سب سے پہلے پروفیسر صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا''جناب! اس ملک کے دانشور ایک عرصہ سے کہہ رہے ہیں کہ سیاست پر اور اسمبلیوں کی ممبری پر‘ کچھ خاندانوں کی نسل در نسل اجارہ داری چلی آ رہی ہے۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کو بھی سیاست میں آنا چاہیے تاکہ اس خاندانی اجارہ داری کا خاتمہ ہو سکے۔ آپ کی خدمت میں درخواست ہے کہ اپنے صاحبزادے کو سیاست میں لائیں! ہمیں سیاست میں علم و فضل اور نیک نامی کی ضرورت ہے‘‘۔پروفیسر صاحب نے چائے کا کپ محبت سے پیش کیا۔ ان کا جواب واضح تھا''آپ کی پیشکش کا شکریہ! مگر جوڑ توڑ اور عوامی رابطے‘ ہمارے ضمیر میں نہیں! میں نے آکسفورڈ سے پی ایچ ڈی کی اور ساری عمر یونیورسٹی میں پڑھایا۔ اپنے بیٹے کیلئے میں اُس کی پیدائش سے لے کر آج تک ایک ہی خواب دیکھتا آیا ہوں کہ وہ آکسفورڈ یا کیمبرج میں جائے۔ وہاں کی لائبریریوں میں بیٹھے‘ پی ایچ ڈی کرے اور واپس آ کر پروفیسر لگے‘‘۔
پھر میں حضرت مولانا کی خدمت میں حاضر ہوا۔''مولانا! سیاست میں علما کے چند خاندان نسل در نسل چلے آ رہے ہیں! التماس ہے کہ اپنے صاحبزادے کو الیکشن میں حصہ لینے کا حکم دیجئے‘‘۔مولانا قالین پر آلتی پالتی مار کر تشریف فرما تھے۔مہمان نوازی کے طور پر انہوں نے کمال شفقت سے میری پشت پر ایک تکیہ اپنے دستِ مبارک سے رکھا اور فرمایا:''نہیں جناب! میں خود بھی سیاست سے کنارہ کش رہا اور اپنی اولاد کو بھی اس میدان سے دور ہی رکھنا پسند کروں گا! سیاست ہمارے بس کی بات نہیں! میں اپنے بیٹے کو الازہر یونیورسٹی بھیج رہا ہوں۔ وہاں سے فارغ التحصیل ہوکر لوٹے گا تو باپ دادا کی مسندِ ارشاد سنبھالے گا۔ میری خواہش ہے کہ وہ علمِ حدیث کا ماہر بنے!‘‘
پھر میں ایک نیک نام سینئر صحافی کے پاس گیا۔''حضور! آپ کی شہرت بہت اچھی رہی ہے! آپ نے نیک نامی کمائی! وہی لکھا ‘وہی کہا جسے آپ نے سچ سمجھا۔ اچھے کاموں کی تعریف کی! آپ جیسے مخلص‘ بے لوث لوگوں کو سیاست میں آ کر اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ آپ اپنے بیٹے کو بھی صحافت میں بھیج رہے ہیں‘ ہماری درخواست ہے کہ اسے سیاست میں لائیے۔ شہر کا ہر گھر آپ کی شرافت کا قائل ہے‘ وہ انتخابات میں ضرور کامیاب ہوگا!‘‘بزرگ صحافی نے مسکرا کر میری امیدوں پر پانی پھیر دیا۔''عزیزِ من! میں نے صحافت کے کوچے میں زندگی گزاری۔ اہلِ سیاست کو جتنا قریب سے میں نے دیکھا ہے‘ کسی نے نہ دیکھا ہوگا! سچ پوچھیں تو سیاست سے زیادہ مشکل کام کوئی نہیں!الیکشن میں مخالفین آبا و اجداد کی قبریں تک کھود ڈالتے ہیں کہ کوئی نقص ظاہر ہو! ایک ایک محلّے‘ ایک ایک گھر جا کر ووٹ مانگنا آسان نہیں! ہر ایک کے ساتھ چل کر تھانے کچہری جانا میرے بیٹے کے بس کی بات ہی نہیں! پھر اقتدار سے اترنے کے بعد عدالتوں کا سامنا کرنا اور میڈیا میں اپنی پگڑی اچھلنے دینا اہلِ سیاست ہی کا حوصلہ ہے! میں نے یہ بھی دیکھا ہے کہ جن سیاست دانوں نے آبائی جائیدادیں فروخت کر کے اخراجات پورے کیے‘ ان پر بھی خیانت کے الزام لگے! الزام سچ ثابت ہو یا نہ ثابت ہو‘ بدنامی تو ہو جاتی ہے! میرے بیٹے کے خون میں صحافت ہے اور یہی پیشہ اُسے راس آئے گا! میں اسے سیاست کے خارزار میں نہیں دھکیلوں گا!‘‘
