کہانی وہی ہے پرانی۔ کئی دفعہ سنائی گئی! کئی بار سنی گئی۔ اس ملک کی قسمت! کہ ہر بار سنانا پڑتی ہے ہر بار سننا پڑتی ہے!
صبح سب سے پہلے جو شخص شہر کے دروازے سے اندر داخل ہوا‘ وہ فقیر تھا! اسے‘ فارمولے کے تحت‘ بادشاہ بنا دیا گیا۔ اس نے فقیرانہ لباس اتار کر شاہانہ لباس زیب تن کیا مگر اپنے امور میں خوب عقل مند تھا۔ گدڑی اور لاٹھی چھپا کر رکھ لی۔
پھر اسے بتایا گیا کہ دشمن نے حملہ کر دیا ہے۔ اس نے حلوہ بنوایا۔ ہر خبر کے ساتھ حلوہ بنواتا تھا۔ جب حالات قابو سے باہر ہو گئے‘ تو اس نے گدڑی اوڑھی۔ عصا پکڑا اور یہ کہہ کر چلتا بنا کہ تم جانو‘ تمہارا کام! مرو یا جیو! میں نے تو دو دن حلوہ کھانا تھا!
موت گھر گھر دستک دے رہی ہے! ریاست کی صرف لاتعلقی ہوتی تو اور بات تھی! ریاست تو یوں لگتا ہے حملہ آور کے ساتھ ہے! کوئی پوچھے کہ پارک کھولنے کی اس نازک وقت میں کیا مجبوری تھی؟ یہ جانتے ہوئے کہ عوام کی کثیر تعداد ان پڑھ ہے اور لاپروا! ملنگوں اور مزاروں کے زیر اثر لاکھوں افراد کورونا کے وجود ہی کو تسلیم نہیں کر رہے‘ ایسے میں پابندیاں سخت کرنے کی ضرورت تھی!مگر پارکوں کی کسر رہتی تھی! وہ بھی کھول دیئے گئے!
ایک بے تحاشا آبادی!! دوسرے تعلیم اور تربیت دونوں کی کمی! شدید کمی! نفسیات قوم کی ایسی بن گئی ہے کہ ہر پابندی کو توڑنا ہے۔ ہر قاعدے کی خلاف ورزی کرنی ہے۔ ہر قانون کو پیروں تلے روندنا ہے! شعور کا مکمل فقدان ہے! ان لوگوں کا آپ کیا کریں گے جو ابھی تک سیٹ بیلٹ صرف پولیس کے ڈر سے باندھتے ہیں۔ جو ٹریفک قانون کی فخر سے بے حرمتی کرتے ہیں! بچے کو گود میں بٹھا کر گاڑی ڈرائیو کرتے ہیں!
عید کی شاپنگ لوگوں نے ایسے کی جیسے زندگی کی آخری عید ہے! بازاروں میں کھوے سے کھوا چھلتا رہا! دکانوں پر خلقت ٹوٹ پڑی۔ ایک عید پر نئے کپڑے نہ بنتے تو کون سی قیامت آ جاتی! قیامت آئی مگر نئے ملبوسات خریدنے سے! آج وہ ملبوسات کفن بن کر اپنی قیمت وصول کر رہے ہیں!
اُس سے پہلے کیا ہوا! اُس سے پہلے جب شٹر ڈاؤن تھے تو لالچی دکاندار‘ گاہکوں کو اندر ہانک کر‘ دکان میں لا کر‘ شٹر بند کر دیتے‘ باہر نکالتے وقت شٹر اٹھا دیتے! کس کو دھوکا دے رہے تھے؟ ریاست کو؟ اس میں ریاست کا کیا فائدہ تھا؟ جیسے تاجر ویسے ہی گاہک۔آج جب دوسرے ملکوں میں کورونا کا گراف نیچے جا رہا ہے‘ ہمارے ہاں اوپر جا رہا ہے اور تمام گزشتہ ریکارڈ توڑتا ہوا‘ اوپر جا رہا ہے! موت جو گلی کوچوں میں رقصاں تھی‘ اب گھروں کے دروازے کھٹ کھٹا رہی ہے‘ ریاست لاک ڈاؤن اور سمارٹ لاک ڈاؤن کی موشگافیوں میں الجھ اور الجھا رہی ہے! جب دنیا لاک ڈاؤن کر رہی تھی! ہمارے ہاں کھولنے کے احکام جاری کیے جا رہے تھے۔
یہ ناداں گر گئے سجدے میں جب وقتِ قیام آیا
ریاست کا اولین فرض رعایا کی حفاظت ہے! نہ کہ محاصل اور معیشت! لوگ ہی نہ رہیں گے تو محصول کون دے گا اور معیشت کس کے سہارے کھڑی ہوگی؟ معیشت خلقِ خدا کیلئے ہے‘ خلقِ خدا معیشت کیلئے نہیں ہے! ملک انسانوں سے بنتے ہیں۔ انسان مکھیوں مچھروں کی طرح مر رہے ہوں تو کون سی معیشت! اور کہاں کے محصولات!!
مشیر صحت بتاتے ہیں کہ کورونا سے مرنے والوں میں 74فیصد وہ تھے جو دیگر امراض میں مبتلا تھے۔ یہ اعداد و شمار انہوں نے کہاں سے لئے ہیں؟ ذرا قوم کے ساتھ وہ حساب کتاب شیئر تو فرمائیے جس کی بنیاد پر یہ دعویٰ کر رہے ہیں! عفریت عفریت ہے! اس کا قد گھٹانے کی کوشش مت کیجئے! جو ''دیگر امراض‘‘ میں مبتلا نہیں‘ انہیں ''خود تسکینی‘‘ کا نشہ نہ پلائیے! بازار‘ سیر گاہیں‘ پارک پلازے‘ مال‘ سب کچھ آپ نے کھول دیا۔ رہی سہی کسر یہ کہہ کر نہ نکالیے کہ مرنے والے زیادہ تر بلڈ پریشر اور شوگر کے مریض تھے۔ یہ بیماریاں تو لاکھوں کروڑوں افراد کو لاحق ہیں!اب دوسری کہانی بھی سن لیجیے۔ بادشاہ کو ایسی بیماری لاحق ہوئی جس کا کوئی علاج کارگر نہیں ہو رہا تھا! بالآخر ڈاکٹروں کے بورڈ نے تجویز کیا کہ ایک نوجوان جس کی فلاں فلاں خصوصیات ہوں‘ ڈھونڈا جائے اور اس کے پتّے سے علاج کیا جائے۔ ایسا نوجوان مل گیا۔ ماں باپ کو اشرفیوں کی تھیلی دے کر راضی کر لیا گیا۔ عدالت نے فیصلہ دیا کہ حکمرانِ وقت کی جان بچانے کے لئے یہ ''قربانی‘‘ روا ہے۔ جلاد کے سامنے نوجوان کو لایا گیا تو وہ آسمان کی طرف ہنسا۔ بادشاہ نے پوچھا‘ خوف کے ان لمحات میں بھی ہنس رہے ہو! آخر کیوں؟ اس نے جواب دیا کہ اولاد کے ناز ماں باپ اٹھاتے ہیں۔ انصاف جج کرتا ہے اور حفاظت بادشاہ! یہاں یہ حال ہے کہ ماں باپ نے اشرفیاں لے لیں۔ جج نے نظریۂ ضرورت ایجاد کر لیا رہا بادشاہ! تو اسی کیلئے تو سارا کھیل کھیلا جا رہا ہے! ایسے میں خدا کے سوا کون سا سہارا بچا ہے‘ سو اُس کی طرف دیکھا ہے!کہانی کا انجام کیا ہوا! اسے چھوڑیئے! بس یہ ذہن میں رکھیے کہ آپ کے سر پر بادشاہ ہے نہ ریاست نہ حکومت! حکومت نے آپ کو بتا دیا ہے کہ کورونا نے پھیلنا ہی پھیلنا ہے! حکومت اس معاملے میں کیا کچھ کر سکتی ہے؟ یہ حکومت نے نہیں بتایا! اس کا جواب آپ کو بھی معلوم ہے اور کالم نگار کو بھی! سو‘ منہ آسمان کی طرف اٹھائیے اور پروردگار سے مدد مانگئے۔ کیوں کہ جن پر تکیہ بطور شہری ہونا چاہیے تھا‘ وہ پتے ہوا دے رہے ہیں!
