بحث کی بغدادی نسل

داستانوں میں پڑھا اور سنا تھا کہ ایک موسم بغداد میں مناظروں کا تھا۔ دروغ بر گردنِ تاریخ‘ ان مناظروں کا اختتام دست بدست لڑائی پر ہوتا تھا۔ فریقین ایک دوسرے پر پل پڑتے تھے۔ تفصیلات میسر نہیں کہ اُن دنوں پولیس آ کر مداخلت کرتی تھی یا نہیں! پھر اسی موسم میں انکل ہلاکو آئے اور مناظرے‘ مجادلے‘ مناقشے سب ختم ہو گئے۔ انکل ہلاکو نے انکل مستعصم کو اس کے زریں اور نقرئی ظروف پیش کر کے حکم دیا کہ انہیں کھاؤ۔ اس نے پوچھا :یہ تو سونا چاندی ہے‘ کیسے کھاؤں‘ تو ہلاکو نے پوچھا: پھر جمع کیوں کیے تھے؟ اس سے بہتر تھا ہتھیار بنواتے اور سپاہ کو تنخواہ دیتے۔
خیر‘ یہ تو دو انکلز کا باہمی معاملہ تھا ہمیں اس سے کیا‘ ہم تو مناظروں کی بات کر رہے تھے۔ ہمیں سوشل میڈیا نے‘ بالخصوص یوٹیوب نے‘ بُری طرح بے نقاب کر کے رکھ دیا ہے۔ ہم اندر سے کتنے کثیف ہیں‘ کتنے نامعقول ہیں‘ یو ٹیوب نے سب کچا چٹھا کھول کر رکھ دیا ہے۔ یو ٹیوب پر آپ کو بالکل بغدادی نسل کے مناظرے دیکھنے کو ملیں گے۔ پہلے فریقین کتابیں کھول کھول کر دلائل دیتے ہیں‘ پھر آوازیں بلند ہونے لگتی ہیں‘ پھر دونوں طرف کے صاحبان کھڑے ہو جاتے ہیں‘ اور پھر وہی ہوتا ہے جو بغداد میں سینکڑوں سال پہلے ہوا کرتا تھا۔مگر ذرا ٹھہرئیے! اگر آپ یہ سمجھ رہے ہیں کہ صرف مذہبی طبقے آپس میں جھگڑا کرتے ہیں تو آپ ایک سو ایک فی صد غلط ہیں۔ یو ٹیوب کی طرح ٹیلی ویژن کے ٹاک شوز نے بھی ہمیں برہنہ کر دیا ہے۔ سیاست دان تو آپس میں دست و گریبان دیکھے ہی تھے‘ میڈیا کے سربرآوردہ اصحاب بھی گلے کی رگیں پھلاتے اور دہانوں سے جھاگ اگلے نظر آتے ہیں۔کہیں مطالبہ ہو رہا ہے کہ معافی مانگی جائے‘ کہیں دوسرے کو بولنے کا موقع ہی نہیں دیا جا رہا۔ اور یہ کہنا تو اب لاحاصل ہے کہ یہ سب میڈیا کی دنیا میں مطلوب و مقصود ہے۔ جو جتنا شور و غوغا کرے‘ جو جتنا دوسرے کو ہراساں کر کے خاموش کرا لے‘ وہی پروڈیوسروں اور اینکروں کا منظورِ نظر ہے! یہاں تک کہ ایک صاحب جب جوتا لے کر آئے اور سامنے میز پر رکھ دیا تو کسی انتظامیہ نے روکا نہ اینکر نے ٹوکا!
اس صورتحال کا بنیادی سبب کیا ہے؟ یہ کہ ہم بحث کرنے کے فن سے پوری طرح ناواقف ہیں۔ ناواقفیت کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ ہم دعویٰ کرتے وقت ثبوت نہیں پیش کرتے اور دوسرا دعویٰ کرے تو جواب میں جوابی دعویٰ تو داغ دیتے ہیں‘ ثبوت مانگتے ہی نہیں!بڑی بڑی باتیں ہم ثبوت‘حوالے کے بغیر کہہ جاتے ہیں۔ کوئی نہیں پوچھتا کہ اس اطلاع کا منبع کیا ہے؟ ریفرنس کہاں ہے؟ Evidenceکیا ہے؟ اگر ہمیں ثبوت کے ساتھ دعویٰ کرنے کا شعور ہوتا تو ہماری بحث کا رنگ ہی اور ہوتا۔ اس میں جو تم پیزار ہوتی نہ گالیاں! ذاتی حملے نہ طعنے اور کوسنے!
اس رویے کے مظاہر ہماری عملی زندگی میں قدم قدم پر موجود ہیں۔ ایسی ایسی محفلیں دیکھی ہیں کہ ڈاکٹر موجود ہیں۔ خاموش بیٹھے ہیں اور ان کے سامنے مریض کے مرض کی تشخیص دیدہ دلیری سے کی جا رہی ہے‘ دوائیں بھی تجویز کی جا رہی ہیں۔ ڈاکٹر سب کچھ سن کر‘ بے بسی سے مسکرا دیتے ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ وہ کچھ کہیں گے تو وہ جو ڈاکٹر نہیں ہیں‘ ان سے بحث کرنے لگ پڑیں گے۔ ایک دوست آنکھوں کی کسی بیماری میں مبتلا ہو گئے۔ ایک معروف آئی سپیشلسٹ کالم نگار کے دوست تھے۔ ان کے پاس لے گیا۔ چھوٹتے ہی ان صاحب نے ماہرِ امراض چشم سے کہا ''میری آنکھ میں انفیکشن ہے‘‘۔ ڈاکٹر صاحب ہنس پڑے۔ خیر‘ معائنہ ہوا۔ دوا تجویز ہوئی۔ پھر مریض چلا گیا۔ اس کے جانے کے بعد ڈاکٹر صاحب سے کالم نگار نے پوچھا کہ آپ ہنسے کیوں تھے؟ کہنے لگے: ہنسا اس لئے کہ انہوں نے خود ہی فیصلہ کر لیا تھا کہ انفیکشن ہے۔ اس کا کوئی ثبوت ان کے پاس نہیں تھا!
کچھ عرصہ قبل چکوال کے ایک گاؤں میں جو کچھ ہوا‘ اس سے بہت سے لوگ آگاہ ہوں گے۔ بالآخر میڈیا نے پول کھولا کہ اصل حقیقت کیا تھی۔ ہر سنی سنائی بات پر یقین کرنے کا رجحان ہماری ثقافت کا جیسے حصہ ہے۔ سازشی تھیوریوں کے وسیع پیمانے پر پھیلنے کا بھی یہی سبب ہے۔ مشرقی پاکستان کے سیاست دان مولانا بھاشانی ہر بات کا سِرا امریکی سازش تک پہنچاتے تھے۔ لطیفہ ان کے بارے میں یہ مشہور تھا کہ بچے کی ان کے ہاں ولادت ہوئی۔ اُن تک خبر پہنچی تو غیر ارادی طور پر اسے امریکی سازش کا شاخسانہ قرار دیا۔ بغیر ثبوت کے دعویٰ ماننے اور اسے خوب خوب پھیلانے کا مرض پورے برصغیر کو لاحق ہے۔ بنگالی اس حوالے سے ہم سے بھی آگے ہیں۔ لوگ کسی کی پٹائی کر رہے ہوں تو ہر گزرنے والا‘ وجہ یا قصور جانے بغیر کارِ خیر میں شریک ہو جاتا ہے۔ بھارت میں بے شمار لوگوں کو یقینِ کامل ہے کہ گائے پر ہاتھ پھیرنے سے ہائی بلڈ پریشر ٹھیک ہو جاتا ہے۔
کالم نگاروں کو ایسے ''الزامات‘‘ سے آئے دن واسطہ رہتا ہے مثلاً یہ تہمت عام ہے کہ آپ نے فلاں کے بارے میں تو لکھ دیا مگر فلاں کے متعلق آپ نے کبھی کچھ نہیں لکھا۔ کوئی پوچھے کہ کیا آپ نے کالم نگار کے سارے مضامین پڑھے ہیں جو اتنے یقین سے کہہ رہے ہیں؟ مگر ہم بات کرتے ہوئے‘ الزام لگاتے ہوئے‘ اعداد و شمار بتاتے ہوئے سوچتے تک نہیں کہ حوالہ کیا ہے؟ اسی لئے جعلی اعداد و شمار کی منڈی لگی ہوئی ہے۔ جو اعداد و شمار آپ کے مؤقف کی تائید کرتے ہیں‘ جھٹ سے پیش کر دیجئے۔ اپنے پاس سے ''تصنیف‘‘ کر لیں تب بھی چل جائیں گے!
