ولیم اور بیگم ولیم ایک اپارٹمنٹ میں رہتے ہیں۔ کورونا کی وبا نازل ہوئی تو وہ اپنی رہائش گاہ تک محدود ہو گئے۔
کچھ ہی دن بعد ان کے ہاں بیٹی کی ولادت ہوئی۔ مسز ولیم بے تاب تھی کہ اپنے والدین کو نئی نویلی بیٹی دکھائے مگر سماجی فاصلہ رکھنا لازم تھا؛ چنانچہ اس کے والدین آکر اپارٹمنٹ کے سامنے کمپائونڈ میں کھڑے ہو گئے۔ مسز ولیم بیٹی کو پکڑ کر بالکونی میں آ گئی۔ یوں نانا نانی نے نومولود نواسی کو دیکھا۔ اپنے ہاتھوں کو بوسہ دے کر ہوا میں اچھالا۔ پھر وہ اپنے گھر کو پلٹ گئے اور انتظار کرنے لگے کہ کب حکومت ملنے جلنے کی اجازت دے گی تاکہ آکر نواسی کو اپنے ہاتھوں میں اٹھا سکیں‘ اس کی خوشبو کو اپنے اندر سمیٹ سکیں۔ اس کے ساتھ تصویریں بنوا سکیں۔
لاریسا اور اس کے میاں کے دو بچے ہیں۔ ایک بیٹی دو سال کی، دوسری چار سال کی۔ اپنا گھر زیر تعمیر ہے اس لئے چار افراد کا یہ خاندان، لاریسا کے ماں باپ کے ساتھ رہتا ہے۔ یوں کل ملا کر اس گھر کے چھ افراد ہوئے۔ حکومت کے تازہ ترین اعلان کی رو سے، گھروں سے باہر کی تقاریب میں زیادہ سے زیادہ دس افراد شریک ہو سکتے ہیں بشرطیکہ سماجی فاصلہ برقرار رکھا جائے۔ اسی اصول کا اطلاق پہاڑوں کی سیر (ہائکنگ)، کشتی رانی اور مچھلیوں کے شکار پر بھی ہوگا؛ تاہم کسی دوسرے کے گھر جانے کیلئے پانچ افراد تک کو اجازت ہو گی۔ اگر ایک گھر میں چھ افراد رہ رہے ہیں تو کسی کے ہاں جاتے وقت ایک کو گھر ہی میں رہنا ہوگا۔ لاریسا نے ایک اخباری نامہ نگار کے ذریعے حکومت سے شکوہ کیا ہے کہ وہ اور اس کے اہل خانہ اکٹھے گھر سے باہر تو جا سکتے ہیں مگر سب ایک ساتھ اس کے سسرال نہیں جا سکتے اس کیلئے انہیں انتظار کرنا ہوگا۔
دو خاندانوں کا یہ احوال دو مختلف ملکوں کا ہے۔ یہ وہ ممالک ہیں جنہیں ہم کئی ناموں سے پکارتے ہیں، کبھی ترقی یافتہ کہتے ہیں‘ کبھی مغربی، کبھی غیر مسلم اور کبھی کافر! یہ خیالی داستان ہے نہ دیومالائی۔ ایسا بھی نہیں کہ ان ملکوں کی سو فیصد آبادی قانون پسند ہے۔ ہاں! بھاری اکثریت قانون پر عمل پیرا ہونے کی پوری کوشش کرتی ہے۔ اس میں قوتِ نافذہ کا بھی کردار ہے۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے کسی کو استثنیٰ نہیں دیتے۔ سفارش نہیں سنتے۔ ہم میں سے جو لوگ ان ملکوں میں گئے ہیں یا وہاں رہتے ہیں، جانتے ہیں کہ پارکنگ کیلئے شاہراہوں کے کنارے نشان لگے ہیں۔ ان نشانوں کی خلاف ورزی کرکے گاڑی پارک کرنے پر سزا ملتی ہے؛ تاہم یہ حقیقت ہے کہ قوت نافذہ کے بغیر بھی قانون پسندی کا حال بُرا نہیں۔ شدید گرمی میں آگ لگ جانے کے خطرے کی وجہ سے حکومت اعلان کرتی ہے کہ آج باربی کیو پر پابندی ہے تو بھاری اکثریت اپنے گھروں میں بھی باربی کیو نہیں کرتی حالانکہ وہاں دیکھنے اور پکڑنے والا کوئی نہیں ہوتا۔
