کیا پی ٹی اے اور کابینہ ڈویژن سُن رہے ہیں؟

اگر شہر میں کچھ افراد ہاتھوں میں چھرے لے کر گھوم رہے ہوں‘ کچھ بندوقیں پکڑے ہر طرف ہوائی فائر کرر ہے ہوں اور کچھ چوراہوں پر کھڑے ہو کر عوام میں نشہ آور گولیاں تقسیم کر رہے ہوں تو کیا حکومتی ادارے یہ سب کچھ ہونے دیں گے؟ کیا کوئی ان کا ہاتھ نہیں پکڑے گا؟ انہیں پکڑ کر جیل میں نہیں ڈالے گا؟ کوڑے نہیں مارے گا؟
تو پھر یہ افراد جو یو ٹیوب پر لوگوں کو گمراہ کر رہے ہیں کہ کورونا سازش کے علاوہ کچھ نہیں‘ یہ تمہیں کچھ نہیں کہہ سکتا‘ بے شک ایک دوسرے سے ہاتھ ملاؤ‘ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے رہو‘ ان کی ویڈیوز بلاک کیوں نہیں کی جا رہیں؟ ایک بہت بڑا ادارہ پی ٹی اے (پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی) سائبر کرام کو کنٹرول کرنے کیلئے قائم ہے ‘وہ اس زہر افشانی کا نوٹس کیوں نہیں لے رہا؟ پی ٹی اے‘ کابینہ ڈویژن کے ماتحت ہے۔ کابینہ ڈویژن براہِ راست وزیراعظم کی نگرانی میں ہے۔ کیا کابینہ ڈویژن کے سیکرٹری کو نہیں معلوم کہ عوام کو اس نازک موقع پر گمراہ کیا جا رہا ہے؟ کیا اُنہوں نے وزیراعظم کو اپنے خدشات سے آگاہ کیا ہے؟ اس سے بھی بڑا سوال یہ ہے کہ کیا کابینہ ڈویژن کو خدشات لاحق بھی ہیں؟ یا بے نیازی کی دبیز چادر تنی ہے؟
یو ٹیوب کی سہولت نے اس ملک میں پہلے سے پھیلی فرقہ واریت کو سو گنا نہیں تو پچاس گنا زیادہ ضرور کر دیا ہے! پہلے یہ فرقہ واریت مذہبی جلسوں میں پھیلائی جاتی تھی۔ ہر فرقہ‘ ہر مسلک‘ اپنی اپنی عبادت گاہ میں اجتماعات منعقد کرتا تھا۔ سننے والے لاکھوں کی تعداد میں نہیں‘ صرف ہزاروں کی تعداد میں ہوتے تھے۔ زہر آلود ‘خطابات سنتے تھے۔ سُن کر باہر آ جاتے تھے۔ آہستہ آہستہ اثرات مدہم ہوتے جاتے تھے‘ مگر یو ٹیوب پر کی ہوئی زہر افشانی تو بار بار سنی جا سکتی ہے۔ جوش‘ ولولہ‘ نفرت کا طوفان‘ اپنے مسلک کی ''سچائی‘‘‘ دوسرے مسلک کا ''جھوٹ‘‘ یہ سب کچھ مدہم پڑتا ہے‘ نہ باسی ہوتا ہے۔ لیپ ٹاپ یا فون کھولئے‘ بٹن دبائیے‘ بیان ایک بار پھر سنیے‘ نفرت تازہ دم ہو جاتی ہے۔
ہمارے واعظین‘ ہمارے مناظر‘ ہمارے مسلکی علماء کرام‘ کفار کی اس ایجاد کو‘ یو ٹیوب کو تلوار کی طرح استعمال کر رہے ہیں۔ چند ویڈیوز کے‘ جو لاکھوں کی تعداد میں دیکھی اور سنی جا رہی ہیں‘ عنوانات دیکھئے اور اندازہ لگائیے کہ تخریب کس رفتار اور کس مقدار میں بروئے کار لا رہی ہے۔
٭ فلاں مولانا کے فتویٰ کا جواب۔
٭ کیا فلاں صاحب بدعتی ہیں؟
٭ کیا فلاںصاحب بدعتی نہیں؟
٭ فلاں مسلک اور فلاں مسلک کے درمیان مناظرہ (کئی ویڈیوز‘ کئی حصّوں پر مشتمل)۔
٭ فلاں کی گستاخی۔
٭ فلاں کی روح جنت میں ہے یا دوزخ میں؟
٭ ایک مولانا صاحب کا دوسرے مولانا صاحب کے حسب نسب پر حملہ اور ان کا جواب۔
٭ فلاں مولانا معافی مانگیں۔
٭ فلاں مولوی صاحب کی طرف سے جواب الجواب۔
٭ کیا عقیدے کا ہاضمہ درست ہے؟
٭ فلاں حضرت کو ماموں کیوں کہا؟
٭ کون حق پر ہے؟ فیصلہ آپ کا۔
٭ یہ کر دو‘ تو مسلک بدل لوں گا۔
یہ محض چند مثالیں ہیں۔ مشتے نمونہ از خروارے۔ صدیوں سے جو مسائل چلے آ رہے ہیں اور لاینحل ہیں‘ انہیں تازہ رکھا جا رہا ہے۔ یوں جیسے کل ظہور پذیر ہوئے ہیں۔ ہر مسلک کے واعظین‘ کچھ عالم‘ کچھ برائے نام عالم‘ یو ٹیوب پر اختلافی مسائل کو ہوا دے رہے ہیں۔ سامعین جھوم رہے ہیں۔ نعرے مار رہے ہیں۔ جوش میں آ کر مٹھیاں بھینچ رہے ہیں۔ ایسی فضا تیار کی جاتی ہے جس میں دوسرے مسلک والا کافر نظر آتا ہے۔ ایک نوجوان مولوی صاحب‘ جن کی ویڈیوز‘ بڑی تعداد میں دیکھی جاتی ہیں‘ خود‘ اپنی زبان سے فرماتے ہیں کہ میں تو بات ہی اختلافی مسائل پر کرتا ہوں!
اگر آپ یہ کہہ کر‘ کندھے اچکا رہے ہیں کہ یہ فرقہ واریت تو شروع ہی سے موجود ہے۔ اب کون سی نئی بات ہو گئی ہے! تو آپ غلطی پر ہیں۔ حضور! یہ یوٹیوب والی فرقہ واریت ہے۔ ہر ویڈیو کے نیچے درست تعداد موجود ہے کہ کتنے لوگوں نے سنا اور دیکھا۔ یہ تعداد لاکھوں میں ہے! ملین در ملین سامعین ان نفرت انگیز ویڈیوز کو آگے پھیلا رہے ہیں۔ پھیلائے جا رہے ہیں۔
ان مسالک کے درمیان مشترک باتیں زیادہ ہیں اور اختلافی کم! مگر ناظرین زیادہ تعداد میں حاصل کرنے کیلئے لازم ہے کہ اختلافی مسائل کو ہوا دی جائے۔ سننے اور دیکھنے والے چسکے لیں۔ ریٹنگ زیادہ ہو۔ آمدنی بھی ہو! شہرت بھی ہو! دلوں میں نفرت کے شعلے بھڑک اٹھیں تو واعظ کو اس سے کیا!
اگر اس ملک میں قانون اور ریاست کا وجود ہے‘ اگر اس ریوڑ کا کوئی چرواہا ہے تو خدا اور رسولؐ کا واسطہ ہے آگ کے ان شعلوں کو بجھاؤ۔ فرقہ پرستی کے سیلاب کے آگے بند باندھو! ورنہ سب کچھ بھسم ہو جائے گا!
ہمارے مذہبی حضرات‘ جس شخص کے خلاف نفرت پھیلانی ہو‘ اسے آن کی آن میں یہودی یا یہودی ایجنٹ قرار دیتے ہیں‘ کیا یوٹیوب کو نفرت پھیلانے کیلئے استعمال کرنے سے پہلے انہوں نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ یو ٹیوب گوگل کی ہے گوگل کی بنیاد لاری پیج اور سرجے برن نے رکھی تھی۔ لاری پیج کی ماں یہودی تھی۔ سرجے برن کے ماں اور باپ دونوں یہودی تھے۔ تو گوگل کا یہ اوزار‘ یوٹیوب‘ ہمارے فرقہ پرست حضرات کو اس قدر محبوب کیوں ہے؟ انہیں تو اس یہودی ایجاد کا مکمل بائیکاٹ کرنا چاہیے!
ہمارے ملک میں جتنی زبانیں‘ جتنی نسلیں اور جتنے قبیلے ہیں‘ اتنے ہی عقیدے اور اتنے ہی مسالک ہیں۔ کارگل سے لے کر کراچی تک‘ واہگہ سے لے کر تفتان تک! سب کی مسجدیں الگ ہیں۔ مدرسے اپنے اپنے ہیں۔ کیا یہ سب کچھ کم تھا کہ اب یہ ساری ''ورائٹی‘‘ یوٹیوب کے ذریعے گھر گھر‘ دکھائی اور سنائی جا رہی ہے؟ ہونا یہ چاہیے تھا کہ حکومت ثقہ اور متین‘ سنجیدہ اور جید علما پر مشتمل بورڈ بناتی۔ اس میں عوامی نمائندے اور ٹاپ کلاس بیورو کریسی بھی شامل ہوتی۔ یہ سب بیٹھ کر‘ باہمی مشاورت سے فیصلے کرتے کہ کون سی ویڈیو‘ عوام میں پھیلائی جانے کے قابل ہے اور کس پر پابندی لگنی چاہیے۔ یوں لگتا ہے کہ ہم جنگل میں رہ رہے ہیں۔ کوئی حد ہے نہ انتہا! کوئی قانون ہے نہ اصول!
کیا پی ٹی آئی اور کابینہ ڈویژن سُن رہے ہیں؟
جو یو ٹیوب پر لوگوں کو گمراہ کر رہے ہیں کہ کورونا سازش کے علاوہ کچھ نہیں‘ یہ تمہیں کچھ نہیں کہہ سکتا‘ بے شک ایک دوسرے سے ہاتھ ملاؤ‘ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے رہو‘ ان کی ویڈیوز بلاک کیوں نہیں کی جا رہیں؟ ایک بہت بڑا ادارہ پی ٹی اے سائبر کرام کو کنٹرول کرنے کیلئے قائم ہے ‘وہ اس زہر افشانی کا نوٹس کیوں نہیں لے رہا؟ پی ٹی اے‘ کابینہ ڈویژن کے ماتحت ہے۔ کیا کابینہ ڈویژن کے سیکرٹری کو نہیں معلوم کہ عوام کو اس نازک موقع پر گمراہ کیا جا رہا ہے؟کیا حکومت اور کابینہ ڈویژن سُن رہے ہیں؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں