یہ ایک عجیب و غریب صورتِ حال ہے، جس میں وفاقی حکومت کا سربراہ ایک صوبے میں جاتا ہے مگر صوبائی حکومت کے سربراہ سے ملاقات نہیں کرتا!
سیاست اور حکومت... جمہوریت میں جڑواں بہنیں ہیں۔ یہاں مخالفت مستقل ہے نہ موافقت! کسی بھی ایشو پر، اختلاف ہو سکتا ہے! مگر کیا اختلاف کا مطلب یہ ہے کہ بچوں کی طرح کُٹی کر لی جائے؟ وزیر اعظم حکومت کے سربراہ ہیں۔ ان کا نمائندہ یا نائب، صوبے کا وزیر اعلیٰ ہے! گورنر نہیں! گورنر تو ریاست کا نمائندہ ہے! حکومت وزیر اعلیٰ چلاتا ہے! اگر وزیر اعظم سندھ جا کر اپنی پارٹی کی کور کمیٹی سے ملتے ہیں اور صرف گورنر سے! اور ان کے پروگرام میں اور تو سب کچھ ہے، صوبائی حکومت کے سربراہ سے ملاقات کا پروگرام نہیں، تو نرم ترین الفاظ میں بھی اسے سیاسی ناپختگی ہی کہیں گے۔
کئی دیگر معاملات میں خود وزیر اعظم کے عمل نے ثابت کیا ہے کہ سیاست میں مخالفت دائمی نہیں ہوتی۔ قاف لیگ کے رہنمائوں اور راولپنڈی کے ایک سیاست دان کے بارے میں اُن کے ریمارکس ریکارڈ پر ہیں جنہیں یہاں نقل کرنا مناسب نہیں! مگر یہی حضرات آج موجودہ حکومت کے اتحادی ہیں! اہم اتحادی!! وزیر اعظم اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اگر وزیر اعلیٰ سے ملاقات کرتے، انہیں طلب ہی کر لیتے اور کورونا سے پیدا شدہ صورت حال پر کچھ سنتے، کچھ سناتے تو وفاق کا بندھن اس سے ضعیف نہیں، قوی ہوتا، گورنر اور ایک وفاقی وزیر... صوبے کی صورت حال پر آخر کتنا کچھ بریف کر سکتے ہیں!
بھارت نے مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے جب اپنے آئین میں ترمیم کر کے بدنیتی اور ظلم کا ارتکاب کیا تو یہ پاکستان کے لیے ایک بہت بڑا ایشو تھا! قوم توقع کر رہی تھی کہ اس موقع پر بھی وزیراعظم اپوزیشن سمیت تمام سیاسی رہنمائوں کو اعتماد میں لیں گے‘ مگر ایسا نہ ہوا۔ اگر وہ ایک آل پارٹیز کانفرنس اس ضمن میں بلاتے تو ان کی نیک نامی میں اضافہ ہوتا۔ حزبِ اختلاف میں سے اگر کوئی ایسی کانفرنس کا بائیکاٹ کرتا، تو اس کی اپنی پوزیشن پر سوالیہ نشان لگتا!
یہ بات تواتر کے ساتھ کہی جا رہی ہے کہ حکومت سنبھالنے کے بعد عمران خان صاحب صرف تحریک انصاف کے سربراہ نہیں، وفاقی حکومت کے بھی سربراہ ہیں! وفاق کی تمام اکائیوں کو ساتھ لے کر چلنا ان کا فرضِ منصبی ہے۔ اگر وہ ان کے پاس جا کر بھی ان سے ملاقات نہیں کریں گے تو یہ اکائیوں کے لیے ایک صحت مند پیغام نہیں ہو گا۔ ریاض مجید کا شعر یاد آ رہا ہے؎
اے زمیں! ہم خاک زادوں سے جدا ہے کس لیے
ہم ترے بچے ہیں، ماں! ہم سے خفا ہے کس لیے
اس کالم نگار کا پیپلز پارٹی سے تعلق ہے نہ مراد علی شاہ سے شناسائی! مگر ابتلا کے اس دور میں سندھ کے وزیر اعلیٰ ایک متحرک اور فعال شخصیت بن کر ابھرے ہیں۔ مخالفت میں بھی بہت کچھ کہا جا سکتا ہے مگر کورونا کے حوالے سے ان کی تشویش اور اقدامات... دونوں... قابلِ ستائش رہے! کاش! اس نازک مرحلے پر وفاق اور صوبوں کے درمیان ہم آہنگی رہتی مگر اے بسا آرزو کہ خاک شدہ! یہاں عوام جس شے کی تمنا کریں وہی عنقا ہو جاتی ہے؎
ہمارے بھاگ میں لکھے گئے ہیں تہہ خانے
کہ آرزو تھی ہمیں صحن میں نکلنے کی
فواد چوہدری کا انٹرویو ایک افق سے نکلا اور دیکھتے ہی دیکھتے دوسرے افق تک چھا گیا! یہاں تک کہ کابینہ کے اجلاس کو بھی اس نے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ وزیر اعظم نے مبینہ طور پر تلقین کی کہ ''معاملات باہر نہ جائیں...‘‘! یہ تلقین دلچسپ ہے! کیا ریاست مدینہ میں حکومت کے سربراہ اپنے مشیروں اور ساتھیوں کو یہی ہدایت دیتے تھے کہ معاملات باہر نہ جائیں؟ یا معاملات شفاف ہوتے تھے۔ کھلی کتاب کی طرح؟ باہر اور اندر کی تفریق نہیں تھی! سوال یہ ہے کہ ایسا کچھ کیا ہی کیوں جائے جسے پردۂ اخفا میں رکھنے کی ضرورت پڑے؟
