آزاد پاکستان میں جب ہم ان جھگڑوں کو رونق بخش رہے ہیں کہ نماز مسجدوں میں پڑھیں یا گھروں میں‘ اور جب مولانا کی دعا پر طول و طویل بحث مباحث ہو رہے ہیں اور جب یہ طے کیا جا رہا ہے کہ قوم جھوٹی ہے یا دامن نچوڑ دے تو فرشتے وضو کریں...تب‘ سرحد پار بھارت میں مسلمان کس قیامت سے گزر رہے ہیں‘ اس کا ہمیں اندازہ ہے نہ اندازہ کرنے کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے‘ اس لئے کہ ہم آزاد ہیں!
یہ دہلی کا مضافاتی علاقہ ہے۔ ایک مسلمان کو ہجوم پیٹ رہا ہے۔ لاٹھیوں اور جوتوں سے مار رہا ہے۔ اس کے منہ‘ ناک اور کانوں سے خون بہنے لگا ہے۔ وہ ایک تبلیغی اجتماع سے واپس آیا ہے۔ حملہ آور کہہ رہے ہیں کہ یہ ''کورونا جہاد‘‘ میں ملوث ہے اور اُس سازش کا حصّہ ہے جس کے تحت بھارتی مسلمان ملک میں کورونا پھیلا رہے ہیں اور ایک منظم پلان کے تحت یہ کام کر رہے ہیں۔ہجوم مارتا مارتا اسے ایک قریبی مندر میں لے جاتا ہے۔ یہاں اسے اور مارا پیٹا جاتا ہے اور مجبور کیا جاتا ہے کہ اسلام کو چھوڑ کر ہندو مذہب اختیار کرے۔ اس کے بعد ہی اسے ہسپتال جانے دیا جاتا ہے۔اکثر و بیشتر مقامات پر مسلمانوں کے کاروبار کا بائیکاٹ کیا جا رہا ہے۔ انہیں ''کورونا دہشت پسند‘‘ جیسے القابات سے پکارا جا رہا ہے۔ یہ الزام لگایا جا رہا ہے کہ مسلمان خوراک اور پانی پر تھوک رہے ہیں تاکہ وائرس پھیلے۔ دہلی کے علاوہ کرناٹک ‘مدھیہ پردیش اور تلنگانہ کی ریاستوں میں ایسے پوسٹر جابجا نظر آ رہے ہیں جن میں مسلمانوں سے بچنے کی وارننگ دی گئی ہے۔تبلیغی جماعت کے ارکان کو ''انسانی بم‘‘ کہا جا رہا ہے۔کچھ انہیں پھانسی پر لٹکانے کی ترغیب دے رہے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ وہ ڈاکٹروں اور نرسوں کے چہروں پر تھوک رہے ہیں تاکہ وائرس مزید پھیلے۔ کرناٹک میں آڈیو کلپ کے ذریعے لوگوں کو تلقین کی جا رہی ہے کہ مسلمان سبزی فروشوں اور میوہ فروشوں کو اپنی آبادیوں میں نہ داخل ہونے دو کیونکہ یہ ان اشیا کی مدد سے کورونا پھیلا رہے ہیں۔ مسلمانوں کا ایک گروہ غریب آبادیوں میں راشن تقسیم کر رہا تھا‘ گروہ کے ارکان کو ڈنڈوں سے پیٹا گیا۔ پیٹنے والے کہہ رہے تھے کہ تم راشن پر تھوکتے ہو تاکہ وائرس پھیلے۔ یہاں تک کہ ہندو تنظیموں کے مسلمان ارکان کو بھی راشن تقسیم کرنے سے منع کیا جا رہا ہے۔ ایک گاؤں کی پنچایت کے صدر نے اعلان کیا ہے کہ مسلمانوں سے میل جول رکھنے والے ہندو پر ایک ہزارر وپے جرمانہ کیا جائے گا۔ زہریلے پروپیگنڈے کا یہ حال ہے کہ ہسپتالوں میں مسلمانوں کا علاج کرنے سے انکار کیا جا رہا ہے۔ جھوٹ کا ایک کارخانہ ہے جو مسلمانوں کے خلاف دن رات چل رہا ہے۔ ناقابلِ یقین الزامات! مثلاً یہ کہ تبلیغی جماعت کے ارکان نے خواتین نرسوں کے سامنے اپنے آپ کو برہنہ کر دیا اور ڈاکٹروں پر تھوکا! بنگلور میں مسلمان خوانچہ فروشوں کو کرکٹ کے بَیٹوں سے مارا گیا۔یو پی میں چیف منسٹر ادتیا ناتھ یوگی کے احکام یہ ہیں کہ تبلیغی جماعت کے ارکان جہاں نظر آئیں‘ گرفتار کر لئے جائیں۔ 23خصوصی جیل ان کیلئے تیار کئے گئے ہیں‘ ہندو مریضوں کو قرنطینوں میں رکھا جا رہا ہے‘ مگر مسلمان مریضوں کو جیلوں میں بند کیا جا رہا ہے۔ اصطلاحی طور پر انہیں ''عارضی‘‘ جیل کہا جا رہا ہے۔ پھر‘ جن مسلمانوں میں مرض کے آثار بالکل موجود نہیں‘ انہیں بھی پکڑ کر ان ''عارضی‘‘ جیلوں میں بند کیا جا رہا ہے۔ یہ ظلم رمضان کے مہینے میں ہو رہا ہے!
یوگی ادتیا ناتھ سے یوں بھی کسی انسانیت کی توقع لاحاصل ہے۔ مودی اور اس کے وزیر داخلہ امیت شاہ کے بعد یوگی ادتیا ناتھ تیسرا متعصب ترین ہندو ہے جو بی جے پی کی حکومت کا اہم ترین فرد ہے۔ ایک پیشہ ور پنڈت۔ ہمیشہ زعفرانی رنگ کے مذہبی لبادے میں ملبوس۔ سر سے مصنوعی گنجا! شاید ہی کوئی ایسا ہفتہ گزرا ہو جب اس نے مسلمانوں کے خلاف زہر نہ اُگلا ہو! یو پی کی آبادی دوسری تمام ریاستوں سے زیادہ ہے۔ بیس کروڑ۔ مسلمان تقریباً ساڑھے چار کروڑ ہیں اور اس وقت تاریخ کے سب سے زیادہ بھیانک اور اذیت ناک دور سے گزر رہے ہیں۔ حال ہی میں گورکھپور میں مسلمانوں کا قتلِ عام کیا گیا۔ چند ماہ پہلے اس نے ایک درفطنی چھوڑی اور یو پی کے مسلمانوں کو طعنہ دیا کہ تم اگر پاکستان نہیں گئے‘ یہاں رہ گئے تو بھارت پر احسان نہیں کیا‘ پاکستان کی تو تم نے‘ تقسیم سے پہلے‘ حمایت ہی کی تھی!جس طرح تقسیم سے پہلے کچھ ہندو اور سکھ عورتیں مسلمانوں سے شادی کرنے کی متمنی تھیں اور اسے ہندو اور سکھ ہمیشہ فساد کی بنیاد بناتے تھے‘ اسی طرح آج بھی ایسے واقعات بھارت میں ظہور پذیر ہوتے رہتے ہیں۔ ہندو لڑکیاں‘ اپنی مرضی سے‘ مسلمان لڑکوں سے محبت کی شادی کرتی ہیں۔ کوئی پاگل بھی نہیں مان سکتا کہ آج کے بھارتی معاشرے میں‘ جہاں مسلمان جان بچاتے پھر رہے ہیں‘ کوئی کسی ہندو عورت کو جبراً مسلمان کرے گا‘ مگر ادتیا ناتھ کا اعلان یہ ہے کہ اگر وہ ایک ہندو عورت کو مسلمان کریں گے تو ہم سو مسلمان عورتوں کو ہندو بنائیں گے۔ اپنے آبائی قصبے میں اس نے ایک انتہا پسند تنظیم خصوصی طور پر بنائی ہے۔ اس کے اجتماع میں‘ ایک ہندو لیڈر نے حاضرین کو مسلمان عورتوں کی لاشوں کے ساتھ جس انسانیت سوز سلوک کی تلقین کی‘ اسے لکھنے کی قلم اجازت نہیں دیتا۔ اس وقت ادتیا ناتھ اس جلسے میں موجود تھا اور سٹیج پر بیٹھ کر یہ شرمناک بکواسات سُن رہا تھا۔ مسلمانوں کے بسائے ہوئے شہر‘ جو صدیوں سے چلے آ رہے ہیں‘ ان کے نام تبدیل کئے جا رہے ہیں۔ الٰہ آباد اور آگرہ کے نام بدلے جا چکے۔ مسلمان مدارس کو حکم دیا گیا ہے کہ ''قومی‘‘ تعطیلات کے مواقع پر ''تقاریب‘‘ منعقد کی جائیں اور ثبوت کیلئے وڈیوز اعلیٰ حکام کو پیش کی جائیں۔