یہاں سے مایوس ہو کر اُٹھا اور بیورو کریسی کا رُخ کیا۔ صوبے کے حسابدارِ اعلیٰ (اکاؤنٹنٹ جنرل) کے پاس گیا۔ اتفاق سے چیف کمشنر انکم ٹیکس بھی وہاں بیٹھے تھے۔ ٹیکس اور حسابات کے ٹیکنیکل مسائل پر گفتگو ہو رہی تھی۔ ان کی خدمت میں عرضگزار ہوا۔''آپ دونوں سینئر بیورو کریٹ نے صاف ستھری زندگی گزاری۔ دونوں کے کیریئر بے داغ ہیں۔ ہم موروثی سیاست دانوں سے تنگ آ چکے ہیں۔ آپ حضرات اپنے بچوں کو سیاست میں لائیے‘ نیا خون کچھ کر کے دکھائے گا!‘‘دونوں ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر مسکرائے۔ کمشنر صاحب نے کہا کہ ان کی بیٹی سیاست میں نہیں آ سکتی۔ سیاست میں کوئی عزت نہیں! طعنے ہی طعنے ہیں! وہ باپ کے نقشِ قدم پر چل کر مقابلے کا امتحان دینا چاہتی ہے‘‘ اکاؤنٹنٹ جنرل صاحب نے بھی صاحبزادے کو سیاست کیلئے موزوں نہ قرار دیتے ہوئے بتایا کہ وہ پی ایچ ڈی کرنا چاہتا ہے ‘‘۔
آخری امید علاقے کا وہ نیک نام شریف زمیندار تھا جس کی جاگیر وسیع تھی اور بہت غریب پرور اور شریف النفس انسان تھا۔ وہ اپنے ہاریوں سے محبت کرتا تھا۔ انہیں ان کے حقوق دیتا تھا۔ بیٹے نے ایک بار ایک مزارع کو پیٹا تو اس نے بیٹے کو وارننگ دی کہ آئندہ ایسی حرکت کی تو سبق سکھا دے گا۔ میں نے اُسے آمادہ کرنے کی کوشش کی کہ وہ اپنے خاندان کو سیاست میں لا کر‘ ملک کی خدمت کرے۔ علاقے کو ضرورت ہے کہ وہ اسمبلی میں پہنچ کر پسماندگی کا علاج کرے۔ مگر زمیندار نے کانوں کو ہاتھ لگائے۔''نہیں بابا! میرے جو عزیز‘ سیاست میں دخیل ہیں‘ میں ان کا انجام دیکھ رہا ہوں۔ ووٹر گالیاں دیتے ہیں۔ میڈیا سے وہ خوف کھاتا ہے۔ گزشتہ انتخابات میں اس کے دو کارکن مارے گئے۔ اس نے اپنے حلقے میں ترقیاتی کام کرائے مگر مخالفین نے الزام لگایا کہ اس نے حرام کا مال اکٹھا کیا ہے۔ جب بھی اس کے مخالف اقتدار میں آتے ہیں‘ اسے گرفتار کر لیا جاتا ہے۔ میں سیاست کے دنگل میں کودنے کی استطاعت نہیں رکھتا۔ مجھے اپنی بہو بیٹیوں کی عزت عزیز ہے اور اپنے آباؤ اجداد کے نام کی شہرت!‘‘
میرا دماغ درست ہو چکا تھا! یہ معمہ کہ مخصوص خاندانوں کے افراد ہی انتخابات کیوں لڑتے ہیں‘ حل ہو چکا تھا۔ ہر شخص ہر کام نہیں کر سکتا۔ سروس سیکٹر کے لوگ کاروبار نہیں کر سکتے اور کاروباری خاندانوں میں ایک لاکھ میں ایک ہی شخص پروفیسری یا ڈاکٹری کرتا ہے! گھر کا ماحول بچوں کی اٹھان پر گہرا اثر ڈالتا ہے! سیاست دان کا بیٹا یا بیٹی بچپن سے دیکھ رہے ہوتے ہیں کہ ان کے باپ کو وقت ناوقت لوگ ملنے آتے ہیں کبھی کسی کے ساتھ تھانے جا رہا ہوتا ہے کبھی کسی جرگے میں بیٹھا ہوتا ہے۔ ایک ایک ووٹر کے حسب و نسب کا اسے علم ہے۔ کونسلر سے شروع کیا اور وفاقی اسمبلی تک پہنچا۔ یہ سب کچھ ایک ڈاکٹر‘ بیورو کریٹ‘ عالمِ دین یا ماہرِ تعلیم کے بچوں کیلئے اجنبی دنیا ہے۔ تمام نہیں‘ مگر بہت سے ڈاکٹروں کے بچے ڈاکٹر اور علما کی اولاد عالمِ دین بنتی ہے۔ سرکاری ملازموں کے بیٹے بیٹیاں سرکاری ملازمت کو ترجیح دیتے ہیں‘ رشتے بھی اکثر و بیشتر انہی خاندانوں میں کئے جاتے ہیں جن سے سماجی ہم آہنگی ہو! ایدھی کا بیٹا سوشل ورکر ہے‘ سعد رفیق‘ خواجہ آصف‘ شاہ محمود قریشی‘ عابدہ حسین‘ عمر ایوب خان‘ محمد میاں سومرو‘ بلاول‘ حمزہ شہباز‘ اسفند یار ولی‘ مولانا اسد محمود اور بے شمار دوسرے افراد‘ پیدائش سے اپنے اپنے گھروں میں سیاست دیکھ کر جوان ہوئے۔ سیاست کا میدان ان کا فطری اور قدرتی چناؤ تھا۔ پھر افتادِ طبع پر بھی بہت کچھ منحصر ہے۔ شیخ رشید طالب علمی ہی سے سیاست میں ہیں۔ فردوس عاشق اعوان میڈیکل کالج میں دورانِ تعلیم سٹوڈنٹس یونین میں آئیں۔
ٹیلی ویژن پر ایک انٹرویو یاد آ گیا۔ اینکر پرسن نے ایک سیاست دان کو (غالباً میجر طاہر صادق تھے) الزامی لہجے میں کہا کہ آپ اپنے بیٹے اور صاحبزادی کو بھی الیکشن لڑوا رہے ہیں۔ سیاست دان نے فوراً پوچھا:''کیا آپ الیکشن لڑنے کیلئے تیار ہیں؟‘‘اینکر کا جواب نفی میں تھا۔