پچاس سال سے ہمیں بتایا جا رہا ہے کہ پیپلز پارٹی میں بھٹو خاندان کا کوئی متبادل نہیں! تیس برس سے یہ سکھایا جا رہا ہے کہ مسلم لیگ میں نواز شریف کا متبادل کوئی نہیں! اب ایک نیا سبق شروع ہوا ہے کہ تحریک انصاف میں وزیراعظم عمران خان کا متبادل کوئی نہیں ہو سکتا۔یہ سبق پڑھانے والے‘ میرے اور آپ جیسے عالی نہیں بڑی بڑی اہم شخصیات ہیں۔
یہ اُس پارٹی کا حال ہے جس نے بزعمِ خود بائیس برس تک سیاست پر خاندانی اجارہ داری کے خلاف جدوجہد کی مگر ربع صدی میں اپنے پارٹی لیڈر کا ایک متبادل تک تیار نہ ہو سکا!
لہو میں دوڑتا پھرتا ہے عجز صدیوں کا
رعیت آج بھی اک بادشاہ مانگتی ہے
ہر بادشاہ کے عہد میں یہی کہا گیا‘ یہی سمجھا گیا‘ یہی سمجھایا گیا کہ ظلِ الٰہی کا متبادل کوئی نہیں! مگر ظلِ الٰہی کے بعد بھی سلطنت چلتی رہی۔ توسیع بھی ہوتی رہی!
پارٹی سسٹم ہم نے جن ملکوں سے لیا‘ کیا ان میں بھی یہ فقرہ سننے میں آتا ہے؟ گزشتہ پچاس برس کے دوران برطانیہ کے پارٹی سسٹم کا مطالعہ کر لیجئے۔ 1974ء میں لیبر پارٹی کے ہیرلڈ ولسن وزیراعظم منتخب ہوئے۔ ان کی وزارتِ عظمیٰ کے دوران‘ ان کے کتنے جاں نثاروں نے دعویٰ کیا کہ لیبر پارٹی میں ان کا متبادل کوئی نہیں؟ دو سال ہی گزرے تھے کہ متبادل مل گیا۔ حکومت لیبر پارٹی ہی کی رہی اور جیمز کیلاہان وزیراعظم بن گئے! آسمان ٹوٹا نہ زمین پھٹی! پارٹی بھی چلتی رہی! ملک بھی چلتا رہا!
پھر کنزر ویٹو پارٹی اقتدار میں آئی۔ مار گریٹ تھیچر وزارتِ عظمیٰ کی گدی پر براجمان ہوئیں۔ انہیں آہنی خاتون کہا جاتا تھا۔ خاندان فیوڈل تھانہ کارخانہ دار! باپ تمباکو فروش تھا۔ ساتھ کریانہ کی دکان بھی تھی۔ پونے بارہ سال وزیراعظم رہیں۔ گزشتہ صدی میں ان کا عہدِ وزارت طویل ترین تھا۔ برطانیہ کی پہلی خاتون وزیراعظم ہونے کا اعزاز بھی انہیں ہی حاصل ہوا۔ کسی ایک نے بھی یہ بڑ نہ ہانکی کہ کنزر ویٹو پارٹی میں ان کا متبادل کوئی نہیں۔ کئی متبادل موجود تھے۔ ان میں سے جان میجر کو منتخب کر لیا گیا۔
زمانے نے ایک ورق اور الٹا۔ کنزر ویٹو انتخابات میں شکست کھا گئے۔ لیبر پارٹی ایک بار پھر فاتح بنی۔ ٹونی بلیئر حکومت کے سربراہ بنے۔ دس سال وزیراعظم رہے! بہت کارنامے سرانجام دیئے۔ تاریخ کی بہت بڑی کامیابی لیبر پارٹی نے انتخابات میں انہی کے زیر قیادت حاصل کی۔ اصلاحات کیں۔ دارالامرا سے کئی پشتینی عمائدین کو نکال باہر کیا۔ اقتصادی ترقی کے مثبت اشاریے حاصل کئے‘ تعلیم اور صحت کے سیکٹرز پر بہت پیسہ خرچ کیا۔ امیگریشن پالیسی کو لبرل کیا۔ جرائم کو کنٹرول کیا۔ مگر ساری کامرانیوں کے باوجود ناگزیر نہ ٹھہرے۔ پارٹی میں متبادل موجود تھا۔ گورڈن براؤن نے قیادت سنبھال لی۔
گزشتہ دس برس سے حکومت کنزر ویٹو پارٹی کے پاس ہے۔ غور کیجئے۔ ایک عشرے میں پارٹی نے ملک کو تین وزیراعظم دیئے۔ چھ برس ڈیوڈ کیمرون وزیراعظم رہے۔ پھر تھریسامے ان کی متبادل ٹھہریں۔ تین برس حکومت چلائی۔ مارگریٹ تھیچر کے بعد یہ دوسری خاتون وزیراعظم تھیں۔ برطانیہ کو یورپی یونین سے نکالنے کا عمل انہی نے آغاز کیا۔ قومی صحت سروس کو بیس ارب پاؤنڈ اضافی رقم دی۔ بیروزگاری کی سطح نیچے لائیں۔ مگر جب پارلیمنٹ نے اہم مسائل کے حوالے سے اختلاف کیا تو استعفیٰ دے دیا۔ کوئی پاؤں پڑا نہ گڑگڑایا کہ مادام آپ کا متبادل کوئی نہیں! آپ کے بغیر پارٹی میں وزارت عظمیٰ سنبھالنے کا اہل کوئی نہیں۔ موجودہ وزیراعظم بورس جانسن ان کے متبادل ٹھہرے۔یہ صرف برطانیہ کی مثالیں تھیں‘ تمام جمہوری ملکوں میں یہی روایت ہے۔ کوئی ناگزیر نہیں! ہر لیڈر کا‘ ہر وزیراعظم کا‘ ہر سیاسی رہنما کا متبادل ہر وقت موجود ہے!
مگر یہ ان ملکوں میں ہوتا ہے جہاں سیاسی جماعتوں کے اندر انتخابات ہوتے ہیں۔ یہ جھرلو انتخابات نہیں ہوتے۔ یہ ایسے انتخابات نہیں ہوتے جن کے نتیجہ میں ہر بار بلاول بھٹو‘ مولانا فضل الرحمن‘ اسفند یار ولی‘ نواز شریف اور عمران خان ہی منتخب ہوں۔ یہ جینوئن الیکشن ہوتے ہیں‘ پارٹیوں کے اندر ان انتخابات میں ارکان کی سیاسی ذہنی اور اخلاقی تربیت کا سامان بھی ہوتاہے۔ یہ دشمنیوں پر بھی منتج نہیں ہوتے۔ 2009ء کا امریکہ کا صدارتی الیکشن دیکھئے۔ ہلیری کلنٹن اور بارک اوبامہ دونوں ڈیمو کریٹک پارٹی کے ممبر تھے۔ دونوں نے آپس میں سخت مقابلہ کیا کہ پارٹی کے صدارتی امیدوار نامزد ہوں۔ ایک ایک ریاست میں پارٹی ارکان نے ووٹ ڈالے۔ اوبامہ جیت گیا۔ یہ نوٹ کیجئے کہ اوبامہ کے جیتنے کے بعد جب ڈیمو کریٹک پارٹی کا قومی کنونشن منعقد ہوا تو ہلیری کلنٹن نے زبردست تقریر کی جس میں اوبامہ کی حمایت کی۔ پھر صدارتی انتخابات میں اوبامہ کی حمایت کیلئے کام بھی کرتی رہی۔ اوبامہ نے صدارتی الیکشن جیتنے کے بعد اسی ہلیری کلنٹن کو‘ جس نے پارٹی کے اندر اوبامہ کا مقابلہ کیا تھا‘ اپنا وزیر خارجہ مقرر کیا!!
