کس کا دروازہ کھٹکھٹائیں؟

کوئی ہے‘ جو ہمیں ان قاتلوں سے بچائے؟
اس ملک کی زمین ان وحشیوں سے بھر گئی ہے۔ یہ درندے ہر طرف‘ ہر بستی‘ ہر شہر‘ ہر قریے میں دندنا رہے ہیں! انسان ان کے لیے گاجر مولی سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے! زندگی‘ دوسروں کی زندگی‘ ان کے لیے ایک گیند ہے جسے یہ اچھالتے پھر رہے ہیں!
کوئی نہیں جو انہیں روکے! ان کی موٹی گردنوں میں پٹہ ڈالے! یہ چوپایوں کی طرح ہیں‘ بلکہ ان سے بھی بدتر! اُولئک کالْاَنَعام! بَلْ ہُمْ اَضَلَ ! چوپائے تو پھر بھی انسانوں پر رحم کر جاتے ہیں۔ بعض تو ان کی جان بچاتے ہیں۔ بلیاں چھوٹے بچوں کی حفاظت کرتی ہیں۔ کتے جان چھڑکتے ہیں۔ گھوڑا کبھی اُس گھر کا راستہ نہیں بھولتا جہاں اس کا مالک اسے چارہ اور دانہ ڈالتا ہے۔ کبوتر فضاؤں میں دور تک جاتے ہیں مگر سرِ شام اپنے ٹھکانے پر‘ اپنے مالک کے حضور‘ پہنچ جاتے ہیں! مگر اس ملک کے لوگوں کا واسطہ جن وحشیوں سے پڑا ہے‘ وہ جانوروں سے بدتر ہیں! قانون ان کے لیے اُس مٹی کے برابر ہے ‘جو ان کے جوتوں کے نیچے لگی ہے! انسانیت کا ان سے اتنا ہی تعلق ہے جتنا جنگ کے دوران دشمن فوج کے سپاہی کا ہوتا ہے۔ رحم کا لفظ ان کی لغت میں موجود نہیں!
کوئی ہے جو ہمیں ان قاتلوں سے بچائے؟ ریاست اس ضمن میں ناکام ہو چکی ہے! مکمل ناکام! حکومت بے نیاز ہے! بے نیازی اس سیاق و سباق میں نرم ترین لفظ ہے! کوئی ہے جو اقوام متحدہ کی توجہ اس جانب مبذول کرے؟ انسانی حقوق کی تنظیمیں کہاں ہیں! ان قاتلوں کے خلاف آواز کیوں نہیں اٹھتی؟ احتجاج کیوں نہیں ہوتا؟
کیا وہ جو منتخب اداروں میں تشریف فرما ہیں‘ ان قاتلوں کی چیرہ دستی سے واقف نہیں؟ بالکل ہیں! مگر یہ بڑے لوگ‘ یہ معززین‘ یہ معاشرے کا بالائی طبقہ خود ان قاتلوں کی دستبرد سے محفوظ ہے! رہے عوام تو ان کی حیثیت ٹشو پیپر سے زیادہ نہیں! ووٹ لینے کا وقت ہو تو ان ٹشو پیپروں کو استعمال میں لائیے۔ پھر کوڑے دان میں پھینک دیجیے! اگلے انتخابات تک ان کی ضرورت نہیں! جو ہار گئے انہیں بھی نہیں! جو جیت گئے انہیں بالکل نہیں!
