''کوئی تکلیف‘ کوئی مسئلہ‘ کوئی پرابلم ہے تو بتائیے! کچھ چاہیے ہو تو حکم کیجیے۔‘‘
ہمارے دوست عامر شہزاد نے پوچھا۔عامر طویل عرصہ سے اس شہر میں رہائش پذیر ہیں‘ جہاں حضرت عبدالمطلب نے خدا کے گھر کو خدا کے سپرد کرتے ہوئے‘ حملہ آور سے اپنے اونٹوں کی واپسی کا مطالبہ کیا تھا!
شکریہ عامر بھائی! حرم کے بغلی کوچے میں قیام ہو‘ طواف اور سعی کی سکت ہو‘ پینے کے لیے زم زم ہو‘ کھانے کے لیے سکری کھجور‘ ہرے اور سیاہ زینوں اور طباشیر کے رنگ کا سفید براق پنیر ہو تو کم از کم اس زندگی میں اور کیا چاہیے!‘‘
انسان حیرت کے سمندر میں غرق ہوتا ہے جب آنکھوں کے سامنے ابراہیمؑ کی دعا کی قبولیت کے مناظر دیکھتا ہے! پیغمبر کا معجزہ! ایسا معجزہ نہیں جو صرف آسمانی یا تاریخی کتابوں کے صفحات میں بند ہو! یہ زندہ معجزہ ہے! سامنے برپا ہوتا ہوا! رات دن برپا ہوتا ہوا۔ اس ''وادِِ غیرِ ذِیْ زَرعٍ‘‘ میں‘ اس وادی میں جہاں کھیتی ہے نہ روئیدگی‘ دنیا کی کون سی نعمت ہے جو موجود نہیں! رزق کی افراط‘ اشیائے خوردنی کی بہتات! مالِ تجارت کی ایسی کثرت ہے کہ جس طرح گلیاں اور بازار خلقِ خدا سے چھلک رہے ہیں‘ اسی طرح مال و اموال سے دکانیں اٹی ہوئی ہیں! فائیو سٹار مسافر خانے‘ بیت اللہ کو اپنے حصار میں لیے ہیں! مسافر خانے کیا ہیں ! مہمان خانے ہیں!
''اور اللہ نے تم میں سے بعض کو بعض پر روزی میں فضیلت دی‘‘!صرف آسودہ حال‘ متمول ہی نہیں‘ دنیا کے ہر گوشے سے ہر انکم گروپ کے مسلمان یہاں فروکش ہیں! مستقلاً بھی! عارضی بھی! مزدور بھی! آجر بھی! تاجر بھی! ماتحت بھی! رئیس بھی!
فلک بوس مہمان خانوں کے عقب میں پہاڑیاں ہیں! کیا جانیے! کس کس پہاڑی پر پائے مبارک گئے ہوں! جن پہاڑیوں کے درمیان آخری رسولﷺ‘ بے یار و مددگارتھے‘ اب ان پہاڑیوں کے ارد گرد عشاق کا ہجوم ہے! رات دن صبح شام‘ ہر ساعت! ہر پل‘ ہر آن‘ نامِ نامی لیا جاتا ہے‘ لاکھوں کروڑوں سلام و درود کے ساتھ!مکہ بھی کیا شہر ہے! شہروں کا شہر! عجائبات اور معجزات کی دنیا! مسلمانوں کے گھروں میں پیدا ہونے والوں کو ان عجائبات اور معجزات کا احساس ہے نہ قدر! پیدائش سے یہ سب کچھ دیکھ دیکھ کر عادی ہو گئے ہیں! اسے ہی Taken for granted کہتے ہیں! جنہوں نے یہ سب کچھ نہیں دیکھا‘ دیکھیں تو مبہوت ہو جائیں! وڈیوز اور یوٹیوب کی وساطت سے اب دیکھ بھی رہے ہیں اگرچہ لائیو دیکھنے کا اثر اور ہے! لاکھوں کروڑوں ان گنت مسلمان‘ ایک دستِ غیب کے اشارے پر ‘ ایک زبانِ غیب کے حکم سے‘ اپنے آپ کو مکمل اطاعت سے میں ڈالے ہوئے ہیں! متابعت کی انتہا ہے! سپردگی ایسی کہ کوئی اس سپردگی کا سوچ بھی نہ سکے! حکم دیا لباسِ فاخرہ اتار دو! اتا ردیا! کہا سفید چادریں اوڑھ لو! اوڑھ لیں! فرمایا: دایاں کندھا برہنہ چھوڑ دو! تعمیل ہوئی! اِترا اِترا کر اِٹھلا کر چلو! ایسا ہی کیا! اب نارمل ہو کر چلو! نارمل چلنے لگے! سبز رنگ کی ٹیوب لائٹوں کے پاس پہنچو تو دوڑو! سب دوڑنے لگ گئے! ہاتھ باندھ لو! باندھ لیے! پیشانیاں زمین پر رکھو! کروڑوں نے ماتھے زمین پر رکھ دیئے! منتشر ہو کر‘ اپنا اپنا رزق تلاش کرو! بازار کھل گئے ‘ دکانیں گاہکوں سے اٹ گئیں! غور کیا جائے تو معجزے ہی معجزے ہیں! نشانیاں ہی نشانیاں ہیں!
کوئی سپہ سالار ہے یہاں نہ حاکم! بس ایک آواز دینے والا آواز دیتا ہے کہ نماز کی طرف آئو! آواز دینے والے کے پاس ڈنڈا ہے نہ بندوق! توپ ہے نہ بم! زبردستی ہے نہ تشدد! مگر جیسے ہی وہ آواز دیتا ہے‘ سب اپنا اپنا کام چھوڑ کر اٹھتے ہیں اور چل پڑتے ہیں! مرد بھی‘ عورتیں بھی! لڑکے بھی ‘ دوشیزائیں بھی! وہ بھی جو پہیوں والی کرسیوں پر ہیں اور وہ بھی جو پائوں گھسیٹ گھسیٹ کر‘ بمشکل چلتے ہیں! ہر چہار طرف سے گلیاں‘ کوچے‘ بازار‘ راستے اٹ جاتے ہیں۔ سب ایک ہی سمت جا رہے ہیں! کوئی عام سرائے سے‘ کوئی فائیو سٹار مہمان خانے سے‘ کوئی دور سے کوئی نزدیک سے!
کوئی موسم ایسا نہیں‘ کوئی مہینہ ایسا نہیں‘ کوئی ہفتہ ایسا نہیں‘ جب یہ انبوہ کے انبوہ‘ مکّہ میں نہ ہوں! جولائی‘ اگست کی قیامت خیز گرمی ہو یا جنوری فروری کا خوشگوار گواراموسم! گروہ کے گروہ رخصت ہوتے ہیں اور گروہ کے گروہ شہر میں پڑائو ڈالتے ہیں! پانی کم ہوا نہ کبھی خوراک کا کال پڑا! گروہوں یا افراد کے درمیان جھگڑے ہیں نہ تو تکار! ایک لطافت ہے نرمی اور ملائمت میں گُندھی ہوئی جو ہر طرف‘ ہر سر پر چادر تانے ہے! کوئی کسی کو پانی پلا رہا ہے‘ کوئی کسی کے لیے جگہ خالی کیے دے رہا ہے‘ کوئی کسی کی رہنمائی کر رہا ہے‘ کوئی کسی کی‘ کسی اور طرح سے مدد کر رہا ہے! زبانیں اپنی اپنی ہیں !لباس الگ الگ‘ کلچر اور ثقافت جدا جدا‘ کھانے کے انداز مختلف‘ مگر پھر بھی سب ایک ہیں‘ ایک دوسرے سے جُڑے ہوئے‘ رشتے میں بندھے ہوئے‘ روئے زمین پر ایسا منظر کہیں اور دیکھنے میں آیا نہ آئے گا!
زمانے ہو گئے‘ ایسا ہی ہو رہا ہے! پندرہ صدیوں سے! یہ غیر زرعی وادی‘ یہ بنجر پہاڑیوں والا شہر‘ دنیا کا مرکز چلا آ رہا ہے! تب بھی جب اونٹ اور گھوڑے سواری کا ذریعہ تھے! جب قافلوں کی صورت میں‘ برسوں اور مہینوں پیدل چل کر لوگ یہاں پہنچتے تھے۔ آج ہوائی جہازوں میں بیٹھ کر بھی سب کا رُخ اِسی طرف ہے! صفا اور مروہ کے درمیان راستہ کچا تھا‘ پتھروں ‘ کنکروں سے بھرا ہوا‘ تب بھی حکم کی تعمیل ہوتی تھی‘ آج ٹائلیں ہیں اور قیمتی مرمر‘ آج بھی اطاعت ہے اور فرماں برداری! کل انکار کی مجال تھی نہ آج ہچکچاہٹ ہے! سرِ مُو انحراف نہیں! ہر شخص ‘ ہر مرد‘ ہر عورت سراپا تعمیل ہے!آئندہ بھی ایسا ہی ہوگا! ایسے زمانے بھی آئیں گے جب ہوائی جہازوں کی موجودہ رفتار پر لوگ ہنسیں گے! جب سواریاں فضائوں میں اڑیں گی! جب دنوں اور گھنٹوں کی نہیں‘ لمحوں‘ لحظوں اور ثانیوں کی بات ہوگی! تب بھی اس شہر کا فسوں یہی ہوگا! خلقِ خدا تب بھی آئے گی! جوق در جوق ! احرام کے دو ہی کپڑے ہوں گے! پتھر چوما جائے گا‘ صفا اور مروہ تب بھی شہزادیوں کی طرح اپنے اپنے مقام پر جلوہ افروز ہوں گی۔ سفر کے ذرائع مختلف ہوں گے! سفر یہی ہوگا!
سلطنتیں طلوع ہوئیں‘ خاندان غروب ہوئے‘ اموی گئے‘ پھر عباسی! فاطمی پھر وسط ایشیائی! عثمانیوں کا زمانہ فلک تک چھا گیا‘ پھر تاریخ کی گرد میں اوجھل ہوا‘ اب آلِ سعود کا عہد ہے! اس شہر کی عظمت کم نہ ہوئی! سب نے اس کی چاکری کی! سب اس کے غلام رہے! ترکوں نے خدمت کی انتہا کر دی! آل سعود نے توسیع پر توسیع کی! ایسی ایسی سہولیات! جن کا تصور تک نا ممکن تھا! آنے والے وقتوں میں بھی مرکزیت مکہ ہی کی ہوگی! مکہ کسی سلطنت‘ کسی بادشاہ‘ کسی حکومت کا پایۂ تخت نہیں رہا‘ مگر یہاں ایسا تخت بچھا ہے جس کی حکومت دائمی ہے! بادشاہیاں عارضی ہیں! جو کل تھا وہ آج نہیں! جو آج ہے‘ وہ کل نہیں دکھائی دے گا مگر مکہ کی بادشاہی کو زوال نہیں! ہر بادشاہ یہاں سر جھکا کر آئے گا! عجز و انکسار کے ساتھ‘ خدمت کے جذبے سے سرشار! مقدر پر نازاں! چاکری پر فخر کرتا!!
جس نے مکہ میں احرام کی دو چادریں اوڑھنے کا حکم دیا‘ اس نے مکہ کا موسم بھی اسی حساب سے ترتیب دیا۔ یہاں سرما کے عروج میں بھی درجۂ حرارت سترہ سے کم نہیں ہوتا۔ کھلے آسمان تلے‘ مطاف میں‘ ہزاروں لوگ‘ بے حس و حرکت‘ بے خود ہو کر بیٹھے ہیں۔ سب کی نگاہ اس گھر کی طرف ہے جس پر سیاہ غلاف ہے اور جس کے غلاف کے بالائی حصے پر سنہری سوزن کاری ہے!
دیکھ رہے ہیں! دیکھے جا رہے ہیں اس لیے کہ صرف دو حوالوں سے محض دیکھنے کو نیکی قرار دیا گیا ہے! ایک ‘ کعبہ کو محبت سے دیکھنا نیکی ہے۔ دوسرے ‘ ماں باپ کو محبت سے دیکھنا کارِ ثواب ہے! شاید یہی وجہ ہے کہ والدین کو بھی مجازاً قبلہ و کعبہ کہا جاتا ہے! ایک شاعر کو پہلا مصرع دے کر طرح لگانے کو کہا گیا‘ یعنی دوسرا مصرع لگا کر شعر مکمل کرے۔ پہلا مصرع یہ بتایا گیا ع
میں تھا نماز میں‘ مری کعبے کو پیٹھ تھی
کیا ہوشیار شاعر تھا۔ دوسرا مصرع لگایا اور یوں کہ آج تک جو سنتا ہے‘ سر دھنستا ہے ع
میں تھا امام اور مرا والد تھا مقتدی