حکیم شفائی‘ شاہ عباس صفوی کا پرسنل فزیشن تھا‘ اور با کمال شاعر! ایک روایت کے مطابق وہ صائب تبریزی کا استاد بھی تھا! اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ طبابت نے اس کے علم و فضل کو ماند کر ڈالا اور شاعری اس کی طبابت کو پیچھے چھوڑ گئی!
طب اور ادب کا چولی دامن کا ساتھ رہا۔ یہی روایت وسط ایشیا اور ایران و خراسان سے مسلم ہندوستان میں در آئی۔ حکیم مومن خان مومن اس روایت کی درخشاں مثال تھے۔ باپ دادا‘ شاہی اطبا میں شامل تھے۔ مومنؔ نے شاعری بھی کی اور طبابت بھی! اور اس میں کیا شک ہے کہ شاعری کے آگے طبابت ماند پڑ گئی! اپنے تخلص کا بھی خوب خوب استعمال کیا؎
مومنؔ تم اور عشقِ بتاں! اے پیر و مرشد خیر ہے
یہ ذکر اور منہ آپ کا! صاحب! خدا کا نام لو
شفیق الرحمن بھی ڈاکٹر تھے۔ ایسے ڈاکٹر کہ ادب پر چھا گئے اور چھائے رہیں گے! حماقتیں‘ مزید حماقتیں‘ دجلہ! شگوفے! ایک سے ایک بڑھ کر! شیطان‘ روفی اور حکومت آپا جیسے لازوال کردار تخلیق کیے! زبان ایسی کہ ہر عمر کے لوگ پڑھیں اور حظ اٹھائیں!
ہمارے ہم عصروں میں ڈاکٹر آصف فرخی نے ادب میں خوب نام پیدا کیا۔ اعلیٰ پائے کے تراجم کیے۔ ادبی پرچہ نکالا۔ ادبی میلوں کو رواج دیا۔ ایک اور ڈاکٹر‘ وحید احمد نے نظم گوئی میں کیا کیا کمالات دکھائے ہیں۔ ''ہم شاعر ہوتے ہیں‘‘ اور ''خانہ بدوش‘‘ جیسی لازوال نظمیں کہیں۔ شاید ہی شاعری کا کوئی دلدادہ ایسا ہو جس نے ان نظموں کو شوق سے پڑھا اور سنا نہ ہو!
ڈاکٹر ابرار احمد اسی روایت سے وابستہ ہیں! آنکھ‘ ناک اور گلے کے ماہر ڈاکٹر! ان کی ڈاکٹری سے شفا پانے والے مریضوں کو کیا معلوم کہ ڈاکٹر ابرار دل کے ڈاکٹر نہیں‘ مگر شاعری سے دلوں کا علاج کرتے ہیں! وہی بات کہ طبابت شاعری کو پیچھے چھوڑ گئی اور شاعری نے طبابت کو ماند کر ڈالا!
اسّی کی دہائی تھی۔ ڈاکٹر ابرار احمد راولپنڈی کے سول ہسپتال (فوارہ چوک) میں تعینات تھے۔ ڈاکٹر مرزا حامد بیگ گارڈن کالج میں پروفیسری کرتے تھے! اور یہ کالم نگار ایک دفتر میں کلرکی! اچھے زمانے تھے۔ بہم مل بیٹھتے تھے! شاعری اور ادب پر گفتگو ہوتی تھی۔ آج کورونا کی تیز‘ چلچلاتی دھوپ میں وہ زمانے نعمت لگتے ہیں کہ اب تو مل بیٹھنا بھی خواب و خیال ہو گیا؎
وحشت اتنی ہے تو کیوں سائے سے بھی خوف نہ کھائیں
دہشت اتنی ہے تو کیوں شیرِ دلاور نکلے
پھر ڈاکٹر ابرار لاہور آئے اور یہیں کے ہو رہے! کلینک اور شاعری ساتھ ساتھ چل رہی ہیں۔ چنیوٹ کے مردم خیز شہر نے لاہور کو ہمیشہ بہترین افرادی قوت فراہم کی! ابرار کا تعلق بھی چنیوٹ سے ہے! شاہ جہان کے نامی گرامی وزیر اعظم نواب سعد اللہ خان بھی چنیوٹ سے تھے۔ نوجوان شاعر اور بیوروکریٹ شکیل جاذب بھی چنیوٹ ہی کی دین ہیں!
ابرار نے نظم اور غزل دونوں میں نام پیدا کیا ہے؛ تاہم‘ اس فقیر کے نزدیک‘ ان کا ایک بڑا کارنامہ انگریزی میں ادبی کالم نویسی ہے۔ تقریباً دس سال‘ قومی سطح کے معروف انگریزی روزنامہ میں ادبی کالم لکھے۔ یہ معرکہ آرا کالم تھے۔ اردو ادب کا ایک مسئلہ یہ رہا ہے کہ اکثر ادیب اور شاعر انگریزی سے اچھے خاصے فاصلے پر رہے اور اب بھی ہیں۔ لکھنا تو دور کی بات ہے۔ انگریزی ادب براہ راست پڑھنے ہی کی سکت نہیں رکھتے! فرانسیسی‘ روسی‘ ہسپانوی اور دیگر مغربی زبانوں کا ادب بھی ہم تک انگریزی ہی کے ذریعے پہنچا ہے اور پہنچ سکتا ہے! ڈاکٹر ابرار احمد کو انگریزی لکھنے پر قدرت حاصل ہے۔ ان کالموں کو کتابی شکل میں محفوظ رکھنا از بس ضروری ہے۔
پھر ابرار نے ستم ڈھایا کہ انگریزی میں کالم لکھنا چھوڑ دیئے۔ سچ یہ ہے کہ اس کے بعد اُس اخبار کا ہفتہ وار ادبی صفحہ ایسا بے رنگ ہوا کہ ویرانے ہی میں تبدیل ہو گیا۔کبھی کبھی یوں لگتا ہے ابرار غزل کے ساتھ انصاف نہیں کر رہا۔ نظموں کے کئی مجموعے لا چکا۔ ''موہوم کی مہک‘‘ تازہ تصنیف ہے۔ ڈر لگتا ہے کہ نظموں کے اس تلاطم میں غزل گو ابرار چھپ نہ جائے! غزلوں کا مجموعہ ''غفلت کے برابر‘‘ 2007ء میں چھپا‘ اس کے بعد خاموشی ہے! غزل میں اس طرح دار شاعر کا رنگ‘ آہنگ اور ڈھنگ دیکھئے؎
جگہ نہ چھوڑے کہ سیلِ بلا ہے تیز بہت
اڑا پڑا ہی رہے اب جہاں تہاں کوئی ہے
وہ کوئی خدشہ ہے یا وہم‘ خواب ہے کہ خیال
کہ ہو نہ ہو مرے دل! اپنے درمیاں کوئی ہے
وہ راستہ ابھی بھولا نہیں ہے‘ سو یہ فقیر
تُو جب کہے تری جانب رواں دواں ہو گا
یہاں سے اب ہمیں کچھ بھی سجھائی دیتا نہیں
اگر یہ ابر نہیں ہے تو پھر دھواں ہو گا
جو بھی دیکھے اسے میلا کر دے
وہ کہاں چاند سی صورت لے جائے
کام بھی کرنے ہیں پر کیا کیجے
وقت سارا تو یہ فرصت لے جائے
ترے کچھ کام آنا چاہتا ہوں
بالآخر رائیگاں ہونے سے پہلے
نشانی چھوڑ کر جائوں گا کوئی
میں بے نام و نشاں ہونے سے پہلے
مجھے کچھ کام یاد آنے لگے ہیں
تری جانب رواں ہونے سے پہلے
آ بھی گیا تو آرزوئے وصل اب کسے
اب اور بھی انتظار بھی کتنا کریں گے ہم
مارنے والا ہے کوئی کہ ہے مرنے والا
اسی مٹی میں ہے آخر کو اترنے والا
جانے کس چیز کو کہتے ہیں مکافاتِ عمل
اور کرتا ہے‘ کوئی ہے بھرنے والا
چشم و دل کام میں لائو کہ ابھی مہلت ہے
اور کچھ دن میں یہ ساماں ہے بکھرنے والا
ابھی پہلی مصیبت کم نہیں تھی
درِ آفات وا ہونے کو ہے پھر
نہ جانے کون کس کے کام آئے
نہ جانے کیا سے کیا ہونے کو ہے پھر
وہ شام شامِ الم تھی سو اپنی آنکھوں میں
چراغِ خواب جلایا‘ ملال میں نے کیا
سو چکا تھا تہہِ خاک میں جس گھڑی
میرے اندر کوئی جاگتا رہ گیا
سب چراغوں کو بجھنا تھا‘ بجھتے گئے
آنکھ میں ایک جلتا دیا رہ گیا
یہاں مہماں بھی آتے تھے ہوا بھی
بہت پہلے یہ گھر ایسا نہیں تھا
یوں ہی نمٹا دیا ہے جس کو تو نے
وہ قصّہ مختصر ایسا نہیں تھا
ان ڈاکٹروں کو خدا سلامت رکھے۔ دوائوں سے ہمارا جسمانی علاج کرتے ہیں اور ادب سے ہمارا جذباتی علاج! مجید امجد نے اسی لیے دعا کی تھی؎
سدا لکھیں/ انگلیاں یہ/ لکھتی رہیں۔۔۔۔۔۔!