ابھی سورج طلوع نہیں ہوا تھا۔ خلقِ خدا نے دیکھا کہ آسمان پر سفید رنگ کے حروف ظاہر ہو رہے ہیں۔ یہ ایک اعلان تھا جو سب کو نظر آ رہا تھا۔ اس سے بھی زیادہ حیرت کی بات یہ تھی کہ ہر دیکھنے والے کو یہ اعلان اس کی اپنی زبان میں دکھائی دے رہا تھا۔
اکیسویں صدی میں کیسے کیسے ناقابل یقین واقعات رونما ہو رہے ہیں۔ کیا کسی نے سوچا تھا کہ کورونا دنیا کے پونے آٹھ ارب افراد کو ان کے گھروں میں نظر بند کر دے گا اور لوگ ایک دوسرے سے دور بھاگیں گے۔ یہ محیرالعقول واقعہ بھی، جس کا ذکر کیا جا رہا ہے، اسی اکیسویں صدی کا کرشمہ ہے!
آسمانوں پر لکھا ہوا اعلان یہ تھا کہ تمہاری زندگی میں پچاس سال کا اضافہ کیا جا سکتا ہے! مگر اس کے لیے ایک شرط ہے۔ اپنی زندگی کے خفیہ گوشے چار افراد کو بتا دو۔ نمبر ایک: بیوی یا شوہر، نمبر دو: پڑوسی، نمبر تین: تمہارا افسر، نمبر چار: تمہارا ماتحت۔
کچھ گھنٹے تو لوگ حیرت سے گنگ رہے! پھر انہوں نے سوچا کہ پچاس سال! پوری نصف صدی! سودا بُرا نہیں! ساٹھ سے اوپر والوں نے تو باقاعدہ جشن منائے۔ اس کے بعد ہر ایک نے دل کڑا کیا۔ پہلے بیوی کو اپنے سارے کرتوت، بے وفائیاں، چھپا کر رکھے ہوئے بینک اکائونٹس، سب کچھ بتایا۔ پھر بیوی نے وہ سب کچھ شوہر کو بتایا جو اس سے چھپا کر رکھا ہوا تھا۔ چونکہ مفاد مشترکہ تھا اس لیے دونوں نے حوصلے سے سب کچھ سنا پھر پڑوسیوں کی باری آئی۔ عورتوں نے پڑوسی عورتوں سے اور مردوں نے پڑوسی مردوں سے اپنی اپنی زندگی کے نہفتہ پہلو شیئر کیے۔ سب کچھ بلا کم و کاست بتایا اس لیے کہ معلوم تھا‘ اگر دیانت داری سے راز افشا نہ کیے تو پچاس سال مزید نہیں ملیں گے۔
پھر لوگوں نے دفتروں، کارخانوں، کھیتوں، تعلیمی اداروں، ہسپتالوں، بحری جہازوں، ریلوے سٹیشنوں پر اپنے سینئرز اور اپنے ماتحتوں کو اپنے اپنے کچے چٹھے سنائے۔ کاروبار میں کیا کیا بد دیانتیاں کیں۔ حکومت کو، کمپنی کو، شراکت داروں کو، گاہک کو، سپلائرز کو کیسے کیسے دھوکے دیئے۔ کتنا ناروا مال بنایا۔ ہر ایک کو پچاس سال کا بونس نظر آ رہا تھا۔ سب نے حوصلے، خاموشی اور سنجیدگی سے ایک دوسرے کے چہروں سے نقاب اترتے دیکھے۔
یہ سب دو دن کے اندر ہی ہو گیا۔ کسی نے چانس نہ لیا کہ تاخیر کرے۔ سب نے شرط پوری کر دی۔ نتیجہ ظاہر ہونا شروع ہو گیا۔ اسی اسی، نوے نوے سال کے بوڑھے، بوڑھیاں جو زندہ درگور پڑی تھیں، اٹھ بیٹھیں۔ جو ساٹھ کے پیٹے میں تھے ان میں تیس سال کی توانائی آ گئی۔ عورتوں کے چہروں سے جھریاں صاف ہو گئیں۔ دنیا میں ٹھہرائو آ گیا۔ خوشی کی لہر ایک کنارے سے اٹھی اور دوسرے کنارے تک دلوں کو گرما گئی۔
شروع میں تو سب ایک دوسرے کے رازوں کے حوالے سے یہ سوچ کر خاموش رہے کہ دوسروں کو بھی ان کے بارے میں سب کچھ پتہ ہے مگر چند ماہ ہی گزرے تھے کہ انسانی جبلّتیں عود کر آئیں۔ بدلی ہوئی زندگی کے نتائج ظاہر ہونا شروع ہو گئے۔ صورت حال عجیب و غریب ہو گئی۔ میاں باہر نکلتا تو بیوی چھپ کر تعاقب کرتی۔ بیوی کی باتیں سننے کے لیے شوہر فون ریکارڈ کرتا۔کسی بات پر جھگڑا بڑھتا تو بچوں کے سامنے ایک دوسرے کو طعنے دیتے۔ ماں بچوں کو الگ بٹھا کر باپ کے بارے میں اور باپ الگ بٹھا کر ان کی ماں کے بارے میں بتاتا۔ دونوں غبار نکالتے۔ اس سے بچوں کی نفسیات، خود اعتمادی، والدین کے لیے احترام سب کچھ تہس نہس ہو گیا۔ کچھ بچے برافروختہ ہو کر گھروں سے نکل بھاگے۔ کچھ نے نشہ آور ادویات میں پناہ ڈھونڈی، چڑچڑا پن آ گیا۔ ماں پر اعتماد رہا نہ باپ پر۔ بات بات پر بہن بھائیوں میں لڑائیاں ہونے لگیں۔
پڑوسی عورتوں نے جو کچھ اپنے بارے میں اُگلا تھا، اسے تو بھول گئیں‘ مگر دوسری عورتوں کے بارے میں داستانیں چلانا شروع کر دیں۔ ایک ایک کوچے، ایک ایک محلّے میں کہانیاں عام ہونے لگیں۔ ''اسے دیکھو معزز بنی پھرتی ہے۔ ساس کے ساتھ یہ کیا۔ بہو کو یہ دھوکہ دیا۔ شوہر سے پہ چھپایا‘‘۔ مردوں کا بھی باہر نکلنا دوبھر ہو گیا۔ چوہدری صاحب، ملک صاحب، خان صاحب، راجہ صاحب قدم قدم پر بے عزت ہونے لگے۔ بڑے بڑے عمائدین، مخیر حضرات، کیا مولانا‘ کیا پنڈت سب منہ چھپانے لگے۔
کاروبار رُک گئے۔ کوئی کسی پر اعتبار کرنے کو تیار نہ تھا۔ سب کا ماضی کھلی کتاب کی طرح سامنے تھا۔ قرض دینے کی سکیمیں ختم ہو گئیں۔ صنعت و حرفت کا پہیہ رک گیا۔ زرعی سرگرمیاں ماند پڑنے لگیں۔ طلبہ اساتذہ پر آوازے کسنے لگے۔ افسر ماتحتوں کو طعنے دیتے اور ماتحت افسروں کے کپڑے اتارتے۔ میڈیا میں وزیروں کے خفیہ کارنامے سامنے آنے لگے۔ حکومتیں ناکام ہونے لگیں۔ بین الاقوامی معاہدوں کی ساکھ صفر سے نیچے چلی گئی۔ پھر وارداتیں ہونے لگیں۔ کہیں بیوی میاں کو زہر دے کر موت کے گھاٹ اتار رہی تھی۔ کہیں میاں‘ بیوی اور اس کے رشتہ داروں پر حملے کر رہا تھا۔ سوکنوں نے ایک دوسرے کے گھروں پر چڑھائیاں کر دیں۔ نفرتیں چاروں طرف موت بن کر رقص کرنے لگیں۔ پڑوسی ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو گئے۔ انسان انسان کو کاٹنے لگا۔ اعتبار دنیا میں عنقا ہو گیا۔ اعتماد کا لفظ صرف لغت میں رہ گیا۔
پھر خود کشیاں شروع ہو گئیں۔ بزنس مین، صنعت کار، جاگیر دار، ٹائیکون کوڑی کوڑی کو محتاج ہو گئے۔ کسی نے زہر کھا لیا۔ کوئی پلیٹ فارم سے پٹڑی پر کود گیا۔ کوئی چلتی گاڑی سیدھی سمندر میں لے گیا۔ سیاست دان پبلک کا سامنا کرنے کے بجائے پنکھوں سے لٹک کر جھول گئے۔ شک، عناد، نفرت، قطع کلامی سے زندگیوں میں زہر بھر گیا۔ خواب آور گولیاں کروڑوں کی تعداد میں بکنے لگیں۔ ماہرینِ نفسیات خود پا گل ہو گئے۔ ابھی پچاس برس کا بونس ملے دو سال بھی نہیں ہوئے تھے کہ زندگی ہر ایک کو کھلنے لگی۔ ایک ایک دن کاٹنا عذاب ہو گیا۔ قیامت سے پہلے قیامت آ گئی۔
لوگوں کو احساس ہو گیا اور بدرجۂ اتم احساس ہو گیا کہ یہ گھاٹے کا سودا تھا۔
قدرت جو سمجھانا چاہتی تھی سمجھا چکی تھی۔ یہ جو خالق نے مخلوق کو علمِ غیب نہیں دیا اور پردہ رکھا تو یہی وہ اصل روح ہے جس سے زندگی میں جان ہے۔ عمر کی طوالت نعمت نہیں، عمر میں برکت اصل نعمت ہے۔ جس طرح بدن کی جلد نے انتڑیاں، پھیپھڑے، گردے اور عملِ انہضام چھپا کر رکھا ہے اسی طرح قدرت نے دلوں میں موجود بد نیتی، جھوٹ اور کینہ بھی چھپا دیا ہے تا کہ زندگی کا پہیہ چلتا رہے۔
پھر گرجے، مندر، مسجدیں، عبادت گاہیں انسانوں سے بھر گئیں۔ صدقے، خیراتیں، قربانیاں دی جانے لگیں۔ مخلوق گڑگڑائی۔ روئی کہ قدرت پچاس برس کا بونس واپس لے لے۔ اور اس کے بدلے میں پردہ پوشیاں واپس آ جائیں۔ سب ایک دوسرے کے ماضی کو بھول جائیں۔ بچے ماں باپ کا اور شاگرد اساتذہ کا احترام کرنے لگیں۔ کاروبار چل پڑیں۔ ساکت و جامد دنیا پھر سے رواں ہو جائے۔
جو کچھ نہاں ہے، عیاں ہو جائے تو بیوی، بچے، احباب، کولیگ تو دور کی بات ہے، ماں باپ، سگی اولاد کو نہ برداشت کریں۔ یہ وہی ہے ستّر مائوں سے زیادہ شفیق جو انسان کی ساری خیانتوں، منافقتوں، شقاوتوں، عہد شکنیوں، حیلہ کاریوں اور عیاریوں کے باوجود پردہ پوشی کرتا ہے۔ عزت دیئے رکھتا ہے، رزق فراہم کرتا ہے۔ اور دلوں میں باہمی محبت ڈالتا ہے؎
شکر نعمت ہائی تو، چند انکہ نعمت ہائی تو
عذرِ تقصیراتِ ما، چند انکہ تقصیراتِ ما