سردار جی ولایت سے ہو کر آئے تو مرچ مصالحہ لگا کر وہاں کی رنگینیوں کی خوب خوب داستانیں سنائیں۔ آخر میں کہا کہ معاملہ وہاں بھی وہی ہے جو یہاں لدھیانہ میں ہے۔
اس حکومت میں بھی وہی کچھ ہو رہا ہے جو پہلے ہوتا آیا ہے ع
طریقِ کوہکن میں بھی وہی حیلے ہیں پرویزی
تبدیلی کا خواب بکھر چکا۔ جڑیں تبدیل ہوئیں نہ تنا! وہی شاخیں‘ وہی زاغ و زغن! وہی برگ و بار! اس دیار کا بخت بھی عجیب ہے! گلاب دکھا کر دھتورا دیا جاتا ہے! عہد و پیمان بلبل سے ہوتا ہے آواز بُوم کی سنائی دیتی ہے!؎
میں تمہارے عہد کی برکتوں کا نشان ہوں
مرے سر پہ بوم ہے زاغ ہے مرے ہاتھ میں
ایک وفاقی سیکرٹری گزشتہ ہفتے جس دن ریٹائر ہوئے‘ ٹھیک اسی دن ان کی نئی تعیناتی کے آرڈر جاری ہو گئے۔ فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے ممبر لگ گئے۔ اگر آپ کا خیال ہے کہ یہ معمول کی سرکاری کارروائی ہے تو آپ کو حقیقتِ حال کا علم نہیں!
فیڈرل پبلک سروس کمیشن وہ بلند ترین آئینی ادارہ ہے جو وفاقی حکومت کو نئے ملازمین مہیا کرتا ہے۔ سی ایس ایس کے تحریری امتحان‘ انٹرویو اور تمام مراحل کا مالک و مختار یہی ادارہ ہے! اس کے علاوہ بھی تمام وفاقی محکموں کی افرادی قوت کے لیے یہی انٹرویو لیتا ہے۔ تعیناتیاں اسی کی سفارشات پر ہوتی ہیں۔ 1977ء کے آرڈیننس میں تفصیلات موجود ہیں۔
منطقی سوال یہ اٹھتا ہے کہ جو ادارہ پورے وفاق کے لیے ملازم اور افسر چنتا ہے‘ انٹرویو لیتا ہے‘ سی ایس ایس کے امتحان کا کرتا دھرتا ہے‘ خود اس ادارے کے ممبر کس طریقِ کار کے تحت لائے جاتے ہیں؟ کیا ان کے انتخاب کے لیے بھی کوئی انٹرویو ہوتا ہے؟ کیا درخواستیں طلب کی جاتی ہیں؟ کیا مقابلہ ہوتا ہے؟ کیا اس امر کی ضمانت دی جاتی ہے کہ بہترین افرادی قوت ہی اس ادارے کو مہیا کی گئی ہے؟
نہیں! ایسا نہیں! آپ حیران ہوں گے کہ اس ادارے کے ممبران صرف اور صرف جان پہچان اور اعلیٰ سطح تک رسائی کی بنیاد پر منتخب ہوتے ہیں۔آرڈی ننس کے تحت‘ فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے چیئر مین اور ممبران کی تعیناتی صدر مملکت کرتے ہیں۔ کُل ممبران میں سے نصف تعداد اُن افراد کی ہوگی جو حکومت پاکستان کے گریڈ 21 یا اس سے اوپر کے افسر رہے ہوں! اس کے علاوہ کم از کم ایک ممبر عدلیہ کا ریٹائرڈ جج ہونا چاہیے۔ ایک ممبر مسلح افواج سے اور ایک نجی شعبے سے!
اصل سوال یہ ہے کہ نصف ممبران جو ریٹائرڈ سرکاری افسروں میں سے ہونے چاہئیں‘ کس طرح چُنے جاتے ہیں؟ یہی مثال لے لیجیے۔ گزشتہ ہفتے ریٹائر ہونے والے سیکرٹری صاحب کا نام جب وزیراعظم صدر مملکت کو بھجوا رہے تھے تو کیا انہوں نے پوچھا کہ گزشتہ چھ ماہ یا ایک سال کے دوران کتنے افراد ریٹائر ہوئے؟ اس فرد کو کس طرح چنا گیا ہے؟ کیا درخواستیں طلب کی گئی تھیں؟ کیا کوئی انٹرویو ہوا؟ آخر نامزدگی کا معیار کیا ہے؟ کیا شفافیت اور یکساں مواقع کے اصول مدِّ نظر رکھے گئے؟ کون کون سے ریٹائرڈ افسران اس تعیناتی کے لیے مناسب نہیں سمجھے گئے؟ اور کیوں نہیں سمجھے گئے؟
عملاً‘ سول سروس کے متعدد گروپوں میں سے ایک اور صرف ایک گروپ یا حلقے کی کمیشن پر اجارہ داری ہے! مسلح افواج سے آئے ہوئے ایک ممبر کو چھوڑ کر‘ بقیہ تمام ممبران ایک ہی سروس گروپ‘ پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس (PAS) (سابق ڈی ایم جی)سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہمیں نہیں معلوم نجی شعبے سے کوئی لیا جا رہا ہے یا نہیں‘ مگر اوپر سے نیچے تک اسی حلقے کا غلبہ ہے! وزیراعظم کے دفتر میں بھی ٹاپ بیورو کریسی ساری کی ساری اسی حلقے سے تعلق رکھتی ہے۔
وزیراعظم اور صدر مملکت کو پوچھنا چاہیے کہ کتنے ممبر فارن سروس سے ہیں؟ کیا کوئی ریلوے سے بھی ہے؟ کوئی ایف بی آر سے بھی ہے؟ آڈیٹر جنرل کے ادارے سے؟ انفارمیشن سروس سے؟ پوسٹل سروس سے؟ ملٹری لینڈ اینڈ کنٹونمنٹ سے؟
سرحد پار‘ بھارت میں‘ یونین (یعنی فیڈرل) پبلک سروس کمیشن کا موجودہ چیئرمین اروند سکسینہ پوسٹل سروس سے ہے! اس سے پچھلا چیئر مین ریلوے سے تھا! اس سے بھی پچھلا یونیورسٹی کا پروفیسر تھا! ممبران میں پولیس سروس سے بھی ہیں۔ اکنامک سروس سے بھی! ایک ممبر سابق وائس چانسلر ہے! اس لیے کہ جب معاملہ حکومت کے سامنے رکھا جاتا ہے تو حکومت اس امر کو یقینی بناتی ہے کہ سارے گروپوں کی شمولیت ہو!
میں وزیراعظم اور صدر مملکت سے بصد احترام یہ پوچھنے کی جسارت کرنا چاہتا ہوں کہ آپ نے اتنا اہم اور کلیدی ادارہ صرف ایک گروپ کے سپرد کیوں کر رکھا ہے؟ کیا خدانخواستہ آپ اس ایک حلقے ہی کے وزیراعظم اور صدر ہیں؟ کیا ایف بی آر‘ پولیس‘ آڈیٹر جنرل‘ ریلوے‘ پوسٹل ڈیپارٹمنٹ‘ انفارمیشن‘ کامرس اینڈ ٹریڈ کے ریٹائرڈ افسران اس قابل نہیں کہ کمیشن کے ممبر بن سکیں؟ کیوں؟؟ کیا یہ کوئی چراگاہ ہے جو ایک ہی ریوڑ کی ملکیت ہے؟ کیا وزیراعظم شفافیت اور یکساں مواقع کے حوالے سے اپنا اطمینان کرتے ہیں؟ کیا صدر مملکت منظوری دیتے وقت اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ بیورو کریسی کے بہت بڑے حصے کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے؟ صریح زیادتی؟؟
اول تو 1977ء کا آرڈی ننس ہی غلامی کی یادگار ہے! انگریز سرکار نے 1935ء کی شق نمبر 265 میں جب قرار دیا تھا کہ کمیشن کے نصف ممبران ملکہ برطانیہ کے سابق ملازم ہوں گے تو وہ استعمار کا تقاضا تھا! آج آزادی کے تہتّر سال کے بعد بھی وہ شق جوں کی توں موجود ہے! 1977ء کا آرڈی ننس وضع کرتے وقت مکھی پر مکھی ماری گئی! نصف ممبران ریٹائرڈ سرکاری افسر کیوں ہوں؟ اکثریت نجی شعبے سے کیوں نہ ہو؟ صنعتکار‘ ماہرینِ زراعت‘ ماہرینِ قانون‘ ڈاکٹر‘ انجینئر‘ یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر‘ دانشور‘ ادیب‘ کئی کئی درجن کتابوں کے مصنف کیوں نہ ہوں؟ سول سروس کا یہ لاڈلا‘ راج دلارا‘ گروپ جو کمیشن پر مارِ سرِ گنج بن کر بیٹھا ہے‘ کیا اُن تمام مضامین کا ماہر ہے جو سی ایس ایس کے امیدوار منتخب کرتے ہیں؟ اس پروردگار کی قسم! جس نے دانش کو اقتدار سے دور رکھا ہے‘ افسر شاہی میں پڑھنے لکھنے‘ مطالعہ کرنے اور تازہ ترین مطبوعات سے تعلق رکھنے والے افراد آٹے میں نمک کے برابر ہیں!
چلئے! جب تک قانون میں ترمیم نہیں ہوتی تو ریٹائرڈ افسر ہی رکھیے! مگر خدا کا خوف کیجیے! شفافیت بھی ایک چیز ہوتی ہے۔ اس حوالے سے پہلے بھی حکمرانوں کا استحصال کیا جاتا رہا‘ کیا آج کے وزیراعظم بھی اپنا استحصال ہونے دیں گے؟ وزیراعظم آفس سے لے کر ‘ پبلک سروس کمیشن تک‘ مشیر سے لے کر کابینہ ڈویژن اور اسٹیبلشمنٹ ڈویژن تک ...خزانہ سے لے کر پرنسپل سیکرٹری تک‘ ہر اہم مقام پر ایک ہی قبیلے کے ارکان پوزیشنیں سنبھالے ہیں! دوسرے گروپوں کے لیے یہ سب شجرِ ممنوعہ ہے! اور کیا پارلیمنٹ کو نہیں معلوم کہ کیا ہو رہا ہے؟ کیا حزبِ اختلاف اس مسئلے کی نزاکت اور عدم انصاف سے یکسر بے خبر ہے؟
نادر شاہ دلّی میں تھا تو اس کی طبیعت خراب ہو گئی! دوا کے طور پر گُل قند کھلائی گئی! کہنے لگا : ''حلوائے خوب است! دیگر بیار!‘‘ کہ مزیدار حلوہ ہے! اور لائو! فیڈرل پبلک سروس کمیشن میں حلوہ مزیدار ہے اور بہت سا بھی ہے! پانچ ساڑھے پانچ لاکھ ماہانہ تنخواہ ہے! ڈیڑھ دو لاکھ ماہانہ ٹی اے ڈی اے کی مد میں مل جاتا ہے! گاڑی‘ ڈرائیور‘ پٹرول سرکاری ہے! دورے پر بیگم صاحبہ بھی سرکاری خرچ پر جانے کی قانوناً مجاز ہیں! جب لقمۂ تر ہے اور بڑا بھی ہے تو پھر ایک مخصوص حلقے کی اجارہ داری کیوں نہ ہو؟ اہلیت کے لیے صرف اتنا کافی ہے کہ حکمران آپ سے شناسا ہو اور اس کے ارد گرد بیٹھے ہوئے معتبر افراد آپ ہی کے طائفے سے ہوں!! مگر ایک منٹ رُکیے! باہر دروازے پر دستک ہوئی ہے! ذرا دیکھ آئوں! تبدیلی تو نہیں آ گئی؟