کیا منتخب اداروں میں کوئی ایسا رجلِ رشید ہے جو حکومت سے پوچھے کہ گزشتہ پانچ برسوں میں‘ یا تین برسوں میں‘ یا ایک برس میں‘ کتنے افراد ڈمپروں‘ ٹریکٹر ٹرالیوں اور گنّا ڈھونے والے چھکڑوں کے نیچے آ کر کچلے جا چکے ہیں؟ یہ حادثے نہیں قاتلانہ حملے ہیں! ایسے قاتلانہ حملوں میں ملوث کتنے مجرموں کو سزائے موت دی گئی؟ یا عمر قید؟ یا جو بھی سزا تھی‘ کیا دی گئی؟ کیا ان کے ڈرائیونگ لائسنس منسوخ کیے گئے؟ کیا اُن کے مالکوں سے پوچھ گچھ ہوئی‘ جنہوں نے پتھر کے زمانے کے ان وحشیوں کو شاہراہوں پر کھلا چھوڑ رکھا ہے؟
یہ بنیادی طور پر انتظامیہ کی ذمہ داری ہے؟ ضلعی انتظامیہ کی! ٹریفک پولیس کی! میونسپلٹیوں اور شہری کارپوریشنوں کی! مگر بیورو کریسی وہ مست اونٹ ہے جو وفاق اور پنجاب میں حکومت کے کنٹرول سے باہر ہے! یکسر باہر! دور دراز کے اضلاع کا کیا ذکر خود وفاقی دارالحکومت پر راج کرنے والی بیورو کریسی کا رویہ استعمار سے بدتر ہے! اس کی صرف ایک مثال ملاحظہ ہو! وفاقی دارالحکومت کی مصروف ترین شاہراہ ''ایکسپریس وے‘‘ ہے جو جہلم‘ چکوال‘ دینہ‘ گوجر خان کے علاوہ سینکڑوں دیگر آبادیوں کو دارالحکومت سے ملاتی ہے۔ گزشتہ حکومت نے اس شاہراہ کا زیادہ حصّہ سگنل فری کر دیا تھا اور وسیع بھی! گلبرگ سے لے کر روات تک ایک چھوٹا سا ٹکرا رہ گیا تھا۔شاہد خاقان عباسی کی وزارتِ عظمیٰ نے دس ارب روپے اس کی تکمیل کے لیے مختص کیے۔ ماشاء اللہ موجودہ حکومت نے عوام کی ''محبت‘‘ میں یہ رقم واپس لے لی!
مگر ظلم بالائے ظلم یہ ہوا کہ چلو شاہراہ سگنل فری اور وسیع تو نہ ہوئی‘ ضلعی انتظامیہ نے ٹرک مافیا کو بھی کھلی چھٹی دے دی۔ شاہراہ پر ٹرکوں کا قبضہ یوں ہے کہ ٹریفک گھنٹوں رکی رہتی ہے۔ ایکسپریس وے کی بیسیوں آبادیاں‘ مذکورہ بالا شہروں کے علاوہ‘ جھولیاں اٹھا اٹھا کر ذمہ داروں کو بد دعائیں دے رہی ہیں۔ چیف کمشنر وفاقی دارالحکومت سے بات کرنے کی بارہا کوشش کی گئی۔ مکمل ناکامی ہوئی۔ بیورو کریسی عام شہری سے بات کرنے کی روادار تھی نہ ہے! تنگ آ کر وزیراعظم کے ''سٹیزن پورٹل‘‘ پر فریاد کی۔ پورٹل نے داد رسی تو کیا کرنا تھی‘ ہنسی کا انتظام کیا کہ چیف کمشنر کے خلاف شکایت اسی چیف کمشنر کو بھیج دی‘ پھر یہ سارا قصّہ اخبار میں لکھا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ سیکرٹری داخلہ جناب یوسف نسیم کھوکھر اس صورت احوال کا نوٹس لیتے۔ ان کی شہرت اچھی ہے مگر افسوس! پورٹل کو جس طرح ان کے ماتحت غیر مؤثر کر رہے ہیں‘ اس سے لگتا ہے وہ بھی بے نیاز ہیں! پورٹل کا ڈر صرف نچلے درجے کے سرکاری اہلکاروں کو ہے۔ رہی بالائی سطح کی افسر شاہی‘ تو وہ تو گتکا کھیلنے کی ماہر ہے! برستی بارش میں باہر نکلے تو ایک بوند بھی سر پر نہ پڑنے دے ؎
ہزار دام سے نکلا ہوں ایک جنبش میں
جسے غرور ہو آئے کرے شکار مجھے
ڈمپروں‘ ٹریکٹر ٹرالیوں اور چھکڑوں کے ہاتھوں برپا ہونے والے قتلِ عام کی طرف واپس آتے ہیں! ستّر کا عشرہ تھا۔ ہم چند دوست‘ سی ایس ایس کے امتحان کی تیاری کر رہے تھے۔ ایک پرچہ مسلمان ملکوں کی جدید تاریخ کا تھا جس میں ہم عصر تحریکوں کا مطالعہ کرنا تھا۔ قدیم تاریخ پر تو بے شمار مواد میسر تھا۔ ہم عصر تحریکوں پر کچھ بھی نہیں مل رہا تھا۔ اِدھر اُدھر ہاتھ پاؤں مارے۔ ایک صا حب نے نسخہ بتایا کہ خلیل حامدی کی تصنیف ''عالمِ اسلام کے افکار و مسائل‘‘ پڑھو۔ نسخہ کیا تھا۔ نسخۂ کیمیا تھا۔ انڈونیشیا سے لے کر مراکش تک سب احوال حامدی صاحب نے کوزے میں دریا کی طرح بند کر دیا تھا۔ تجسّس بڑھا تو ان کے بارے میں مزید جاننے کی خواہش ہوئی۔ معلوم ہوا جدید عربی کے ماہر ہیں اور کئی کتابوں کے مصنف! کیا آپ کو معلوم ہے اتنے جید سکالر کا انجام کیا ہوا؟ لاہور کے نواح میں ان کی گاڑی کو گنا ڈھونے والی ایک ٹرالی نے کچل دیا۔ اتنا بڑا عالم لاقانونیت کی بھینٹ چڑھ گیا ؎
نہ مدعی نہ شہادت حساب پاک ہوا
یہ خونِ خاک نشیناں تھا رزقِ خاک ہوا
پروفیسر ڈاکٹر طیب منیر‘ انٹرنیشنل اسلامی یونیورسٹی میں اردو ادب و زبان کے صدرِ شعبہ تھے۔ ایک شفیق استاد‘ ایک جینوئن سکالر‘ کچھ عرصہ پہلے ان کی چھوٹی سی کار پر ایک قاتل ڈمپر چڑھ دوڑا جسے ایک وحشی چلا رہا تھا۔ ڈاکٹر صاحب کے سینکڑوں شاگرد‘ عقیدت مند اور دوست آہ و زاری کرتے رہ گئے!
کل کیا ہوا؟ وفاقی دارالحکومت کے نواح میں ایک ڈمپر نے پھر انسانوں کا شکار کیا۔ اندھا دھند اوور ٹیک کرتے ہوئے بارہ نشستوں والی گاڑی کو وحشیانہ ٹکر ماری۔ پانچ موقع پر دم توڑ گئے۔ تین ہسپتال لے جاتے ہوئے جاں بحق ہوئے۔ ڈمپر کا ڈرائیور جائے واردات سے فرار ہو گیا۔ مرنے والوں میں ایک ڈاکٹر بھی تھا۔ جو سرکاری ہسپتال میں تعینات تھا۔کیا ایکشن لے گی اس پر وفاقی دارالحکومت کی انتظامیہ؟ ضلعی انتظامیہ کا کیا کردار ہے؟ کسی ایک ڈمپر‘ ٹرالی یا چھکڑے کے ڈرائیور کو سزائے موت دی جائے تو صورت حال مکمل طور پر بدل جائے‘ مگر یہ قانون سازی کون کرے؟ وہ جو اسمبلیوں میں فروکش ہیں ان کے پاس تو قوی ہیکل ڈبل کیبن‘ پجارو اور لینڈ کروزر ہیں! ان کے آگے پیچھے تو محافظوں‘ نقیبوں اور حاجبوں کی گاڑیاں ہیں جو ان کے لیے حفاظتی غلاف کا کام کرتی ہیں!
لوگ کب تک قتل ہوتے رہیں گے؟کون ذمہ دار ہے؟ ریاست؟ حکومت؟ کس کا دروازہ کھٹکھٹائیں؟ اقوام متحدہ کا؟مہذب ملکوں میں ایسی گاڑیاں زرعی گاڑیاں شمار کی جاتی ہیں اور صرف مخصوص حالات میں عام شاہراہوں پر آتی ہیں!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں