الصَّلوٰۃ فی بیوتکم۔ الصَّلوٰۃ فی بیوتکم
نماز اپنے اپنے گھروں میں ادا کیجیے۔ نماز اپنے اپنے گھروں میں ادا کیجیے۔
یہ ہے وہ جملہ جو مشرقِ وسطیٰ کے ایک ملک میں اذان میں کہا گیا۔ حیَّ علیَ الصلوٰۃ‘ نماز کے لیے (مسجد میں) بلانے کے بجائے مسلمانوں کو ہدایت کی گئی کہ جہاں جہاں ہو وہیں نماز ادا کرو! یہ دو دن پہلے کی بات ہے۔ اس وقت تک غالباً اکثر عربی بولنے والے ملکوں میں ایسا ہی کیا جا رہا ہوگا۔
یہی وہ عملیت پسندی ہے جو مطلوب ہے اور جس کی توقع اسلام اپنے پیروکاروں سے کرتا ہے یعنی حالات جو رُخ بھی اختیار کریں ان کا مقابلہ کرنا‘ مقابلہ کرنے کے لیے تدبیر کرنا! تدبیر کرنے کے لیے دل اور دماغ کو کھلا رکھنا! لکیر کا فقیر نہ بننا۔ نئی صورتِ حال میں نیا راستہ اختیار کرنا!
یہی وہ عملیت پسندی اور دل و دماغ کی کشادگی تھی جس نے اسلام کے دورِ اوّل میں مسلمانوں کی رہنمائی کی اور وہ ہر نئے چیلنج کا مقابلہ کرنے میں کامیاب ہوئے۔ امیرالمومنین عمر فاروقؓ نے مفتوحہ ممالک کی زمینیں باقی اموالِ غنیمت کی طرح مجاہدین میں تقسیم نہ کیں کہ جن کاشت کاروں کے پاس ہیں انہیں کے پاس رہیں تاکہ جاگیرداری وجود میں نہ آئے اور لگان وصول ہو جس سے مملکت کے اخراجات پورے کیے جائیں۔جب فاتحین میں سے کچھ نے اس کی مخالفت کی تو امیرالمومنین علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ‘ سمیت‘ سابقون الاولون نے حضرت عمرؓ کی تائید کی! یہی وہ عملیت پسندی تھی جس کے تحت آپؓ نے قحط کے دوران‘ ہاتھ کاٹنے کی سزا موقوف فرما دی!
اس عملیت پسندی کی‘ لکیر کا فقیر نہ بننے کی‘ اس سے بھی بڑی مثالیں‘ خود عہدِ رسالتؐ میں نظر آتی ہیں! عرب میں خندق کھود کر جنگ کرنے کی حکمت عملی‘ تاریخ میں پہلی بار آپؐ ہی نے اختیار کی! اُس زمانے کے کلچر میں جو پست ترین مقام عورت کا تھا‘ اس کی موجودگی میں اُن اقدامات کا کوئی سوچ بھی نہ سکتا تھا جو نبی اکرمﷺ نے کیے! کہاں یہ رواج کہ مرد مر جائے تو بیویاں بھی ترکے کی طرح تقسیم ہوں اور کہاں یہ مقام کہ ایک عورت اپنے شوہر کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی‘ آپؐ وجہ پوچھتے ہیں۔ وہ جواب دیتی ہے کہ اسے وہ شخص پسند نہیں! اور آپؐ اس پر اعتراض فرماتے ہیں نہ منع فرماتے ہیں!
آپ کا کیا خیال ہے اذان میں جو تبدیلی‘ حالات کے دبائو کی وجہ سے‘ مشرقِ اوسط میں کی گئی ہے‘ ہمارے ہاں بھی ہو سکتی ہے؟ اور اگر ہو تو کیا نتیجہ نکلے گا؟ اس کا جواب ہم سب کو معلوم ہے! آج کے سوشل میڈیا نے ہمارے رویوں اور ہمارے مائنڈ سیٹ کا کچا چٹھا سب کھول کر رکھ دیا ہے۔ ہمارے ہاں ہر سال وسطی پنجاب میں‘ ایک بہت بڑا مذہبی اجتماع ہوتا ہے۔ کسی بھلے مانس نے‘ تجویز پیش کر دی کہ پڑوسی ملک نے جو غلطی کی‘ وہ ہم سے بھی نہ سر زد ہو جائے‘ اس لیے اس اجتماع کو ملتوی کر دیا جائے۔ اس پر ایسے ایسے کمنٹ پڑھنے کو ملے کہ الامان و الحفیظ! مثلاً:
٭ اس میں سچے اور ایمان والے لوگ اکٹھے ہوتے ہیں جن کا کورونا کچھ نہیں بگاڑ سکتا!
٭ ایمانی طاقت کے آگے دنیا کی کوئی طاقت نہیں ٹھہر سکتی!
٭ کورونا صرف جھوٹوں کو متاثر کرتا ہے۔
٭ یہ پابندی پی ایس ایل اور میرا جسم میری مرضی والے اجتماعات پر بھی تو لگائیے! صرف مذہبی اجتماعات ہی آپ حضرات کو نظر آتے ہیں۔
٭ اور سب سے بڑی دلیل کہ کیا کورونا کے بغیر موت نہیں آئے گی؟
ایک عجیب تضاد اور Paradox ہے ہمارے اور دوسرے مسلمان ملکوں کے درمیان! یوں تو ہم عالمِ اسلام میں واحد ایٹمی قوت ہیں مگر بہت سے معاملات میں جہاں ذہنی وسعت درکار ہے‘ ہم پیچھے ہیں۔ مثلاً اکثر و بیشتر مسلمان ممالک میں مسجدیں ریاست کی تحویل میں ہیں۔ ریاست کوئی حکم دے تو مسجد کے خطیب اور مؤذن حضرات‘ اس کی تعمیل کرتے ہیں۔ وہ کسی ''مسجد کمیٹی‘‘ کے آگے جواب دہ نہیں! سعودی عرب‘ ترکی‘ ملائیشیا‘ یو اے ای‘ مصر‘ کویت‘ قطر ہر جگہ ایسا ہی ہے!
اصل سوال یہ ہے کہ کیا اس دنیاوی زندگی کے دوران ہم اسباب کے محتاج ہیں یا نہیں؟ عہدِ رسالت پر غور فرمائیے‘ تمام ظاہری اسباب پوری طرح بروئے کار لائے گئے اور ہر موقع پر لائے گئے۔ جنگ کے موقع پر وہ مقام منتخب کیا گیا جو دفاعی لحاظ سے بہترین تھا۔ آپؐ کے بٹھائے گئے تیر انداز اپنی جگہ سے ہٹے تو جنگِ اُحد میں بہت بڑا دھچکا لگا۔ اس کا مقصد مسلمانوں کو یہ سبق دینا تھا کہ عالمِ اسباب میں ہر ممکن تدبیر کرنا ہوگی! ہر احتیاط اپنانا ہوگی! بیماری کی صورت میں یہ نہیں فرمایا کہ اہل ایمان کو کچھ نہیں ہوگا بلکہ اہل اور قابل طبیب سے علاج کرانے کا حکم فرمایا۔
ہم میں سے اکثر اب یہ ہدایت سن اور جان چکے ہیں کہ وبا پھیلے تو باہر والے وہاں نہ جائیں اور وہاں والے باہر نہ آئیں۔ امیر المومنین عمر فاروقؓ کے عہد میں طاعون پھیلا تو اسی اصول پر عمل کیا گیا اور اتنی سختی سے عمل کیا گیا کہ وبا شام اور عراق سے باہر نہ نکل سکی۔ اس اثنا میں حضرت عمرؓ شام کی طرف روانہ ہو چکے تھے کہ مفتوحہ ممالک کا نظم و نسق اپنے ہاتھوں سے درست فرمائیں۔ تبوک کے قریب پہنچے تو وبا کی اطلاع ملی۔ اسی اصول کے تحت آگے جانے کے بجائے‘ واپس ہو گئے۔ پچیس ہزار مسلمان طاعون کی نذر ہوئے جن میں حضرت ابو عبیدہؓ جیسے جلیل القدر صحابہ بھی شامل تھے۔ کیا ان حضرات سے زیادہ بھی کوئی سچّا اور ایمان والا تھا؟ اور کیا ان کی ایمانی طاقت کم تھی کہ طاعون نے انہیں شہید کر دیا؟
المیہ یہ ہے کہ جہاں ایمانی طاقت کا مظاہرہ کرنا ہوتا ہے‘ وہاں ہم بے ایمانی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور بھرپور مظاہرہ کرتے ہیں‘ ایمانی طاقت اس وقت کیوں نہیں بروئے کار لائی جاتی جب ناروا نفع سامنے نظر آ رہا ہوتا ہے۔ ماسک مہنگے ہو گئے۔ جس شے کی طلب بڑھ جائے‘ قیمت کئی گنا زیادہ ہو جاتی ہے۔ ایمانی طاقت کا درست استعمال یہ نہیں کہ جراثیم سے براہ راست ٹکر لی جائے۔ درست استعمال یہ ہے کہ اپنے آپ کو ناجائز نفع خوری‘ ذخیرہ اندوزی اور استحصال سے روکیں! دوسروں کی مجبوری کو بلیک میل نہ کریں۔ اور ایثار سے کام لیں!
یہ جولائی 2016ء کا قصّہ ہے۔ ان دنوں داعش کا کام اور نام زوروں پر تھا۔ متحدہ عرب امارات کا ایک شہری احمد منہالی علاج کی غرض سے امریکی ریاست اوہائیو گیا۔ عرب لباس (لمبا چغہ اور سر پر رومال) پہنے وہ اپنے ہوٹل میں تھا کہ کسی ملازم کو اس پر داعش سے تعلق رکھنے کا شبہ ہوا۔ آن کی آن میں پولیس آئی۔ اسے زمین پر لٹایا اور ہتھکڑی لگا کر لے گئی۔ غلطی کا احساس ہونے پر امریکہ نے معذرت کی۔ منہالی صدمے سے مزید بیمار ہو گیا اسے ہسپتال داخل ہونا پڑا۔
یو اے ای حکومت کا رویہ اس معاملے میں کیا تھا؟ احتجاج؟ جلوس اور ہنگامہ؟ نہیں! یو اے ای نے وہی کچھ کیا جو عملیت پسندی کا تقاضا تھا‘ وہی عملیت پسندی جس کا مظاہرہ آج کورونا کے حوالے سے‘ مشرق وسطیٰ کے ممالک‘ خاص طور پر سعودی عرب کر رہا ہے۔ یو اے ای کی حکومت نے اپنے شہریوں کے لیے ایک ہدایت نامہ جاری کیا۔ اس میں انہیں دو باتوں کی تلقین کی۔ اول یہ کہ اس حساس صورتِ حال کے پیش نظر مغربی ممالک میں جا کر روایتی عرب لباس نہ پہنیں۔ مرد بھی اور عورتیں بھی! مرد رومال اور چغہ نہ پہنیں اور عورتیں سکارف یا حجاب نہ استعمال کریں۔ دوم‘ جس ملک میں بھی جائیں وہاں کے قوانین کا احترام کریں۔ ان ہدایات کے ردِ عمل میں یو اے ای میں کوئی احتجاج ہوا نہ اہلِ مذہب ہی نے خطرے کی گھنٹی بجائی!
رہے ہم! تو اقبالؔ پہلے ہی کہہ چکے ع
انوکھی وضع ہے‘ سارے زمانے سے نرالے ہیں!