ہماری سیاسی جماعتوں کے اندر کبھی بامعنی انتخابات نہیں ہوئے۔ تحریک انصاف سے امید تھی مگر جب 2015-16ء میں پارٹی کے اندر انتخابات ہوئے تو پارٹی کے سربراہ نے اصرار کیا کہ کچھ ارکان منتخب ہوں گے اور کچھ کی وہ نامزدگیاں کریں گے۔ تسنیم نورانی پارٹی کے چیف الیکشن کمشنر تھے۔ انہوں نے استعفیٰ دے دیا۔ اپیل ٹریبونل بنا جس کے چیئرمین جسٹس ریٹائرڈ وجیہہ الدین تھے۔ ان کا فیصلہ یہ تھا کہ جہانگیر ترین اور علیم الدین کو پارٹی سے نکال دیا جائے۔ اس کے ان کے پاس دلائل تھے۔ مگر کسی کی بات نہ مانی گئی۔ حامد خان‘ جسٹس وجیہہ الدین‘ تسلیم نورانی سب پارٹی کو خیر باد کہہ گئے۔ جس فوزیہ قصوری نے بیس سال پارٹی کیلئے کام کیا تھا اس نے بھی ہمت ہار دی اور پارٹی چھوڑ کر چلی گئی۔ رخصت ہوتے وقت فوزیہ نے جو کچھ کہا اس سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ تحریک انصاف میں بھی‘ پیپلز پارٹی‘ جے یو آئی‘ مسلم لیگ‘ اور اے این پی کی طرح‘ لیڈر کا متبادل کیوں نہیں! فوزیہ نے کہا''ہم ایک ادارہ‘ ایک انسٹی ٹیوشن بنانے کیلئے نکلے تھے۔ مگر افسوس! آج جو کچھ ہمارے پاس ہے وہ صرف شخصیت کا بُت ہے۔ یہ انتہائی بدقسمتی کی بات ہے کہ لاکھوں پاکستانیوں کی خواہشات‘ حسرتوں کا ڈھیر بن کر رہ گئی ہیں‘ اگر ہم جیت بھی گئے تو کیا حق پہنچے گا کہ ہم اُس بلند اخلاقی سطح کا دعویٰ کریں جس نے 2011ء میں ہمیں عروج دیا تھا! اب ہمارے پاس صرف سراب رہ گیا ہے۔ یہ سراب تحریک انصاف کی اُس تاجپوشی کا سراب ہے جو پس پردہ بیٹھے ہوئے افراد منا رہے ہیں‘‘۔
اہم شخصیات کا یہ دعویٰ کہ پارٹی میں وزیراعظم کا متبادل کوئی نہیں‘ اس تلخ حقیقت کی تصدیق کر رہا ہے کہ تحریک انصاف محض ایک اور پارٹی کا اضافہ ہے! یہ اُن پارٹیوں سے مختلف نہیں جو پیش منظر پر کئی دہائیوں سے چھائی ہوئی ہیں‘ زرداری‘ بلاول‘ نواز شریف‘ اسفند یار ولی اور مولانا فضل الرحمن کی طرح کا ایک اور لیڈر اُبھرا ہے۔ ان سب کا اپنی اپنی پارٹی میں متبادل کوئی نہیںٖ!ہم ابھی سیاسی پختگی کی اُس منزل سے کوسوں دور ہیں جس میں کوئی شخصیت ناگزیر نہیں ہوتی۔ صرف ادارے ناگزیر ہوتے ہیں جس میں سیاسی جماعتیں بھی مضبوط اداروں کی طرح ہوتی ہیں۔ ان کے لیڈر آتے ہیں۔ اپنا کردار ادا کرتے ہیں اور قیادت‘ اپنے متبادل کو سونپ کر‘ تاریخ میں ایک روشن باب کا اضافہ کر جاتے ہیں! لمحۂ موجود میں ہم اُس منزل کی طرف نہیں بڑھ رہے۔ ہم وہیں ہیں جہاں نصف صدی پہلے کھڑے تھے۔