ہم جب رونا روتے ہیں کہ اپنے ہاں قانون پر کوئی نہیں عمل پیرا ہوتا تو اس کا بھی یہ مطلب نہیں کہ سو فیصد لوگ قانون شکن ہیں۔ اس سے مراد یہ لی جاتی ہے کہ بھاری اکثریت قواعدوضوابط کو خاطر میں نہیں لاتی۔ ایک حقیر اقلیت یقیناً قانون پر عمل کرنے کی خواہش رکھتی ہے اور کوشش بھی کرتی ہے۔ یہ الگ بات کہ بعض اوقات مجموعی طور پر قانون شکنی کرنے والا معاشرہ، قانون پسند افراد کے آڑے آجاتا ہے۔
لاک ڈائون میں نرمی کا اعلان ہوتے ہی ہماری ذہنیت، ہماری اصلیت، ہمارا سب کچھ ظاہر ہو گیا۔ یوں لگتا ہے کہ ہمارے خوبصورت دیدہ زیب ملبوسات اور ہمارے اجسام شفاف (ٹرانسپیرنٹ) ہو گئے ہیں۔ ہمارے پھیپھڑے، پسلیاں، گردے، چھوٹی آنت، بڑی آنت، سب نظر آنے لگے ہیں۔ احتیاطی تدابیر کے پرخچے اُڑائے جا رہے ہیں۔ سماجی فاصلے کے اصول کو تار تار کیا جا رہا ہے۔ یہاں تک کہ میڈیا رپورٹ کے مطابق دکاندار حضرات ماسک پہنے بغیر ایک دوسرے سے بغل گیر ہو کر ایامِ فراق کی کمی پوری کررہے ہیں۔ دستانے نظر آرہے ہیں‘ نہ سینی ٹائزر! ٹریفک جام کے مناظر عام ہیں اور ابھی تو پبلک ٹرانسپورٹ بھی جاری نہیں ہوئی! بسیں اور ویگنیں چلنے کے بعد جو صورتِ حال ہوگی اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں! موٹر سائیکلوں پر تین تین افراد بیٹھے دیکھے گئے ہیں۔ دکانیں مقررہ اوقات کے بعد بھی کھلی رکھی جارہی ہیں۔
بازاروں میں کھوے سے کھوا چھل رہا ہے۔ باڑہ مارکیٹوں اور مو تی بازاروں میں تل دھرنے کی جگہ نہیں۔ سڑکوں پر گاڑیوں کی طویل قطاریں ہیں۔
اس صورتِ حال میں پنجاب حکومت کی خوش فہمی بلکہ سادہ لوحی ملاحظہ ہوکہ دوسرے شہروں کو جانے والی ٹرانسپورٹ کھولی جا رہی ہے اور خواب یہ دیکھا جا رہا ہے کہ مسافر، بسوں میں بیٹھنے سے پہلے ماسک اور دستانے پہنیں گے‘ سینی ٹائزر اپنے پاس رکھیں گے۔ کھانستے اور چھینکتے وقت ٹشو پیپر کا استعمال کریں گے۔ گاڑیوں میں جراثیم کش ادویات چھڑکی جائیں گی۔ مسافروں کو ایک دوسرے کے ساتھ نہیں بٹھایا جائے گا۔ بسوں کو سواریوں سے نہیں بھرا جائے گا۔ اگر یہ سب امیدیں واقعتاً پوری ہو گئیں تو یوں سمجھیے بڑے پوپ صاحب ویٹی کن سے حج کو چل پڑیں گے۔ پیوٹن انگریزی کو روس کی سرکاری زبان قرار دے دے گا اور بلیاں آئندہ بچوں کے بجائے انڈے دیا کریں گی۔ جس معاشرے میں عوام کی اچھی خاصی تعداد ناک، قمیص کے دامن سے یا آستین سے صاف کرتی ہے اور سرعام کرتی ہے‘ اس معاشرے میں یہ توقع کرنا کہ بسوں میں بیٹھے مسافر کھانستے اور چھینکتے ہوئے ٹشو پیپر استعمال کریں گے سادگی نہیں تو کیا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ یہ سادگی نہیں کچھ اور ہی ہے۔
بچے میں اتنی عقل نہیں ہوتی کہ کوئلے پر ہاتھ رکھے یا یاقوت پر‘ ماں نہلانے لگتی ہے تو روتا اور بُرا مناتا ہے۔ ہم اس ملک کے شہری بچے ہی تو ہیں ! معصوم بچے! ہمیں کوئی بے وقوف احمق اور جانگلی نہ کہے۔ ہماری عزت اس میں ہے کہ ہمیں جاہل کہنے کے بجائے بچہ کہا اور بچہ سمجھا جائے۔ ہم سیٹ بیلٹ باندھ کر پولیس پر احسان کرتے ہیں‘ اوورسپیڈنگ سے روکنے والے کو دشمن گردانتے ہیں۔ جو جگہ پارکنگ کیلئے مخصوص ہو وہاں ٹھیلے اور سٹال لگا لیتے ہیں‘ پھر گاڑیاں دکانوں کے عین منہ پر کھڑی کرتے ہیں۔ اولاد نالائق ہو تب بھی میڈیکل میں داخلے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہیں۔ ہم اتنے معصوم ہیں کہ ریلوے پھاٹک کھلتے ہی دائیں بائیں کی تمیز بالائے طاق رکھتے ہوئے ہڑبونگ مچا دیتے ہیں اور یوں ٹریفک پھاٹک کھلنے کے بعد بھی آدھا آدھا گھنٹہ رکی رہتی ہے۔ رقم ہونے کے باوجود بل جمع کرانے کیلئے آخری تاریخ کا انتظار کرتے ہیں۔ لال بتی سبز ہوتے ہی ہارن بجانے لگتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اگلی گاڑی والا ہوا میں اُڑنا شروع کر دے۔ ریل کے ڈبے میں فون پر طویل گفتگو اتنی اونچی آواز سے کرتے ہیں کہ سارے مسافروں کو ہمارے گھر کے حالات اور ٹینڈر کھلنے کی آخری تاریخ کا علم ہو جاتا ہے کیونکہ اس گفتگو کے دوران مسافر ایک دوسرے کی بات سن سکتے ہیں‘ نہ اخبار یا کتاب ہی پڑھ سکتے ہیں۔
ہم چار کروڑ روپے کوٹھی کی تعمیر پر لگا دیتے ہیں مگر گیٹ کے سامنے پھٹی ہوئی پانی بھری سڑک پر ہزار روپے کی بجری نہیں ڈلوا سکتے۔ ہزاروں روپے ریستورانوں، لاکھوں روپے شادیوں اور ختنوں پر خرچ کر دیتے ہیں مگر تیس چالیس لاکھ کی گاڑی پر دس بیس ہزار روپے کا ٹریکر نہیں لگوا سکتے۔ قومی حوالے سے ہماری عمر تہتر برس ہونے کو ہے مگر ذہنی عمر ہماری تین چار سال سے زیادہ نہیں۔ ہم ماشاء اللہ کھاتی پیتی قوم ہیں اسی لئے ہماری چلتی گاڑیوں سے مالٹوں کے چھلکے اور چپس کے خالی پیکٹ باہر سڑک پر گرتے ہیں کہ ہماری خوش خوراکی کو ایک دنیا دیکھے۔ بابر اور جہانگیر کسی کے تابع فرمان نہ تھے۔ ہمارے ہاں ہر ٹرک ڈرائیور شہنشاہ ہے اور گلگت سے کراچی تک سارا ملک اس کی خاندانی جاگیر ہے۔
بچے سے کام کرانا ہو تو اسے چمکارا جاتا ہے خوشامد کی جاتی ہے یا ٹافی دی جاتی ہے۔ اگر حکومت چاہتی ہے کہ ہم سماجی فاصلہ رکھیں، ہجوم سے احتراز کریں، مصافحے اور معانقے سے گریز کریں اور دستانے اور ماسک استعمال کریں تو اسے چاہئے کہ ہماری خوشامد کرے، منت سماجت سے کام لے، ہمارے آگے ہاتھ جوڑے اور اس کام کے لئے ہمیں معقول معاوضہ پیش کرے! ورنہ اگر بچہ یاقوت چھوڑ کر جلتا انگارہ پکڑ سکتا ہے تو ہم بھی عافیت چھوڑ کر خود کو کورونا لگوا سکتے ہیں۔