فواد چودھری صاحب کے انٹرویو سے بہت کچھ چھن کر باہر آیا ہے۔ بنیادی طور پر ان کے دو نکات ایسے ہیں جن سے موجودہ حکومت کے طریق کار (Modus operandi) پر روشنی پڑ رہی ہے۔ اوّل: بہترین لوگوں کو عہدوں پر لگانے کے بجائے کمزور اور ڈکٹیشن لینے والے لوگوں کو لگایا گیا ہے۔ فواد کہتے ہیں ''ہم نے سمجھانے کی بہت کوشش کی لیکن بات نہیں بنی‘‘۔ دوم: سیاسی کلاس آئوٹ ہو گئی اور ان کی جگہ بیورو کریٹس نے لے لی۔
یہ بات کہ عہدوں پر کمزور اور ڈکٹیشن لینے والے لوگوں کو لگایا گیا ہے، کسی دھند کے بغیر، پیش منظر پر صاف دکھائی دے رہی ہے۔ اس ضمن میں اتنا کچھ کہا اور لکھا گیا ہے کہ شاید ہی کسی اور ایشو پر کہا اور لکھا گیا ہو! مگر ع
واں ایک خامشی تری، سب کے جواب میں
کائنات کے جو لا ینحل مسائل ہیں، جیسے انسانی زندگی کی ابتدا کب ہوئی، خاتمہ کب ہو گا، آسٹریلیا، ایشیا سے کب جدا ہوا، اور بہت سے دوسرے، ان میں اب ایک اور لا ینحل مسئلے کا اضافہ ہوا ہے کہ جناب بزدار کو کس بنیاد پر ملک کے آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے کا حکمران بنایا گیا اور یہ کہ وہ کس کی دریافت ہیں؟ سب اپنے اپنے اندازے لگا رہے ہیں۔ ڈور کو سلجھا رہے ہیں اور سرا ملتا نہیں! اندازوں کے ڈانڈے کہاں جا ملتے ہیں؟ اس بارے میں بات نہ کرنا ہی مناسب ہے!
نبض پر جو ہاتھ فواد چوہدری نے بیوروکریسی کی مکمل حاکمیت کے حوالے سے رکھا ہے وہ بالکل صحیح ہے! کہتے ہیں ''ڈاکٹر عشرت حسین 1968ء سے یہ کام کر رہے ہیں۔ انہیں اصلاحات لانا ہوتیں تو پہلے لے آتے...‘‘!
ڈاکٹر عشرت حسین کی اس حکومت میں تعیناتی کے بعد اس کالم نگار نے سب سے پہلے یہی بات کی تھی جو آج فواد چوہدری کر رہے ہیں۔ کالم بھی لکھے۔ ٹی وی پر بھی دہائی دی۔ ڈاکٹر صاحب ذہنی طور پر سول سروس کے اُس خاص گروپ سے باہر نکلے ہی نہیں جس میں چھپن سال پہلے وہ اترے تھے۔ اصلاحات کی جو شکل بھی وہ پیش کریں گے (اگر پیش کی تو) اس میں یہ خاص گروپ ہی غالب رہے گا۔ لمحۂ موجود میں زمینی حقیقت یہ ہے کہ ایک خاص گروپ کے سوا، سول سروس کے تمام گروپ دل شکستہ، نا امید اور آشفتہ حال ہیں۔ اس پر مستزاد یہ کہ حکومت کے سربراہ کو اس زمینی حقیقت کا کوئی اندازہ نہیں کیونکہ ان کے اردگرد اس مخصوص گروہ نے مضبوط حصار بنا رکھا ہے! بیورو کریسی کی جتنی مضبوط گرفت اس عہد میں ہے، گزشتہ ادوار میں شاید ہی اس کی کوئی مثال ہو! اس کی ایک خفیف سی جھلک کل کی اس خبر میں دیکھیے کہ ایک بیوروکریٹ نے مدتِ ملازمت ختم ہونے سے ایک سال پہلے ریٹائرمنٹ لی اور فوراً انہیں صوبائی محتسب کے عہدے پر تعینات کر دیا گیا۔ وجہ ظاہر ہے کہ اگر وہ ایک سال بعد، ریٹائر ہوتے تو یہ آسامی خالی نہ ہوتی! اس خبر کا دردناک حصہ یہ ہے کہ ''صوبائی محتسب لگانے کی منظوری وزیراعظم نے دی‘‘۔ کیا وزیراعظم کو منظوری دیتے وقت پوچھنا نہیں چاہیے تھا کہ اگر اس منصب پر کسی ر یٹائرڈ بیوروکریٹ ہی کو لگنا ہے تو جو افراد اس سال ریٹائر ہوئے ہیں، کیا ان میں کوئی اس کا اہل نہیں؟ کیا قحط الرجال کا یہ عالم ہے کہ ایک خاص فرد کو ایک سال پہلے صرف اس منصب پر مقرر کرنے کے لیے ریٹائر کیا جا رہا ہے؟ کیا اس سے یہ نتیجہ نکالنا غلط ہوگا کہ بیوروکریسی جو کچھ سامنے رکھتی ہے، منظور کر لیا جاتا ہے؟
فواد چوہدری کا یہ انٹرویو چشم کشا ہے! اصل سوال یہ ہے کہ کیا اس سے اصلاح کی کوئی صورت برآمد ہوگی یا صرف یہی نتیجہ نکلے گا کہ ... ''معاملات باہر نہ جائیں‘‘؟