پٹرول کی قیمت میں یکدم پچیس چھبیس روپے فی لٹر کا اضافہ ہو گیا۔ مگر یہ اصل مسئلہ نہیں!
پہلے چینی کے حوالے سے اہلِ خیر نے کروڑوں اربوں کمائے۔ چینی کا ایک بہت بڑا ٹائیکون چارٹرڈ جہاز پر بیٹھ کر ملک سے چلا گیا اور اُس دیار میں پہنچ گیا جو اُس سمیت بہت سوں کے لیے ارضِ موعود (Promised land) ہے۔
پھر پٹرول کی قلت پیدا کی گئی۔ اب قیمت بڑھی ہے تو پٹرول باہر نکلے گا۔ مگر یہ بھی اصل مسئلہ نہیں!
ہمارے مسائل اور نوعیت کے ہیں۔ اہم ترین مسئلہ جو قوم کو آج در پیش ہے‘ یہ ہے کہ اسامہ بن لادن شہید تھا یا نہیں؟ قوم اس مسئلے پر دو واضح گروہوں میں بٹ گئی ہے۔ سوشل میڈیا پر شہید کہنے والے اور نہ کہنے والوں کی بھرمار ہے! وہ تو خدا کا شکر ہے کہ سوشل میڈیا پر دونوں گروہ جسمانی طور پر آمنے سامنے نہیں آ سکتے ورنہ خون کی ندیاں بہہ چکی ہوتیں۔ کسان کا بیٹا جو دوسری جنگ عظیم میں بھرتی ہوا تھا‘ بہت سخت تھا۔ کسان کو معلوم ہوا کہ ہٹلر بھی سخت ہے۔ وہ ڈرا کہ دونوں کا آمنا سامنا ہوا تو کیا بنے گا؟
اس نوع کے مسائل ہم چھیڑتے رہتے ہیں۔ کبھی خود! کبھی کسی کی انگیخت پر! تا کہ پٹرول اور چینی جیسے ایشوز پس منظر ہی میں رہیں! اس سے پہلے ایک صاحب نے ٹیلی ویژن پر اسی نوعیت کا ایک اور مسئلہ چھیڑا تھا۔ اب یہ جو نیا سیاپا اٹھایا گیا ہے! اندیشہ ہے کہ ہفتوں چلے گا!
زندگی اور موت جس پر منحصر ہے‘ وہ ایک اور مسئلہ بھی ان دنوں پیش منظر پر چھایا ہوا ہے! مندر کی تعمیر !! قوم پریشان ہے۔ آدھے اس کے حق میں ہیں۔ آدھے اسے ایمان اور اسلام کے لیے خطرناک قرار دے رہے ہیں! امید واثق ہے کہ یہ قضیّہ بھی ہفتوں نہیں مہینوں چلے گا۔ اس کی آڑ میں پٹرول مافیا بھی شوگر مافیا کی طرح بچ نکلے گا! پھر ایک اور مافیا آ دھمکے گا!
ہماری ذمہ داریوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ پہلے ہم زندگیوں کے ذمہ دار تھے کہ فلاں اگر زندہ ہے تو مسلمان ہے یا نہیں! اب ہم نے ترقی کر لی ہے۔ اب ہم حیات بعد الموت کے بھی ٹھیکیدار ہیں۔ یہ ہم پر منحصر ہے اور یہ ہمارا اختیار ہے کہ کس کو شہادت کا درجہ دیں اور کس کو غیر شہادت کا۔ جسے چاہیں جنت میں بھیجیں اور جسے چاہیں جہنم کا ایندھن قرار دیں!
کورونا کے حوالے سے سازشی نظریات تو دوسرے ملکوں میں بھی چلے مگر شاید ہم واحد ملک ہیں جس نے کورونا کے وجود ہی کو چیلنج کر دیا! اَن پڑھ تو اَن پڑھ‘ اچھے خاصے پڑھے لکھوں نے یہ ماننے سے انکار کر دیا کہ کورونا قسم کا کوئی وائرس یا بیماری موجود ہے! اپنے وجود کو تسلیم کرانے کے لیے کورونا کو کئی پاپڑ بیلنے پڑے۔ لوگ باگ پوچھتے تھے کہ کیا اپنی آنکھوں سے کورونا کا کوئی مریض دیکھا ہے؟ کورونا نے ہر شخص کو مریض دکھا دیئے۔ نہ ماننے والوں کے سامنے جنازوں پر جنازے اٹھے! حفیظ جالندھری نے کہا تھا؎
حفیظ اہلِ زباں کب مانتے تھے
بڑے زوروں سے منوایا گیا ہوں
کورونا نے بھی فتح مندی کے بعد یہی شعر پڑھا ہو گا!
صنعت‘ زراعت‘ درآمدات‘ برآمدات‘ بجٹ‘ گرانی‘ تعلیم‘ زرعی اصلاحات‘ صحت‘ بنیادی حقوق‘ فیصلوں میں غیر معمولی تاخیر‘ محکموں میں سرخ فیتہ‘ یہ مسائل تو ہمیں مسائل لگتے ہی نہیں! بہادری کا یہ عالم ہے کہ یہ سب ایشوز پرِ کاہ کے برابر بھی نہیں! ہمارے مسائل آفاقی‘ مابعد الطبیعاتی اور غیر مرئی ہیں! ایک صاحب نے یہ ایشو چھیڑا کہ اللہ تعالیٰ کواللہ تعالیٰ ہی کہنا چاہیے‘ خدا نہیں کہنا چاہیے۔ چودہ پندہ سو برسوں سے خدا کا لفظ استعمال ہو رہا ہے! بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر! ہر شخص کی زبان پر ہے۔ صدیوں سے خدا حافظ کہا جا رہا ہے!