بحث کرتے ہوئے ہماری دوسری کمزوری یہ ہے کہ ہم موضوع کی پابندی نہیں کرتے۔ الزام کا جواب نہیں دیتے۔ جواب میں ایک اور الزام داغ دیتے ہیں۔ جن ملکوں میں بحث کے دوران گالی گلوچ اور مار دھاڑ کا رواج نہیں‘ وہاں فریق مخالف کے دلائل نوٹ کئے جاتے ہیں پھر ان کا نمبر وار جواب دیا جاتا ہے‘ ہمارے ہاں ''فری فار آل‘‘ ہے۔ ایک فریق‘ فرض کیجئے‘ کرپشن کا الزام لگاتا ہے تو فریق ثانی‘ اس کا دفاع نہیں کرتا نہ ثبوت مانگتا ہے بلکہ دوسرے پر کرپشن کا جوابی الزام عائد کرتا ہے۔ یوں الزام در الزام سے ہوتی ہوئی بحث‘ ذاتیات پر آ جاتی ہے۔ پھر عزت اور بے حرمتی کا معاملہ آن پڑتا ہے۔ اس سے اگلا مرحلہ دشنام اور دھول دھپّے کا ہوتا ہے۔تیسرا اور مہلک ترین عارضہ ہمارا یہ ہے کہ ہم اپنی غلطی کا اعتراف نہیں کرتے اور صداقت کا اقرار نہیںکرتے‘ صرف اس لئے کہ ایسا کرنے سے فریقِ مخالف ''جیت‘‘ جائے گا حالانکہ اصل جیت اس کی ہوتی ہے جو اپنی غلطی کو تسلیم کرے اور ناقابلِ تردید حقیقت سے منہ نہ موڑے۔
یہاں انا مجبور کرتی ہے کہ ہم اپنی بات پر اڑے رہیں۔ جوابی الزامات لگائیں۔ خلطِ مبحث کا سہارا لیں اور ایسا ہنگامہ کھڑا کریں کہ سچ نظر سے غائب ہو جائے۔ کل ہی ایک صاحب سے گفتگو ہو رہی تھی۔ عرض کیا کہ صرف دوستی کی بنیاد پر کسی کو اہم شعبے سونپ دینا اصولِ حکمرانی کے خلاف ہے۔ خاص طور پر جب دوست کی اہلیت‘ تجربہ اور کوالی فیکیشن ہی کا علم نہ ہو! جواب انہوں نے یہ دیا کہ فلاں نے ڈاکٹر عاصم کو بھی تو منصب پر بٹھا دیا تھا اور فلاں نے ایک جرمن کو ایک بڑے ادارے کا سربراہ بنا دیا تھا۔ جس بحث کی وہ توقع کر رہے تھے وہ ان کے ہاتھ یوں نہ آئی کہ جواب میں گزشتگان کی یہ غلطیاں‘ یہ جرائم تسلیم کر لئے گئے۔ اب ان کے پاس کہنے کو کچھ نہ تھا مگر اتنی اخلاقی جرأت نہ تھی کہ دوست نوازی کا اعتراف کر لیتے۔
ذہنی بلوغت کی سب سے بڑی گواہی یہ ہے کہ بحث منظم اور پُرمغز ہے یا نہیں! باہمی احترام قائم ہے یا نہیں۔ وگرنہ بغدادی بحث کے تو ہم ماہر ہی ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں