فرات کے کنارے مرنے والا کتّا خوش قسمت تھا کہ اس کا کوئی والی وارث تو تھا۔ افسوس! صد افسوس! حیف! صد حیف! محمد قدیر اتنا خوش قسمت نہ تھا۔ وارث وہ پیچھے تین بلکہ چار چھوڑ گیا۔ مگر والی کون تھا؟
احساس پروگرام سے لے کر بے حسی کی گہری دبیز تہہ تک، ''غریبوں‘‘ میں روپیہ تقسیم کرنے کے اعلانات سے لے کر محمد قدیر کی موت تک، بہت کچھ واشگاف ہو گیا۔ ریاست مدینہ کے نام لیوا حکمرانوں کے دور میں بھوک اور ننگ سے ایڑیاں رگڑتا محمد قدیر زہر کھا کر، زمین کے فرش پر، آسمان کی چھت تلے، سو گیا اور کچھ بھی نہ ہوا۔ ؎
نہ مدعی‘ نہ شہادت، حساب پاک ہوا
یہ خونِ خاک نشیناں تھا رزقِ خاک ہوا
بینک زکوٰۃ کاٹتے رہے۔ خیراتی ادارے دستر خوان بچھاتے رہے۔ سینکڑوں، ہزاروں فلاحی تنظیمیں اشتہار بازی کے ذریعے اپنی کارکردگی جتاتی رہیں، مسجدوں میں اذانیں دی جاتی رہیں، جبینیں سجدہ ریز ہوتی رہیں، مسلمانوں کی بستی میں محمد قدیر کی مدد کو کوئی نہ پہنچا۔ عظیم الشان سرکاری مشینری نا کام ہو گئی۔ مملکتِ خداداد کو ریاست مدینہ بنانے کے اعلانات ہوا میں تحلیل ہو گئے۔ دھواں دھار تقریریں بے نتیجہ نکلیں۔ سمارٹ لاک ڈائون محمد قدیر کو لے بیٹھا۔ شکر ہے کہ اس مملکت میں اسے زہر میسر آ گیا۔ نیکو کاروں کے ملک میں اس نے موت کو گلے لگانا بہتر جانا۔ محمد قدیر بچوں کے سکول بیگ بناتا تھا۔ پچاس روپے فی بیگ فروخت کرتا تھا۔ پھر کورونا آیا۔ سکول بند ہو گئے۔ پڑھائیاں آن لائن شروع ہو گئیں۔ بچوں نے بیگ خریدنے بند کر دیئے۔ ڈیمانڈ ختم ہو گئی۔ ڈالر اکائونٹوں میں بچت کی رقمیں جمع کرانے والوں کے دیار میں محمد قدیر کے پاس بچت کی مد میں کچھ نہ تھا۔ نوبت فاقوں تک آ گئی۔ عیدالاضحی کی تاریخوں کا تعین ہو گیا۔ محمد قدیر کا ہاتھ خالی تھا، جیب میں کچھ نہ تھا۔ اس کا گائوں ظفر وال تحصیل کا حصہ تھا۔ تحصیل میں تحصیل دار تھا۔ تھانے دار تھے۔ پٹواری تھے۔ اسسٹنٹ کمشنر بھی ہو گا۔ ان میں سے کسی کو محمد قدیر کے طویل فاقوں کا علم نہ ہوا۔ کیا یہ محمد قدیر کی غلطی تھی کہ اس نے تحصیل کے حاکم کو نہیں بتایا؟ یا یہ حاکم کا فرض تھا کہ اُس تک پہنچتا؟ ریاستِ مدینہ کے والی نے یہ شرط نہیں لگائی تھی کہ کتا مرنے سے پہلے آ کر اُسے اطلاع دے یا کوئی اور آ کر بتائے۔ ریاستِ مدینہ کے والی نے تو سیدھا سادا قانون بتا دیا تھا کہ کتا بھی مر گیا تو وہ جواب دہ ہو گا! افسوس! پوری تحصیل میں کسی اہل کار نے نہ پوچھا کہ محمد قدیر فاقوں پر فاقے کیوں کر رہا ہے اور اب وہ بلال‘ عبدالرحمن اور عائشہ کو لے کر کہاں جا رہا ہے!
جس دن محمد قدیر دو سالہ بلال کو کندھے سے لگا کر اور چار سالہ عبدالرحمن کو دائیں ہاتھ کی انگلی پکڑا کر اور چھ سالہ عائشہ کو بائیں ہاتھ کی انگلی پکڑا کر اپنے نام نہاد گھر سے نکلا تو ملک بھر میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے دفاتر کھلے تھے۔ احساس پروگرام کے مراکز میں بھی کام ہو رہا تھا۔ ظفر وال تحصیل کے سارے سرکاری محکمے کام میں سخت مصروف تھے۔ ان تمام سرکاری محکموں اور ان تمام سرکاری کاموں میں محمد قدیر کی بے روزگاری اور فاقہ کشی کا نوٹس لینے کی کسی کو فرصت نہ تھی۔ محمد قدیر تینوں بچوں کو لے کر چلتا رہا۔ تحصیل ظفر وال نارووال کے ضلع کا حصہ ہے۔ ضلعی ہیڈ کوارٹر میں ضلع کا حاکم بیٹھتا ہے۔ اس کے پاس بہت بڑا، رعب دار، وسیع و عریض دفتر ہے۔ کھڑکیوں پر پردے لگے ہیں۔ قیمتی کرسی درمیان میں میز کے سامنے پڑی ہے۔ سائڈ پر یقینا صوفہ سیٹ بھی پڑا ہو گا۔ باہر دربان ہوتا ہے۔ ضلع کے حاکم کی میز پر کئی قسم کے ٹیلی فون دھرے ہیں۔ افسوس! ان سرکاری ٹیلی فونوں میں سے کسی پر اطلاع نہ آئی کہ محمد قدیر تینوں بچوں کو لے کر کس طرف جا رہا ہے؟ اُس دن ظفر وال کے ڈویژنل ہیڈ کوارٹر گوجرانوالہ میں بھی کمشنر کے دفاتر کھلے تھے۔ گاڑیوں کا ہجوم تھا۔ بڑے صاحب موجود تھے۔ چھ اضلاع کا کمشنر بڑا صاحب نہیں ہو گا تو بھلا اور کون ہو گا۔ چھ اضلاع، چھ اضلاع کے ڈپٹی کمشنر، عظیم الجثّہ سرکاری مشینری، بے کنار اختیارات، اطلاعات کی فراوانی، مگر افسوس! محمد قدیر کی فاقہ کشی اور آخری بے بس، بے کس نقل و حرکت کی اطلاع سے کمشنر بھی بے خبر رہا۔ محمد قدیر نے زہر نکالا۔ خود کھایا۔ بچوں کو کھلایا۔ پھر یہ سب ایک کھلے میدان میں پڑ رہے۔ لوگوں نے دیکھا اور پہچان نہ پائے کہ تین جسم ہیں یا تین لاشیں ہیں۔ وہ لے کر ہسپتال دوڑے۔ راستے میں محمد قدیر، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام اور احساس پروگرام کو سلام کرتا، مر گیا۔ بچے بچ گئے۔
پنجاب حکومت نے تین لاکھ روپے کی خطیر رقم کا وعدہ کیا ہے۔ اندازہ لگائیے! تین یتیم بچّے، ایک بیوہ ان کی ماں! سامنے زندگی کا غیر آباد وسیع و عریض جنگل‘ اور تین لاکھ روپے نصف جن کا ڈیڑھ لاکھ روپے ہوتا ہے!!
قومی سطح کے ایک انگریزی معاصر نے اسی سال، پندرہ جنوری کی اشاعت میں اطلاع دی تھی کہ چیف منسٹر پنجاب کی سرکاری رہائش گاہ کے کمرے کی کھڑکیوں اور دروازوں کے پردوں کا کپڑا پندرہ ہزار روپے فی مربع فٹ پڑا ہے۔ اس تناسب سے اُن دنوں کی گئی تزئین و آرائش کے باقی اخراجات کا اندازہ بہ آسانی لگایا جا سکتا ہے!
یہی روزنامہ بارہ جون 2019ء کو اطلاع دیتا ہے کہ جو بجٹ ایوانِ صدر کے لیے مختص کیا گیا ہے اس کے حساب سے ہر روز کا خرچ دو لاکھ بانوے ہزار روپے ہو گا۔ وزیر اعظم ہائوس کی گھر داری اور سٹاف کے لیے 2019-20ء کے دوران اٹھارہ کروڑ ستائیس لاکھ ساٹھ ہزار روپے کا بجٹ مختص کیا گیا جو تقریباً پانچ لاکھ روپے روزانہ بنتا ہے! لاکھوں کے حساب سے روزانہ کے اس خرچ کو چھوڑئیے۔ یہ سب محمد قدیر سے زیادہ ضرورت مند اور زیادہ مستحق ہیں۔ محمد قدیر تو یوں بھی ایک ایسی عدالت میں پہنچ چکا ہے جہاں ہر قسم کے احساس اور غیر احساس پروگراموں کی پوچھ گچھ باریک بینی سے ہو گی۔ رہے عبدالرحمن، بلال، عائشہ اور ان کی ماں تو ان کے لیے ظفر وال کے شہریوں پر لازم ہے کہ بھلے مانسوں اور شریف، نیک نام لوگوں پر مشتمل ایک کمیٹی بنائیں۔ صاحبانِ استطاعت اس کمیٹی کے قائم کردہ بینک اکائونٹ میں اپنا اپنا حصہ ڈالیں تا کہ بچوں کی تعلیم کے لیے ٹرسٹ قسم کی باڈی بن جائے۔ یہ کالم نگار بھی اپنے جُثے کے مطابق حصّہ ڈالے گا۔
محمد قدیر اگر کسی فلاحی ملک کا باشندہ ہوتا تو جس دن اس کی بے روزگاری شروع ہوئی، اسی دن اسے گزارہ الائونس ہر مہینے ملنا شروع ہو جاتا۔ اسے خود کشی نہ کرنا پڑتی۔ مگر ہم بے روزگاروں کو گزارہ الائونس دینے کے بجائے زیادہ ضروری امور میں مصروف ہیں۔ یہ کون سے ضروری امور ہیں؟ ان کا ذکر نہ کرنا، ذکر کرنے سے بہتر ہے۔ ان ضروری امور میں محمد قدیر کی زندگی شامل نہ تھی۔
کاش وہ دن بھی آئے کہ ہر بیروزگار شخص، ہر بے کس بیوہ، ہر بے سہارا بوڑھا، ہر بے آسرا بچہ ریاست کی کفالت میں اپنے آپ کو محفوظ سمجھے۔ اسے دستِ سوال دراز نہ کرنا پڑے۔ اس کی عزتِ نفس نہ مجروح ہو۔ اسے خود کشی نہ کرنی پڑے۔ یہ جبھی ہو گا جب ہماری ریاست کی ترجیحات بدلیں گی اور وہ قسم قسم کے نام ہٹا کر صرف ایک نام اپنائے گی 'فلاحی ریاست‘۔ یہ ناممکنات میں سے نہیں‘ وسائل موجود ہیں۔