چترال سے آنے والا پی آئی اے کا جہاز حویلیاں میں سات دسمبر 2016ء کو گر کر تباہ ہوا۔ تمام کے تمام (47) مسافر لقمۂ اجل بنے۔ تین برس اور تقریباً پانچ مہینے بعد یہ دوسرا حادثہ ہے جو کراچی میں ہوا اور سوسے کچھ کم افراد اس دنیا سے اس حال میں رخصت ہوئے کہ ان کی میتیں پہچانی نہ جا سکیں۔ پاکستان میں جو مضبوط خاندانی نظام زندگی کا حصہ ہے‘ اس کے پیش نظر یہ کہنا مبالغہ نہ ہوگا کہ ایک شخص کی موت درجنوں افراد کی زندگیوں کو چلتا پھرتا ماتم کدہ بنا دیتی ہے۔ ماں باپ اور بیوی بچے تو نوحہ کناں ہوتے ہی ہیں‘ بھائی بہن‘ چچا‘ تایا‘ ماموں‘ خالہ‘ پھپھی‘ دادا ‘دادی‘ نانا‘ نانی‘ سسر ساس ہر کوئی متاثر ہوتا ہے اور اس قدر شدت سے متاثر ہوتا ہے کہ زندگیاں دکھ سے بھر جاتی ہیں‘ بعض اوقات تو زخم ساری زندگی مندمل نہیں ہوتا۔
حادثے کے چند گھنٹوں بعد ایئر لائن کے سربراہ نے جو پریس کانفرنس کی‘ اس میں غور و فکر کا بہت سامان ہے۔ انہوں نے یقین دلایا کہ انکوائری میں پی آئی اے اور سی اے اے حکام شامل نہیں ہوں گے۔ کیوں کہ بقول ان کے سیفٹی انویسٹی گیشن بورڈ بالکل آزاد اور خود مختار ادارہ ہے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے‘ کہ کیا سیفٹی انویسٹی گیشن بورڈ واقعتاً آزاد اور خود مختار ہے؟ اس سوال کا جواب حاصل کرنے کیلئے یہ سمجھنا لازم ہے کہ سی اے اے کیا ہے؟
سی اے اے (سول ایوی ایشن اتھارٹی) ایک سول ادارہ ہے جو وزارتِ شہری ہوا بازی کے تحت کام کرتا ہے۔ اس کا وژن ہے ہوا بازی کے شعبے کو محفوظ‘ مستعد‘ نفع آور اور جاندار بنانا۔ اس کے اہداف میں شامل ہے کہ شہری ہوا بازی کے شعبے کو محفوظ اور مستعد بنائے۔ گویا یہ پی آئی اے کے اوپر نگرانی کرنے والا ادارہ ہے۔ اب یہاں اہم نکتہ یہ ہے کہ یہ ادارہ اگرچہ وفاقی سیکرٹری سول ہوا بازی کے ماتحت ہے جو اس کے ڈی جی ہیں مگر ایک ایئر وائس مارشل جو ایڈیشنل ڈی جی ہیں عملاً ادارہ چلا رہے ہیں۔ ڈی جی یعنی وفاقی سیکرٹری اسلام آباد اپنے دفتر میں بیٹھتے ہیں۔ ایڈیشنل ڈی جی یعنی ایئر وائس مارشل ادارے کے ہیڈ کوارٹر میں بیٹھتے ہیں۔ دوسری طرف پی آئی اے کے سربراہ ایک فُل ایئر مارشل ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ فوج اور سول کے طریقِ کار اور کام کرنے کے کلچر میں بہت فرق ہے۔ فوج میں ماتحت کا کام حکم ماننا ہے۔ اگر وہ بحث کرنے لگ جائے تو میدانِ جنگ میں لڑ نہیں سکتا۔ اسے تو حکم بجا لا کر موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر لڑنا ہے۔ ہمیں فخر ہے کہ ہماری فضائیہ ہواؤں پر حکمران ہے اور دشمن ہماری ہوائی سرحدوں کی طرف دیکھنے کی جرأت نہیں کر سکتا۔ مگر یہاں ایک نگران ادارہ ایئر وائس مارشل کے تحت ہے جب کہ ایئر لائن‘ اُس کے سینئر کے چارج میں ہے۔ دونوں کی تیس سالہ باہمی رفاقت ہے؛ چنانچہ سوالیہ نشان اٹھنا منطقی ہے۔ حکومت پاکستان نے 2019ء میں جو ''قومی ہوا بازی پالیسی‘‘ جاری کی اس کی رُو سے سی اے اے ایک انضباطی (Regulatory) ادارہ بھی ہے۔ یہ پالیسی بتاتی ہے کہ ''سی اے اے کے پاس ایگزیکٹو اتھارٹی بھی ہوگی اور انتظامی (ایڈمنسٹریٹو) اتھارٹی بھی‘ تاکہ وہ ایک محفوظ ہوا بازی کا شعبہ مہیا کر سکے‘‘۔سیفٹی پروگرام اور سیفٹی مینجمنٹ سسٹم دونوں کا نفاذ سی اے اے نے کرنا ہے۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ بالائی ادارہ ماتحت کے پاس ہے اور زیریں ادارہ جو اصلاً ہوا بازی کو آپریٹ کر رہا ہے سینئر کی تحویل میں ہے۔
کیا ''سیفٹی انوسٹی گیشن بورڈ‘‘ یعنی حادثات کی تحقیقات کرنے والا ادارہ واقعتاً آزاد ہے؟ اس کا جواب ہاں میں ہے اور نہیں میں بھی۔ اس لئے کہ یہ بورڈ کام کے لحاظ سے یعنی فنکشنل لحاظ سے براہ راست وفاقی سیکرٹری ہوا بازی کو رپورٹ کرتا ہے‘ مگر عملاً سی اے اے کا حصہ ہے۔ اس کا بجٹ‘ تنخواہیں‘ مراعات‘ دفاتر کی جگہ‘ سب کچھ اس نے سی اے اے سے لینا ہے؛ چنانچہ اسے مکمل آزاد اور خود مختار نہیں قرار دیا جا سکتا۔ پھر یہ حقیقت بھی قابل ِذکر ہے کہ ایئر لائن کے سربراہ ایئر مارشل ہیں‘ سی اے اے کے عملی سربراہ ایئر وائس مارشل ہیں اور سیفٹی انوسٹی گیشن بورڈ کی سربراہی ایک ایئر کموڈور کے پاس ہے!
2019ء کی جاری کردہ گورنمنٹ کی ہوا بازی کی پالیسی کے مندرجہ ذیل فقرے پر غور کیجئے۔
''سی اے اے ایئر پورٹ سروسز اور نیوی گیشن کے حوالے سے خدمات مہیا کرنے والا ادارہ ہے۔ دوسری طرف بیک وقت یہ اس کام کا نگران بھی ہے۔ یہاں مفادات کا ٹکراؤ پیدا ہو رہا ہے؛ چنانچہ دو سال کے عرصہ کے اندر اس کا کردار بطور نگران الگ اور آزاد کر دیا جائے گا اور اسے مالی اور انتظامی خود مختاری دے دی جائے گی‘‘۔پالیسی کے اجرا کو ایک سال سے زیادہ کا عرصہ ہو چکا ہے۔ کیا سی اے اے کے نگرانی والے شعبے کو خود مختار کرنے کے حوالے سے کچھ پیش رفت ہوئی ہے یا نہیں؟ اس کے بارے میں ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا!!