حکومتوں کے مزے ہیں۔ جو بھی حکومت ہو‘ زرداری صاحب کی‘ میاں صاحبان کی‘ عمران خان کی‘ جنرل ضیاء الحق کی‘ اپنی دُھن میں مست رہتی ہے۔ عوام انہی پریشانیوں میں گرفتار رہتے ہیں جن کی مثالیں ہم نے اوپر دی ہیں!
پائلٹوں کی ایسوسی ایشن نے الگ معاملہ اٹھایا ہوا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ڈیڑھ سو کے لگ بھگ پائلٹوں کے لائسنس کیسے جعلی ہو سکتے ہیں؟ شاہد خاقان عباسی تو خیر خود پارٹی ہیں اس لیے کہ ایک ائیر لائن کے مالک ہیں مگر پالپا کے اس پوائنٹ میں خاصا وزن ہے کہ تشہیر سے پوری دنیا میں بدنامی ہوئی ہے اور غیر ملکی ائیر لائنوں میں کام کرنے والے پاکستانی پائلٹوں کو عجیب نظروں سے دیکھا جائے گا۔ وفاقی وزیر کے بیان کا ردِّ عمل سامنے آنا شروع ہو گیا ہے۔ کئی ملکوں نے پاکستانی پائلٹوں اور انجینئروں کو گرائونڈ کر دیا ہے۔ فہرستیں بن رہی ہیں۔ صاف معلوم ہو رہا ہے کہ پاکستانی پائلٹ اب کہیں بھی قابلِ قبول نہیں ہوں گے۔ اپنی ہی حکومت کا بیان ان کے گلے کا پھندا بن رہا ہے۔ ہونا یہ چاہیے تھا کہ خاموشی سے جعل سازوں کو پکڑ کر سخت سزائیں دی جاتیں۔ تادمِ تحریر‘ نہیں معلوم کہ کسی کو پکڑا بھی گیا ہے یا نہیں! فہرست کی ثقاہت کا یہ حال ہے کہ مبینہ طور پر ان پائلٹوں کے نام بھی شامل ہیں جو دنیا سے رحلت کر چکے۔
ابھی تو یہ بھی معلوم نہیں کہ انجینئرنگ‘ حسابات اور دوسرے شعبوں میں جعلی ڈگری ہولڈر ہیں! ایک سابق وزیر اعلیٰ تو پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ ڈگری ڈگری ہوتی ہے‘ جعلی ہو یا اصلی!!
نیا جھگڑا مغلوں کی تاریخ پر بھی پڑا ہوا ہے۔ پہلے چھ بادشاہوں کا عرصۂ اقتدار ایک سو پچاس سال نہیں‘ ایک سو اکاسی برس ہے۔ یعنی 1526ء سے لے کر 1707ء تک! اس میں سے پندرہ برس سُوری خاندان کے نکال دیں تو یہ عرصہ ایک سو چھیاسٹھ سال رہ جاتا ہے۔ رہا مسئلہ اورنگ زیب کے بعد کا تو اس میں عمران خان اور خواجہ آصف دونوں اپنی اپنی جگہ درست کہہ رہے ہیں‘ وزیر اعظم جب کہتے ہیں کہ اورنگ زیب کے بعد چھ فرماں روا صرف تیرہ برس نکال سکے تو یہ واقعاتی طور پر درست ہے! اورنگ زیب کی وفات (1707ء) کے بعد تیرہ سال 1720ء میں پورے ہوئے۔ ان تیرہ برسوں میں چھ ہی بادشاہ تھے۔ کسی کو تین برس ملے‘ کسی کو تین سو پچاس دن! کسی کو دو سو تریپن دن! کسی کو صرف اٹھانوے دن!
دوسری طرف خواجہ آصف جب کہتے ہیں کہ 1707ء سے لے کر 1857ء تک چودہ (یا تیرہ؟) بادشاہ حکمران رہے‘ وہ بھی صحیح ہے۔ وزیر اعظم نے صرف پہلے تیرہ برس کا ذکر کیا جب کہ خواجہ صاحب کُل ڈیڑھ سو برس کا حساب لگا رہے ہیں! اس معاملے میں کمیشن بٹھانے کی ضرورت نہیں!
ہاں ایک اشکال یہ ابھرا ہے کہ وزیر اعظم ایک طرف کہتے ہیں کہ بادشاہت کی وجہ سے مسلمان پیچھے رہ گیا اور مغرب آگے نکل گیا کیونکہ بادشاہت میں میرٹ نہیں ہوتا۔ مگر اُسی سانس میں وہ پہلے چھ مغل بادشاہوں کی تعریف بھی کرتے ہیں!!
پہلے چھ مغل بادشاہوں نے کمال کیا کہ ان کے سامنے انگریز‘ پرتگالی اور فرانسیسی بحری جہازوں سے اُتر کر ہندوستان کے مغربی‘ مشرقی اور جنوبی ساحلوں پر ''تجارتی‘‘ کوٹھیاں تعمیر کرتے رہے اور ہمارے بادشاہ کبھی تختِ طائوس بنواتے رہے اور کبھی کئی کئی ہفتے تاج پوشی کے جشن مناتے رہے۔ خدا نرم معاملہ کرے اورنگ زیب عالم گیر کے ساتھ! پچیس برس دکن میں گزار دیئے۔ جن مسلمان ریاستوں (بیجا پور‘ گولکنڈہ‘ احمد نگر) نے مرہٹوں کو زیر کر کے رکھا ہوا تھا‘ اُن ریاستوں کو بزعمِ خویش فتح کیا۔ مغل سلطنت ''وسیع تر ‘‘ ہو گئی مگر مرہٹہ جِن بوتل سے نکل آیا۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا‘ ہم سب جانتے ہیں!!