عالمِ اسلام تو اس حوالے سے بے نیاز ہے ہی‘ خود پاکستان میں اس ظلم و ستم کو نمایاں طور پر اس طرح پیش نہیں کیا جا رہا جس طرح پیش کرنے کا حق ہے۔ جو کچھ آسام میں ہوا‘ پھر کشمیر میں‘ اور اب کورونا کے نام پر جو کچھ پورے بھارت کے طول و عرض میں مسلمانوں کے ساتھ ہو رہا ہے‘ اس پر مسلمان حکومتیں مُہر بہ لب ہیں۔ گویا؎
نہ مدعی نہ شہادت حساب پاک ہوا
یہ خونِ خاک نشیناں تھا رزقِ خاک ہوا
تاہم ایک کرن مشرقِ وسطیٰ سے ابھری ہے۔ یہ کرن‘ بارش کا پہلا قطرہ تو تاحال ثابت نہیں ہوئی مگر امید ہے کہ جوں جوں وقت گزرے گا‘ بھارتی چیرہ دستی کے چہرے سے نقاب مسلمان ملکوں میں ضرور اُترے گی۔ ہوا یہ کہ متحدہ عرب امارات میں مقیم سورابھ اوپا دھائے نامی ایک بھارتی نے سوشل میڈیا پر دعویٰ کیا کہ ہندؤں کے ساتھ مشرقِ وسطیٰ میں اچھا سلوک نہیں کیا جا رہا! اس نے یہ بھی کہا کہ دبئی جیسے شہر ہندوؤں نے تعمیر کیے اور یہ کہ یہاں کے کاروبار میں ان کا حصّہ ہے۔ ساتھ ہی اس نے تبلیغی جماعت کے حوالے سے مسلمانوں کے خلاف ناشائستہ الفاظ استعمال کئے۔ اس کے جواب میں متحدہ عرب امارات کی شہزادی ہند فیصل القاسمی نے ٹویٹ کیا کہ اگرچہ حکمران خاندان‘ بھارت کا دوست ہے مگر ایسی گستاخی اور بدتمیزی نہیں برداشت کی جائے گی۔ یہاں جو کام کرتا ہے‘ وہ معاوضہ پاتا ہے۔ مفت کوئی نہیں کام کرتا۔ جس سرزمین کی تم توہین کر رہے ہو‘ اسی سے روٹی کما کر کھا رہے ہو۔ اس تضحیک کا نوٹس لیا جائے گا۔ ساتھ ہی شہزادی نے یہ بھی لکھا کہ نسل پرستانہ اور امتیازی رویہ دکھانے والوں کو جرمانہ کیا جائے گا اور ملک سے نکال دیا جائے گا۔
صرف یہی نہیں‘ سعودی سکالر عابدی زاہرانی نے کہا ہے کہ لاکھوں بھارتی‘ خلیج کی ریاستوں میں رہ رہے ہیں۔ کچھ کورونا وائرس میں بھی مبتلا ہیں۔ ان کا علاج مفت کیا جا رہا ہے‘ قطع نظر اس کے کہ ان کا مذہب کیا ہے۔ دوسری طرف فاشسٹ مودی اور اس کے انتہا پسند جتھے اپنی ہی مسلمان آبادی کے خلاف جرائم سرزد کر رہے ہیں۔زہرانی نے تجویز کیاکہ متعصب ہندوؤں کو خلیج کی ریاستوں سے نکال کر‘ واپس بھارت بھیج دیا جائے۔
کیا عجب‘ یہ آغاز ہو اور عالمِ اسلام بھارت کے عزائم سے خبردار ہو جائے۔