ہم حاشاً و کلاً کسی شخصیت پر اعتراض نہیں کر رہے۔ ہمارے افسران‘ خواہ وہ ایئر فورس کے ہیں یا سول‘ محنتی‘ دیانت دار اور مستعد ہیں۔ تاہم ہر ادارے کا اپنا ماحول ہے۔ اپنا کلچر ہے۔ درجہ بندی یعنی Hierarchyکے اپنے تقاضے ہیں۔ جنگی جہاز اور کمرشل فلائٹ دو الگ الگ شعبے ہیں۔ ہر شعبے کے اپنے اپنے ماہرین ہیں۔
عام پاکستانی‘ بہرطور‘ دوسری طرح سوچتا ہے۔ اس کے خیال میں حادثے کی ساری ذمہ داری پائلٹ پر ڈالنا آسان ہے کیونکہ وہ اپنا دفاع کرنے کیلئے زندہ ہی نہیں! مگر اس تھیوری سے مکمل اتفاق نہیں کیا جا سکتا۔ پائلٹ بھی انسان ہے۔ اس سے غلطی کا صدور ناممکن نہیں۔ لیکن اگر ملک میں اداروں اور محکموں کی مجموعی صورتحال دیکھی جائے تو اہلیت‘ قابلیت‘ نظم و ضبط‘ پابندیٔ وقت اور احتساب کا فقدان ہے۔ وزیر سے لے کر کلرک تک کوئی بھی وقت پر نہیں پہنچتا۔ کچہریوں اور تھانوں کا حال سب کے سامنے ہے۔ خود دارالحکومت جو کبھی ایک ماڈل شہر تھا‘ غلاظت اور لاقانونیت کا گڑھ بن چکا ہے۔ سینکڑوں ہزاروں غیر ملکی دندناتے پھرتے ہیں۔ چیف کمشنر کا الگ محکمہ ہے۔ ترقیاتی ادارہ الگ کروڑوں ماہانہ خرچ کر رہا ہے۔ میئر کا سیٹ اپ الگ ہے۔ مگر شہر ہے کہ عبرت کا مرقع ہے۔ جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر پڑے ہیں جیسے گاؤں کے باہر ڈھیر لگے ہوتے ہیں۔ اس مجموعی زوال میں یہ ناممکن ہے کہ ہوا بازی کے حوالے سے ہر شخص اپنا کام کماحقہ کر رہا ہو۔
چترال والے حادثے کے علاوہ ماضی قریب میں اسلام آباد ہی میں ایئر بلیو اور بھوجا ایئر لائن کے جہاز گرے تھے۔ ان کی رپورٹیں تاحال پبلک نہیں ہوئیں۔ بھوجا کے جہاز کے بارے میں زبانِ خلق یہ کہتی ہے کہ کلیئرنس غلط ایشو کی گئی تھی تاہم یہ بات مصدقہ نہیں۔ جب تفتیشی رپورٹیں دبا دی جاتی ہیں تو افواہیں جنم لیتی ہیں۔
ایک مستعد بس سروس شروع ہونے کے بعد اسلام آباد اور لاہور کے درمیان ہوائی سفر پر انحصار بہت حد تک کم ہو گیا ہے۔ اب کراچی جانا ہو تو سوچنا پڑے گا کہ بائی روڈ جانا زیادہ محفوظ ہے یا بائی ایئر؟ اس کالم نگار کے قریبی عزیز نے اب کے عید منانے کراچی اپنے گھر جانا تھا۔ وہ اپنی گاڑی پر گیا۔ میں نے بھرپور مخالفت کی مگر اُسی دن شام کو جب وہ کراچی بخیر و عافیت پہنچ گیا تو مجھے اپنی رائے پر نظرثانی کرنا پڑی۔ لاہور سے سکھر تک مسلسل موٹروے ہے۔ سکھر سے حیدر آباد تک نیشنل ہائی وے۔ حیدر آباد سے کراچی تک پھر موٹروے! یہ بھی حقیقت ہے کہ موٹر وے کی صورتحال پنجاب میں بہت بہتر ہے۔ پنجاب بارڈر سے سکھر تک قابلِ رشک نہیں! اس سہولت کا کریڈٹ بہرطور گزشتہ حکومت کو جاتا ہے۔ موجودہ حکومت کی کارکردگی اس شعبے میں سب کے سامنے ہے!
مجھے قومی ایئر لائن سے محبت ہے! بہت محبت! مگر کراچی جانے کیلئے میں گھوڑا گاڑی کو بھی ترجیح دوں گا خواہ پہنچنے میں ہفتے لگ جائیں۔ موت کہیں بھی آ سکتی ہے! گاڑی میں بھی! گھر بیٹھے بھی! مگر جان بوجھ کر اپنے آپ کو موت کے حوالے مت کیجئے!!