پس جان لو کہ تم بے یارو مددگار ہو۔ جس ریاست کو تمہاری جانوں کی حفاظت تفویض کی گئی ہے‘ وہ ابھی محاصل گِن رہی ہے اور معیشت کی فکر میں ہے! اس معیشت کو اور ان محاصل کو شہریوں کے پتّوں کی ضرورت ہے! اپنے پتّوں کی خود حفاظت کرو! کسی نے تمہاری مدد کو نہیں آنا۔ اگر پارک کھول دیئے گئے ہیں کہ پتّے زیادہ تعداد میں جمع ہو سکیں تو خدا کیلئے پارکوں میں نہ جاؤ! نہ بچوں کو نہ اہلِ خانہ کو جانے دو! تمہارے گھر کی چھت ہی تمہارا پارک ہے! بازاروں‘ پلازوں‘ مالوں اور مارکیٹوں میں نہ جاؤ! ضروریات کو محدود کرو! اگر محلے یا کالونی میں کوئی دکاندار‘ کوئی سٹور‘ سودا آپ کے گھر بھجوانے کو تیار ہے تو جیسا بھی آتا ہے‘ اس پر قناعت کرو! یہ نہ دیکھو کہ بھنڈی تازہ نہیں ہے اور لوبیا سرخ کی جگہ سفید کیوں آ گیا ہے! نزاکتیں‘ نخرے‘ غمزے‘ عشوے بالائے طاق رکھو! تانے شاہ کی طرح اس وقت ناجائز مطالبات نہ کرو! اسے شکایت تھی کہ کمخواب کے گدے کے نیچے‘ پلنگ پر‘ کاغذ کا ایک ٹکڑا تھا جس کی وجہ سے نیند میں خلل آیا۔ یہ بان کی کھردری چارپائی پر لیٹنے کا وقت ہے!اردگرد کے غربا اور مساکین کا خیال رکھئے۔ صدقہ دینے کا یہی وقت ہے! جو حاصل ہے اس پر شکر کیجئے۔ جن کو یہ بھی نہیں میسر‘ ان کی کفالت کیجئے۔ وینٹی لیٹر پر بینک بیلنس کام آتا ہے نہ جائیداد! جو دن سلامتی سے گزر جائے اس پر سجدہ ریز ہو جائیے ۔ابتلا کے اس عرصہ میں جب صرف آپ خود ہی اپنی حفاظت کر رہے ہیں‘ اگر ریاست کہیں‘ کسی سایہ دار درخت کے نیچے‘ پوٹلی پاس رکھے‘ سستاتی نظر آئے تو اُسے کچھ ضرور دیجئے۔ بیچاری مستحق ہے! اس کی پوٹلی میں کچھ محصول ڈال دیجئے۔ اس کی معیشت تاکہ مستحکم ہو جائے۔ اسے آپ کی زندگی سے نہیں‘ آپ کی کمائی سے دلچسپی ہے!
رہی ایس او پی‘ تو اس سے مراد سَن آف پاور ہے! اصل شے پاور ہے! انسانوں پر نہیں تو میتوں ہی پر سہی!!