آکسفورڈ یونیورسٹی پریس، آکسفورڈ یونیورسٹی کا حصّہ ہے۔ اس کی پاکستانی شاخ کا منیجنگ ڈائریکٹر، آکسفورڈ یونیورسٹی ہی کا اہلکار ہے۔ اسے کیا پڑی تھی کہ تین روزہ ادبی میلے میں ایک نشست اس قتلِ عام کے بارے میں رکھتا جو دہلی میں مسلمانوں کا کیا جا رہا ہے! یوں بھی یہ لٹریری فیسٹیول ایک پاکھنڈ ہے جو انگریزی لکھنے والے دیسی انگریزوں کی تشہیر کے لیے رچایا جاتا ہے۔ برائے وزن بیت چند اردو کے لکھاری بھی بلا لیے جاتے ہیں۔ انگریزی کے یہ ادیب انگریزی بولنے والے ملکوں میں اب بھی NATIVES یعنی ''مقامی‘‘ شمار کیے جاتے ہیں۔ سلمان رشدی کو تو خود مسلمانوں نے سادہ لوحی کی وجہ سے مغرب کی آنکھ کا تارا بنا دیا ورنہ گندمی رنگ کے انگریزی ادیبوں کا ان ملکوں میں وہی سٹیٹس ہے جو فورٹ ولیم کالج میں کام کرنے والے ہندوستانی منشیوں کا تھا!
تین دن ادبی ''میلہ‘‘ کراچی میں ''منایا‘‘ جاتا رہا۔ یہ وہی دن تھے جب دہلی میں مسلمان مارے جا رہے تھے۔ گھر جلائے جا رہے تھے۔ آبادیوں کی آبادیاں بی جے پی کی غارت گری کا شکار ہو رہی تھیں۔ میلہ سجانے والوں کو کیا پڑی تھی کہ پاکستانی ادیبوں کو اس بربریت پر کچھ کہنے یا سننے دیتے۔ یہ آکسفورڈ ہی کے تو گماشتے تھے جنہوں نے 1857ء میں مسلمانوں کو درختوں کے ساتھ پھانسیاں دیں۔ توپوں کے دہانوں کے ساتھ باندھ کر اڑایا۔ بہت سوں کو عبورِ دریائے شور (کالا پانی) کی سزا دی۔ دہلی میں محلّوں کے محلّوں پر ہل پھروا دیا گیا۔ اس وقت کا گورنر جنرل چارلس کیننگ اسی تعلیمی ادارے کا تو پڑھا ہوا تھا۔ اس کا پیشرو ڈلہوزی بھی جس نے پنجاب ''فتح‘‘ کیا تھا، سفّاکی کا سبق اسی ادارے سے پڑھ کر آیا تھا۔
اور ولیم ڈال رمپل کو کیا پڑی تھی کہ بھارت میں ہونے والی خونریزی کا ذکر کرتا! دلچسپ سوال یہ ہے کہ اردو کے کتنے شاعروں اور ادیبوں نے ڈال رمپل کو پڑھا ہے؟ اس کی لگڑدادی حیدر آباد دکن سے تھی۔ وہ تیس برس سے برطانیہ اور بھارت دونوں جگہ رہ رہا ہے۔ اس کالم نگار نے ''وائٹ مغلز‘‘ سے لے کر ''انارکی‘‘ تک اس کی تمام تصانیف پڑھی ہیں۔ کیرالہ سے تعلق رکھنے والا مورخ ابراہام ایرالی اس کی نسبت کہیں زیادہ معروضی ہے۔ دہلی میں رہنے والے ڈال رمپل کو مسلمانوں کی چیخیں تو نہ سنائی دیں مگر اس نے اس ادبی پاکھنڈ میں آ کر مہاجر، غیر مہاجر کا قصّہ ضرور چھیڑا۔ اس کے آبائواجداد بھی پھوٹ ڈال کر حکومت کرتے تھے۔ پاکستان کے مقابلے میں بھارتی ادیب سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جاتے ہیں۔ (ارون دھتی رائے تو ایک ہی ہے) مگر پاکستانی ادیبوں اور شاعروں میں سے اکثر کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ کشمیر، آسام اور دہلی میں کیا ہو رہا ہے۔ اب تک سینکڑوں مسلمان لڑکیاں اغوا ہو چکی ہیں۔ اسّی لاشیں مل چکی ہیں۔ سینکڑوں کو ریپ کر کے جلا دیا گیا۔ اشوک نگر میں نمازِ با جماعت ہو رہی تھی کہ بلوائیوں نے حملہ کیا۔ امام کو اسی حالت میں مارا گیا۔ مسجد کے مینار پر زرد رنگ کا جھنڈا لہرا دیا گیا جو کئی دن بعد سی این این کی ٹیم کے آنے پر اتارا گیا۔
دکانیں، رہائش گاہیں لوٹ لی گئیں۔ پولیس خاموش تماشائی بنی رہی۔ دہلی پولیس کا باس وہی امیت شاہ ہے جو وزیر داخلہ ہے اور کٹر مسلمان دشمن! مسلمان یوں بھی نچلے انکم گروپ سے تعلق رکھتے ہیں۔ رکشہ چلانے والوں کے گھر جلا دیئے گئے۔ دو دن میں فائر بریگیڈ کو آتش زنی کی دو سو ستّر رپورٹیں موصول ہوئیں اور یہ صرف شہر کے شمال مشرقی حصے سے! یہاں کے مسلمان دن میں صرف چار پانچ سو کماتے تھے۔ جو زندہ رہ گئے، اس سے بھی گئے۔ ایک ماں نے ایک مغربی رپورٹر کو بتایا کہ یہ لوگ کہیں چھپے رہے۔ واپس آئے تو جہاں گھر تھے، وہاں اب راکھ تھی۔ پیسہ پیسہ جوڑ کر لڑکیوں کا جہیز بنایا تھا۔ سب کچھ جل گیا!
اس قتلِ عام میں بی جے پی کے ایک مکروہ لیڈر کپیل مشرا کا کردار نمایاں رہا۔ جس دن صدر ٹرمپ اور مودی ضیافت اڑا رہے تھے، کپیل مشرا بلوائیوں کو ٹرانسپورٹ کی سہولت مہیا کر رہا تھا۔ اس نے اسمبلی میں حلف سنسکرت میں لیا تھا۔
انوگ ٹھاکر ایک اور شیطان ہے۔ جامعہ ملیہ کے فسادات میں اسی کا ہاتھ تھا۔ دہلی کی حالیہ غارت گری میں یہ جلوس کی قیادت کر رہا تھا اور ''غداروں کو گولی مار دو‘‘ کے نعرے لگا اور لگوا رہا تھا۔ پولیس اور الیکشن کمیشن اس کی مٹھی میں ہیں۔ کسی ایکشن کا امکان دور دور تک نہیں نظر آ رہا۔
پرویش ورما ایک اور بھیڑیا ہے۔ شاہین باغ کے پُرامن مظاہرین کے بارے میں اس نے دہلی میں اشتعال انگیز تقریریں کیں کہ ...''یہ دھرنا دینے والے تمہارے گھروں کو لوٹیں گے، تمہاری لڑکیوں کی آبرو ریزی کریں گے۔ اٹھو انہیں قتل کرو، مارو...‘‘ ورما نے یہ اعلان بھی کیا کہ اگر منتخب ہو گیا تو ایک ماہ میں اپنے حلقۂ انتخاب میں واقع ساری مسجدوں کو منہدم کرا دے گا!
بھارت پر چار کتابوں کی مصنفہ، پیرس میں رہنے والی میرا کامدار لکھتی ہے (یہ کسی مسلمان کا لکھا ہوا نہیں) کہ دہلی پولیس نہ صرف خاموش تماشائی بنی رہی بلکہ جنونی ہجوم کی رہنمائی بھی کرتی رہی۔ یہ پولیس ہی تھی جس نے سی سی ٹی وی کیمرے توڑ ڈالے۔ پولیس کے اہلکار سسکتے مرتے مسلمانوں کی وڈیو فلمیں بناتے رہے۔ 25 فروری کو دہلی ہائی کورٹ کے جسٹس مرالی دھر نے پولیس کو سرزنش کی کہ کپیل مشرا اور اس کے ساتھیوں کے خلاف مقدمہ کیوں نہیں درج کیا گیا؟ دوسرے دن جسٹس صاحب کا تبادلہ کر کے انہیں پنجاب بھیج دیا گیا۔
پولیس بی جے پی کی جیب میں ہے۔ عدالتیں بے بس ہیں۔ عدالتوں کو زبانِ حال سے باور کرا دیا گیا ہے کہ ساتھ نہ دو گے تو ہجوم تم پر چھوڑ دیا جائے گا۔ پورے بھارت میں مسلمانوں کے سروں پر ہر طرف ننگی تلواریں لہرا رہی ہیں۔ عالمِ اسلام خاموش ہے۔ نہ صرف خاموش بلکہ ہمارے مشرقِ وسطیٰ والے بھائی بھارت کو خوش کرنے کیلئے مندروں کی تعمیر میں سرگرمِ کار ہیں۔ ملائیشیا نے بھارت کے سفیر کو طلب کر کے بربریت کے اس حکومتی طوفان پر احتجاج کیا ہے۔ ایران نے بھی مذمت کی ہے۔ مسلمانوں کی حالتِ زار پر اگر کہیں کوئی تشویش پائی جاتی ہے تو صرف ملائیشیا، ترکی اور ایران کی حکومتیں ہیں۔ وہ جن کے نام بڑے تھے وہ پتے تو کبھی کے ہوا دینے لگے۔
دہلی کے نو منتخب چیف منسٹر اروند کیجری وال کے بارے میں جو متانت اور انصاف پسندی کا تاثر تھا، اس تاثر کی بھی تدفین ہو چکی۔ جس وقت یہ سطور لکھی جا رہی ہیں عین اسی وقت خبر آئی ہے کہ کیجری وال، مودی کو ملا۔ ملاقات کے بعد یہ ایک اور کیجری وال تھا جو میڈیا سے مخاطب ہوا! ایک بدلا ہوا کیجری وال! کہنے لگا کہ ''میں نے وزیر اعظم سے دہلی کی ترقی کے بارے میں بات چیت کی ہے...‘‘ اس کے فوراً بعد کانگرس کے ترجمان ابھیشک سنگھوی نے کیجری وال کی شدید مذمت کی کہ بی جے پی کی حکومت کو کلین چٹ دے کر آ گئے ہو۔ کانگرس کے ترجمان نے کیجری وال سے پوچھا: کیا تم نے وزیر اعظم سے کہا ہے کہ ایف آئی آریں درج نہیں کی جا رہیں؟ کیا تم نے امیت شاہ کے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا؟ یا اسے لگام ڈالنے کے لیے کہا؟ کیا کپیل مشرا کے خلاف ایکشن لینے کا مطالبہ کیا؟‘‘ گویا کیجری وال نے اقتدار کی سیڑھی پر مزید اوپر جانے کے لیے بی جے پی کی مسلم کُش پالیسی قبول کر لی ہے۔ یہ ہے اُس صورتحال کی ہلکی سی جھلک جس میں سرحد پار کے مسلمان گرفتار ہیں۔ زندگیوں کے چراغ ایک ایک کر کے گل ہو رہے ہیں۔ عین اس وقت ہمارے شاعر اور ادیب ایک غیر ملکی ادارے کی میزبانی میں کتھک پرفارمنس سے دل بہلا رہے تھے۔ مزاحیہ پروگرام دیکھ رہے تھے۔ صدا کاریاں ہو رہی تھیں۔ اداکاروں کو ادب کے چولے پہنائے جا رہے تھے۔ کٹے ہوئے سر، جلے ہوئے مکان، لُٹی ہوئی عصمتیں، راکھ میں بدلی ہوئی دکانیں ان ادیبوں کو زبانِ حال سے کہہ رہی تھیں ؎
ہم درد کے دن گزار لیں گے
تم جشنِ شبِ طرب منائو
پاکستان اور تحریک پاکستان سے ''محبت‘‘ کرنے والی ایک خاتون نے اس میلے میں ادیبوں پر سنسرشپ کے حوالے سے مضمون پڑھا۔ واقعی ادیبوں پر بہت سخت سنسر لگا ہوا ہے۔ بیچارے ادیب کشمیر، دہلی اور آسام کے مسلمانوں کی حالتِ زار پر میلے میں ایک قرارداد تک پیش نہ کر سکے۔ بُرا ہو اس سنسر کا!!