بغیر کسی سیاسی جرم کے یہ جو گھر میں نظر بندی (ہائوس اریسٹ) ہے اس سے دماغ پر اثر پڑ رہا ہے۔ بہت سی باتیں سمجھ میں نہیں آ رہیں! سوچ رہا ہوں‘ ڈاکٹر کے پاس جائوں یا کسی بابے کے پاس جو تعویذ دے اور پڑھ کر کچھ پھونکے۔ یہ محبت تو ہے نہیں کہ کوئی دوا، کوئی تعویذ، کوئی منتر کارگر نہ ہو! مختار صدیقی کہہ گئے ؎
پیر، فقیر، اوراد، وظائف اس بارے میں عاجز ہیں
ہجر و وصال کے باب میں اب تک حکم چلا ہے ستاروں کا
یا یہ کہ؎
مسجد میں دیا جلا چکی میں
تعویذ سب آزما چکی میں
یہ محبت نہیں، روزمرہ کے مسائل ہیں جنہیں سمجھنے سے ذہن انکار کر رہا ہے۔ مثلاً یہ بات ہضم نہیں ہو رہی کہ صدرِ مملکت کو وزیراعظم صاحب کوئی ڈیوٹی کیسے سونپ سکتے ہیں۔ صدر نے جو فرائض سرانجام دینے ہیں، وہ آئین میں درج کر دیئے گئے ہیں! اور یہ بات تو بالکل سمجھ میں نہیں آ رہی جو صدرِ مملکت نے خود ارشاد فرمائی ہے کہ ''وزیراعظم عمران خان نے مجھے بطور چیئرمین آئی ٹی ٹاسک فورس کے فروغ کا ٹاسک سونپا ہے‘‘ کیا صدر مملکت، وزیراعظم کے ماتحت ہیں؟ یہ تو ایسے ہی ہے جیسے کل زرتاج گل صاحبہ یا شفقت محمود صاحب کوئی ٹاسک وزیراعظم کو سونپ دیں! یعنی بازی بازی بازی باریش بابا ہم بازی!
لطائف و ظرائف قسم قسم کے صدر کے عہدے کے ساتھ پہلے بھی منسوب چلے آتے رہے ہیں۔ چوہدری فضل الٰہی صدر تھے تو گائوں سے کوئی سائل آیا کہ واپڈا میں اس کا کام پھنسا ہوا تھا۔ صدر مملکت نے خاصی دیر سوچنے کے بعد بے بسی کا اظہار کیا کہ بھئی! واپڈا میں میرا کوئی جاننے والا نہیں! بھٹو صاحب کے زمانے میں اسلامی ملکوں کی سربراہی کانفرنس ہوئی تو بھٹو وزیراعظم تھے اور فضل الٰہی صدر مملکت! ٹی وی پر دیکھا گیا کہ مہمانوں کا استقبال کرتے وقت صدر صاحب کنفیوز ہو جاتے تھے کہ آگے ہونا ہے یا پیچھے، ایسے موقع پر وزیراعظم انہیں پشت سے تھوڑا سا دھکیلتے ہوئے آگے کرتے تھے۔ یوں کہ دیکھنے والا آسانی سے نوٹ کرتا تھا!
مگر یہ متانت کے زمانے تھے۔ اس کے بعد اس عہدے کے ساتھ جو جو تیرہ تالیاں اور مضحکہ خیز تلمیحات وابستہ ہوئیں تو الامان والحفیظ! کبھی بریف کیس مشہور ہوا تو کبھی دہی بڑے! اور یہ شعر بھی اس حوالے سے لوگوں کو بہت یاد آیا؎
بہ نادان آنچنان روزی رساند
کہ دانا در آں حیران بماند
قدرت کی بے نیازیاں کہ نادان کو روزی یوں مہیا کرتی ہے کہ دانا حیران رہ جاتا ہے!
ویسے بھی اٹھاون بی کی تلوار نیام میں رکھے جانے کا مطلب یہ نہیں کہ صدر مملکت کو ان کے ماتحت ٹاسک سونپنے لگ جائیں! حفظِ مراتب بھی ایک شے ہوتی ہے!
بات، لاک ڈائون کے دوران دماغ کی کارکردگی کے بارے میں ہو رہی تھی۔ اس کالم نگار کے دماغ نے تو کام کرنا چھوڑ دیا ہے۔ آپ ہی اسے سمجھائیے کہ اگر وزیراعلیٰ سندھ کہتے ہیں کہ کاروبار پھر بھی چل سکتے ہیں، زندگیاں دوبارہ نہیں مل سکتیں اور یہ کہ پورے ملک کا بیانیہ ایک ہونا چاہئے اور یہ کہ وزیراعظم کو قیادت کرنی چاہئے، کیوں کہ ہر صوبہ الگ پالیسی بنائے تو وائرس کو کنٹرول کرنا بہت مشکل ہو گا تو کیا غلط کہا ہے۔ آخر وفاقی وزرا، جن کے محکمے کا صحت سے تعلق ہے نہ کسی اور متعلقہ شعبے سے، اس بیان کی تردید محض برائے تردید کیوں کرتے پھر رہے ہیں۔ جیسے ایک وفاقی وزیر نے وزیر اعلیٰ سندھ کی پریس کانفرنس کے جواب میں یہ الزام لگایا کہ وزیر اعلیٰ عوام کو دھمکا رہے ہیں اور خوف و ہراس پیدا کر رہے ہیں! کیا یہ موقع اس قسم کے مناظروں کا ہے! اور کیا قانونی اور منطقی طور پر، ایک وزیر کو اپنے محکمے کے امور تک ہی محدود نہیں رہنا چاہئے؟
ذہن مختل ہو گیا ہے۔ کیا کوئی اس کالم نگار کو یہ بات سمجھا سکتا ہے کہ جس طرح وزیر اعلیٰ سندھ مکمل اعداد و شمار کے ساتھ پوری صورت حال کا میڈیا کے سامنے تفصیل سے جائزہ لیتے ہیں اور عوام کو اعتماد میں لیتے ہیں، اُس طرح پنجاب کے وزیر اعلیٰ کیوں نہیں کرتے؟ وہ تو ماشاء اللہ تمام وزرائے اعلیٰ میں سب سے زیادہ تعلیم یافتہ، سب سے زیادہ تجربہ کار، سب سے زیادہ ذہین و فطین اور زبان و بیان پر سب سے زیادہ دسترس رکھتے ہیں! بولتے ہیں تو الفاظ دست بستہ سامنے آ کر کھڑے ہو جاتے ہیں! ابوالکلام آزاد اور شورش کاشمیری جیسے مقرّر ہمارے وزیر اعلیٰ پنجاب کے سامنے طفلانِ مکتب لگتے ہیں!؎
پھر دیکھیے اندازِ گُل افشانیٔ گفتار
رکھ دے کوئی پیمانۂ صہبا مرے آگے!
جید علمائے کرام نے اعلان کیا ہے کہ اب لاک ڈائون کا اطلاق مساجد پر نہیں ہوگا۔ یہ بھی کہا ہے کہ لاک ڈائون کی اصطلاح بھی مساجد پر استعمال نہیں ہوگی۔ زیادہ وضاحت کرتے ہوئے علما نے یہ بھی فرمایا ہے کہ ''آج سے (یعنی 14 اپریل سے) مساجد پر لاک ڈائون کا اطلاق نہیں ہو گا‘‘ دوسری طرف وزیر مذہبی امور نے کہا ہے کہ فیصلہ 18 اپریل کو علما کے ساتھ مشاورت سے کیا جائے گا! کوئی سمجھائے کہ جب علما فیصلہ کر چکے ہیں‘ اعلان بھی ان کی طرف سے ہو چکا ہے تو پھر اٹھارہ کو‘ یعنی چار دن کے بعد‘ وزیر صاحب کون سا فیصلہ کریں یا کرائیں گے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ اٹھارہ اپریل کی تاریخ، چودہ اپریل سے پہلے پڑ رہی ہے؟ اس سے بھی زیادہ ناقابلِ فہم یہ خبر ہے کہ صدر مملکت نے مساجد میں اجتماعات اور نماز تراویح سے متعلق سفارشات کی تیاری کے لیے تمام صوبوں کے گورنروں اور علما کرام کا اجلاس بھی اٹھارہ اپریل ہی کو طلب کیا ہے‘ جبکہ علما علی الاعلان میڈیا پر مکمل صراحت کے ساتھ کہہ چکے ہیں کہ چودہ اپریل سے مسجدوں میں تمام عبادات باقاعدگی سے ادا کی جائیں گی! تو کیا اٹھارہ اپریل کو صرف شلغموں سے مٹی جھاڑی جائے گی؟
