نام ہی کافی ہونا چاہیے تھا

صرف نام ہی کافی تھا! علائو الدین خلجی کا صرف نام ہی کافی تھا!
پاکستان سے کئی گنا بڑی سلطنت! کاریں نہ جہاز! تار برقی نہ ای میل! وٹس ایپ نہ ٹیلی فون! مگر جو ریٹ علائو الدین مقرر کرتا تھا‘ سلطنت کے ہر شہر ‘ ہر قصبے ‘ ہر منڈی‘ ہر بازار میں وہی ریٹ چلتا تھا۔ ہر جنس کی قیمت مقرر تھی! ہر بازار کی اطلاع بادشاہ کو پل پل پہنچتی تھی!
جب حکمران کی نیت صاف ہو‘ تو فضائیں اور ہوائیں بھی اس کی مدد کرتی ہیں! اس کے انصاف کی خبر خوشبو کی طرح پھیلتی ہے! دور افتادہ قریوں کے تاجر بھی جانتے تھے کہ کم تولنے کی صورت میں‘ کم تولنے والے کے جسم سے اتنا گوشت کاٹ لیا جائے گا جتنا اس نے کم تولا ہے۔ انصاف کی خوشبو ہوتی ہے تو دہشت بھی! مظلوم کے لیے خوشبو! ظالم کے لیے دہشت! خلجی کے دور حکومت میں قیمتوں کا استحکام حیرت انگیز تھا! آج تک حیرت انگیز ہے!
شیر شاہ سوری کا زمانہ بھی آج کی مواصلات سے چھلکتی دنیا سے سینکڑوں سال پہلے کا تھا۔ بابر چار سال آگرہ سے حکومت کرنے کے بعد 1530ء میں دنیا چھوڑ گیا۔ دس سال ہمایوں نے جوں توں کر کے کاٹے۔ 1540ء میں سوری نے زمام سنبھالی! پانچ سال اسے ملے۔ صرف پانچ سال! ان پانچ برسوں میں وہ خود نہیں‘ اس کا نام حکمران تھا! وہ دارالحکومت سے گھوڑے یا ہاتھی پر سوار ہو کر آخر کہاں کہاں پہنچ سکتا تھا! مگر سلطنت کے اطراف و اکناف میں ہر شخص جانتا تھا کہ سوری کا زمانہ ہے۔ کون سا سوری؟ جس نے کھیت کو نقصان پہنچانے والے لشکری کا کان اپنے ہاتھ سے کاٹا تھا اور پورے لشکر میں اسے پھرایا تھا! کون سا سُوری؟ جو قاتل نہ ڈھونڈنے کی صورت میں گائوں کے نمبردار کو پھانسی دیتا تھا! سُوری کا نام ہی کافی تھا! کس کی مجال تھی کہ ظلم کرے! ظلم کرے گا تو کتنے دن بچے گا؟ یوں تو شیر شاہ نے جگہ جگہ چوکیاں بنوائی تھیں۔ جہاں سے تازہ‘ تیز رفتار گھوڑے‘ ڈاک کے ہر کاروں کو میّسر آتے تھے‘ مگر اس کے باوجود اس کی خوش نیتی‘ انصاف کے لیے اس کا عزمِ صمیم اور کسی رشتہ دار کا جرم بھی معاف نہ کرنے کا رویہ‘ یہ وہ عوامل تھے جو اس کی سلطنت کو تاریخ میں ہمیشہ کے لیے ذکرِ خیر دے گئے!
پھر انگریز کا زمانہ آیا! ٹھیک ہے‘ قومی‘ ملکی سطح پر وہ استعمار تھا! ان کے اپنے مفادات تھے‘ مگر ان مٹھی بھر سفید فاموں کو اچھی طرح معلوم تھا کہ انصاف انہوں نے سب سے نچلی سطح تک پہنچانا ہے! گائوں میں قتل ہوتا تھا تو تھانیدار وہاں تنبو گاڑ کر بیٹھ جاتا تھا۔ قاتل کے پکڑے جانے تک بیٹھا رہتا۔کیوں؟ اسے معلوم تھا کہ اوپر بیٹھا ہوا انگریز ایس پی مجرم پکڑے جانے کا شدت سے منتظر ہے! انگریز افسر چند ہزار سے زیادہ نہ تھے‘ مگر انگریز کے انصاف کا نام چلتا تھا! نام ہی کافی تھا!
تحریک انصاف کی حکومت آئی تو یہ خوش فہمی تھی کہ اب ہر شخص جان جائے گا کہ کس کی حکومت ہے! غلط کام کرنے سے پہلے وہ سو بار سوچے گا کہ علائوالدین نہ سہی‘ شیر شاہ سوری نہ سہی‘ ملکہ برطانیہ اور وائسرائے نہ سہی‘ عمران خان کی حکومت تو ہے نا! تحریک انصاف تو انصاف کرنے کیلئے آئی تھی! مگر افسوس! ایسا نہ ہوا! نام کی خوشبو پھیلی نہ نام کی دہشت! کچھ بھی نہیں بدلا! افسوس! صد افسوس! ہیہات! کچھ بھی تو نہیں بدلا۔ امام دین اب بھی امام دین ہے اور چوہدری آج بھی چوہدری ہے! وہی چنگیزی چیلے!
اخبار سامنے پڑا منہ چڑا رہا ہے۔ آٹھ سالہ ملازمہ کو تشدد کا نشانہ میاں بیوی نے بنایا‘ تشدد اتنا کیا کہ ہسپتال جا کر وہ مر گئی۔ مگر خبر کے اس حصے پر غور کیجیے کہ جس تھانیدار نے قاتل جوڑے کو پکڑا‘ اُسے اُس تھانے ہی سے تبدیل کر دیا گیا۔ پریس کہتا ہے کہ پولیس نے اس تبادلے کی تصدیق بھی کر دی!
یہ درست ہے حکمران اعلیٰ ہر تھانے‘ ہر کچہری‘ ہر قصبے میں ذاتی طور پر نہیں پہنچ سکتا! مگر ایک نام ہوتا ہے جو ہر جگہ پہنچتا ہے۔ کہیں خوشبو بن کر‘ کہیں دہشت کی شکل میں! تبادلہ کرنے والے نے یہ کیوں نہ سوچا کہ عمران خان کی حکومت ہے! کل میں اس تبادلے کا کیا جواب دوں گا؟ یہ گھڑا گھڑایا جواب تو ہر موقع پر ملتا ہی ہے کہ یہ روٹین کی ٹرانسفر تھی۔ روٹین کی ٹرانسفر کی بھی سُن لیجیے۔ تھانوں میں ایس ایچ او کبھی ماہ دو ماہ بعد ٹرانسفر ہو جاتا ہے کبھی سات آٹھ ماہ بعد۔ اگر باقاعدہ مطالعہ کیا جائے اور اعداد و شمار بہم پہنچائے جائیں کہ ایک تھانیدار کو ایک تھانے میں کتنا عرصہ رکھا جاتا ہے تو شاید دنیا کی سب سے زیادہ مضحکہ خیز پبلک ایڈمنسٹریشن نکلتے۔
اخبار کا ورق الٹتا ہوں! لکھا ہے فلاں وزارت میں گریڈ 21 کے دو افسران موجود ہیں۔ اُن کے اوپر گریڈ بیس کے افسر کو تعینات کر دیا گیا ہے! تعیناتی کرنے والے نے ایک لمحے کے لیے بھی نہ سوچا کہ کس کا دورِ حکومت ہے اور کل جواب دینا پڑے گا! اس لیے کہ جس کا بھی دورِ حکومت ہے پوچھ گچھ کوئی نہیں! سننے والوں نے کان بند کر رکھے ہیں۔بیورو کریسی کو برا بھلا سب کہتے ہیں۔ اس کے زخم کوئی نہیں دیکھتا! کون سا گروہ ہے جو حکمران اعلیٰ کے اردگرد حصار بنائے بیٹھا ہے؟ بیورو کریسی کی اکثریت کیوں مایوس اور دل برداشتہ ہے؟ استعداد پر یہ یاس کیسے اثر انداز ہو رہی ہے؟ بیورو کریسی میں برہمن اور شودرگروہوں کو الگ الگ کیوں رکھا جا رہا ہے؟ ساٹھ سال پہلے کی پالیسی ابھی تک چل رہی ہے۔
جس سانس میں دہائی دی جا رہی ہے کہ غربت 9 فیصد بڑھ سکتی ہے اور جس سانس میں رونا رویا جا رہا ہے کہ محاصل میں آٹھ سو ارب روپے کی کمی ہوئی‘ ٹھیک اسی سانس میں اس بھوکی ننگی قلاش‘ بے یارومددگار قوم کو مژدہ سنایا جا رہا ہے کہ 25 بزنس کلاس اوپن ریٹرن ہوائی جہاز کے ٹکٹ اب ارکان پارلیمنٹ کے خاندان بھی استعمال کرسکیں گے! صرف یہی نہیں‘ گزشتہ مالی سال کے غیراستعمال شدہ ٹکٹ اور وائوچر اس سال بھی قابلِ قبول ہوں گے‘ نئے سال کے توالگ ملیں گے ہی! تبدیلی کا تقاضا تو یہ تھا کہ ان بااثر افراد کو بزنس کلاس کے بجائے اکانومی کے ٹکٹ دیئے جاتے مگر وہ قائداعظم تو گئے جو کابینہ کے ارکان کو چائے گھر سے پی کرآنے کا حکم دیتے تھے۔ نہ صرف ارکان پارلیمنٹ بلکہ ان کے اہلِ خاندان بھی بزنس ٹکٹ کے حقدار!ماشا اللہ ! اُن مغلوں کے آپ صحیح وارث ثابت ہوئے جو نیم برہنہ خلقِ خدا کو باجرے کی روٹی کھاتے دیکھ کر تاج محل اور تختِ طائوس بنواتے تھے! فکر دیہاڑی دار مزدوروں کی اور پرورش اپنی کلاس کی!!
عرصہ ہوا ایک غیر ملکی پاکستان کی ٹریفک کو دیکھ کر پکار اٹھا تھا کہ : People have been left on roads to kill each other.
کہ لوگوں کو شاہراہوں پر کھلا چھوڑ دیا گیا کہ وہ ایک دوسرے کو مار دیں! یہی صورتحال کورونا کی ہے۔ جب ذمہ دار سطح سے یہ کہا جائے کہ کورونا نے پھیلنا ہی پھیلنا ہے تو اس کا بین السطور مطلب یہی ہے کہ مرنا ہے تو مرو! ریاست کچھ نہیں کر سکتی! سوال یہ ہے کہ کیا ریاست کا کام اس پھیلائو کو روکنا نہیں! پولیس‘ ضلعی انتظامیہ‘ وزرا اور مشیران کرام کے لشکروں کے لشکر! دوسرے ادارے! یہ سب کہاں ہیں؟ کیا ایس او پی پر بزور عمل کرانے کیلئے اقوامِ متحدہ کی فوج درکار ہے؟ نوّے نوّے افراد روزانہ مر رہے ہیں اور کہا یہ جا رہا ہے کہ پاکستان میں وائرس سے اتنا نقصان نہیں ہوا۔ غالباً نقصان میں جانی مال شامل نہیں کیا جا رہا! مریضوں کی تعداد چین کو پیچھے چھوڑ گئی ہے! ہسپتال بھر چکے‘ لائف سیونگ انجکشن ناپید! وینٹی لیٹروں کی تعداد برائے نام! بہت سے امراض کی طرح خود تسکینی کا بھی کوئی علاج نہیں!
ویسے یہ فارمولا برا نہیں! ٹڈی دَل نے آنا ہی آنا ہے! چینی نے مہنگا ہونا ہی ہونا ہے! روٹی کا بھائو بڑھنا ہی بڑھنا ہے! کشمیر میں جو کچھ ہو رہا ہے‘ اس نے ہونا ہی ہونا ہے! ایک کروڑ نوکریوں نے ملنا ہی ملنا ہے! پچاس لاکھ مکانوں نے بننا ہی بننا ہے! شاید حسنؔ بریلوی کا شعر ہے؎
او وصل میں منہ چھپانے والے!/ یہ بھی کوئی وقت ہے حیا کا؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں