حسین صاحب آخری بار کسی گائوں میں کب گئے ہیں؟ کسی کچہری میں انتقال کا کام انہیں کب پڑا ہے؟ جو عوام بیوروکریسی کے ہاتھوں ہر روز، ہر ساعت، ہر آن، عزتِ نفس پارہ پارہ کرا رہے ہیں، ان عوام سے ڈاکٹر صاحب کا کیا تعلق ہے؟ جنرل پرویز مشرف کے عہد میں بھی وہ اصلاحات کے مدارالمہام تھے۔ اس کا نتیجہ کہاں ہے اور کیا ہے؟
ہے تمنا مجھے ابنائے زمانہ سے یہی
مجھ پہ احسان جو نہ کرتے تو یہ احساں ہوتا