ہم تصوّر بھی نہیں کر سکتے کہ اپنے ملک کے علما پر تنقید کریں، یا ان سے اختلاف کریں یا ان کے کسی فرمان کے آگے سوالیہ نشان لگائیں مگر بُرا ہوا اس انٹرنیٹ کا کہ دوسرے مسلمان ملکوں کی خبریں بھی دے رہا ہے۔ میں تو کہتا ہوں کہ اس انٹرنیٹ پر، اس دشمنِ دین پر، پابندی لگا کر اسے کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔ اب کیا ضرورت ہے ہم اہلِ پاکستان کو دوسرے مسلمان ملکوں کی خبریں پہنچانے کی! اس روزنامہ گلف نیوز کی قبیح حرکت دیکھیے۔ خلیج کا یہ اخبار بتا رہا ہے کہ سعودی مملکت میں نمازِ تراویح نہیں پڑھی، پڑھائی جائے گی۔ وہاں کے وزیر برائے اسلامی امور جناب عبداللطیف شیخ نے کہا ہے کہ مساجد میں پانچ وقت کی نماز کا تعطل، تراویح کے تعطل سے بھی بڑی بات ہے! انہوں نے اللہ سے یہ دعا بھی کی کہ تراویح جہاں بھی پڑھی جائے، مسجد میں یا گھروں میں، قبول فرمائی جائے۔ روزنامہ عرب نیوز (سعودی عرب کے اخبار) نے خبر دی ہے کہ اردن کی وزارت اوقاف نے رمضان المبارک کے دوران اس سال تراویح کی نماز پر پابندی لگائی ہے تاکہ کورونا کو روکنے کے عمل میں خلل نہ پڑے۔ اردن کے وزیر اسلامی امور جناب محمد خلیل نے یہ بھی کہا ہے کہ اپنے آپ کی اور گھروں کی حفاظت بھی شریعت کے مقاصد میں شامل ہے۔
مشرقِ وسطیٰ ہی کے روزنامہ ''العربیہ‘‘ نے اطلاع دی ہے کہ مصر میں بھی نماز تراویح پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ مصر میں افطار کی مجالس رمضان کا لازم حصہ ہیں‘ جہاں گروہوں کے گروہ افطار مل کر کرتے ہیں۔ رمضان میں خصوصی خیمے نصب کیے جاتے ہیں جہاں بیٹھ کر، خاندان والے، دوست احباب کی ہمراہی میں قہوہ اور شیشہ پیتے ہیں۔ ایسی تمام سرگرمیاں حکماً ممنوع قرار دے دی گئی ہیں۔
اب ترکی کی سنیے: ''مڈل ایسٹ آئی‘‘ ایک ایسی نیوز ویب سائٹ ہے جو انگریزی، عربی اور فرانسیسی میں خبریں دیتی ہے اور جسے الجزائر، بحرین، مصر، ایران، عراق، اسرائیل، اردن، کویت، لبنان، لیبیا، ماریطانیہ، مراکو، اومان، فلسطین، قطر، سعودیہ، سوڈان، شام، تیونس، ترکی، یو اے ای اور یمن میں کروڑوں افراد ہر تھوڑی دیر کے بعد تازہ ترین خبروں کے لیے دیکھتے ہیں۔ اس کی رو سے ترکی کے وزیر مذہبی امور جناب علی ارباس نے مساجد میں تمام اجتماعی عبادات کو معطل کرنے کے حکم کی تجدید کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ''اسلام ایسی سرگرمیوں کی اجازت نہیں دیتا جو انسانی زندگی کو خطرے سے دو چار کریں‘‘
ڈاکٹر احمد عبدالعزیز الحداد، متحدہ عرب امارات کے مفتیٔ اعظم ہیں، اور حکومت کے فتویٰ ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ بھی ہیں۔ فرماتے ہیں: ''شریعت کے عمومی قوانین میں ایک یہ ہے کہ نقصان سے بچا جائے اور مدافعت کی جائے۔ شریعت ہر پہلو پر محیط ہے۔ اور ایسی ایمرجنسی کے حالات کے لیے شریعت کے پاس مناسب حل موجود ہیں۔ اسی لیے لوگوں کو کہا جاتا ہے کہ نماز اپنے اپنے گھروں میں ادا کریں تا کہ محفوظ رہیں اور خیریت سے ہوں‘‘۔
مجھے تو یہ سب کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا۔ آخر دوسرے مسلمان ملکوں کے علما نے یہ سوچا بھی کیوں کہ میرے ملک کے علما سے مختلف رائے دیں اور مختلف فتویٰ دیں! اس بے دین، گستاخ انٹرنیٹ پر پابندی لگوایئے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمارے ملک کی انفرادیت مجروح ہو!