1206ء میں جب محمد غوری کو سوہاوہ کے قریب قتل کیا گیا اور قطب الدین ایبک دہلی میں تخت پر بیٹھا تو ایبک سیدھا آسمان سے نہیں اترا تھا‘ نہ ہی بنگال، تبت یا ہمالہ کی کسی چوٹی سے براہ راست دہلی پر نازل ہوا تھا۔ ایبک پنجاب سے گیا تھا۔ لاہور اس سے پہلے اس کا پایۂ تخت تھا۔ طبقاتِ ناصری کے مطابق محمد غوری کی وفات کے وقت ملتان، سیالکوٹ، لاہور، ترائن، ہانسی، بھیرہ اور پنجاب کے دوسرے علاقوں پر غوریوں کی حکومت تھی۔
اور پنجاب میں یہ چند دن پہلے نہیں آئے تھے۔ 1001ء میں محمود غزنوی نے ہندوستان کا رُخ کیا تھا۔ تیس سال وہ پنجاب اور ملحقہ علاقوں پر حملہ زن رہا۔ اسی وقت سے مسلمانوں کا پنجاب میں آنا جانا، رہنا شروع ہو گیا۔ یہ درست ہے کہ محمود جن علاقوں کو فتح کرتا، ہندو حکمرانوں کو سونپتا جاتا، مگر ظاہر ہے کہ ان ماتحت اور مفتوحہ ہندو علاقوں میں مسلمانوں کو رہنے کی آزادی تھی۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ محمد غوری نے 1175ء میں پنجاب پر حکمرانی کا آغاز کیا تو اس سے پہلے ایک سو ستر ایک سو پچھتر سال سے پنجاب میں مسلمان رہ رہے تھے۔ کبھی حاکم بن کر اور کبھی بااثر کمیونٹی کے طور پر... تو ظاہر ہے کہ ان کی اپنی زبان بھی ہوگی جو مقامی زبان سے مختلف ہوگی۔ یہی زبان، پونے دو سو یا دو سو برس بعد لے کر وہ دہلی میں داخل ہوئے۔ یعنی اردو جو دہلی اور شمالی ہند میں گئی وہ پنجاب سے گئی!
یہ تھیسس اس کالم نگار کا نہیں! نہ کسی ہماشما کا ہے۔ یہ نظریہ حافظ محمود شیرانی نے اپنی شہرۂ آفاق کتاب ''پنجاب میں اردو‘‘ میں پیش کیا تھا۔ اردو کی پیدائش، اردو کے بچپن اور اردو کے شباب پر جو کتابیں آج تک لکھی گئیں، ان میں اس کتاب کا مقام اتنا بلند ہے کہ دیکھنے والوں کے سروں سے دستاریں گر جاتی ہیں۔ اسی کے تتبع میں بعد ازاں ''گجرات میں اردو‘‘ اور ''بنگال میں اردو‘‘ قسم کی تحقیقات سامنے آئیں!
اردو کی پیدائش کا سہرا، پنجاب کے سر پر سجانے والے حافظ محمود شیرانی پنجاب سے نہیں تھے۔ راجستھان سے تھے۔ اور انشا نے جب وجد میں آ کر کہا؎
چھڑا جو قصّہ کہیں رات ہیر رانجھے کا
ہم اہلِ درد کو پنجابیوں نے لوٹ لیا
تو وہ بھی پنجاب سے نہیں تھے۔ دادا ان کے طبیب تھے۔ نجف اشرف سے تشریف لائے تھے۔ انشا بنگال (مرشد آباد) میں پیدا ہوئے اور رہے لکھنٔو اور فیض آباد میں۔ اور افتخار عارف نے اگر کہا ہے کہ دوسرے علاقوں کی نسبت پنجاب میں بہتر شاعری ہو رہی ہے تو افتخار عارف بھی پنجاب سے نہیں ہیں!!
پنجاب اگر اردو کی جنم بھومی ہو سکتا ہے تو یہاں بہتر شاعری بھی ہو سکتی ہے۔ یہ کہہ کر افتخار عارف نے کوئی ایسا گناہ نہیں کیا کہ اسے دل پر لے لیا جائے۔ ہمارے لیے پاکستان کے سارے حصے محترم ہیں۔ خاص طور پر کراچی جو پاکستان کا دل ہے۔ کراچی کے شعرا، سینئر ہیں یا نئی پود کے، سب ہمیں عزیز ہیں اور قابلِ تعظیم ہیں۔ ان سطور کے لکھنے والے پر قمر جمیل ہمیشہ دستِ شفقت رکھے رہے۔ اگر ہم یہ کہیں کہ جون ایلیا اور سلیم احمد کا ثانی کوئی نہیں تو اس میں اہلِ پنجاب کا کوئی اعتراض نہیں ہوگا بلکہ خوشی سے تسلیم کریں گے۔ بالکل اسی طرح اگر یہ کہا جائے کہ پنجاب میں تازہ کاری زیادہ ہے تو پنجاب اہلِ کراچی کا بھی اتنا ہی ہے جتنا خود پنجابیوں کا ہے! یہ تو فخر و انبساط کی باتیں ہیں، کدورت کی نہیں!
جناب نصیر ترابی سے اس فقیر کا تعلق محبت اور احترام کا ہے۔ ہمارے سینئر ہیں اور بے حد واجب الاحترام! ہم نے ہمیشہ ان سے استفادہ کیا اور کرتے رہیں گے۔ ان کا سایہ ہم پر، اور اردو کے تمام نام لیوائوں پر دائم و قائم رہے!
ویسے اگر غور کیا جائے تو اہلِ قلم کی تقسیم علاقوں کے لحاظ سے بے معنی اور سطحی لگتی ہے! بیدل اور غالب، وسط ایشیا کے چشم و چراغ، دلی اور عظیم آباد میں روشن رہے۔
محمد حسین آزاد دہلی میں پیدا ہوئے‘ لاہور میں رہے اور کربلا گامے شاہ لاہور میں آسودۂ خاک ہوئے۔ حالیؔ سالہا سال پنجاب میں رہے۔ انتظار حسین اور ناصر کاظمی پنجاب کے ہو رہے! اسی طرح کراچی کو دیکھ لیجیے۔ مشفق خواجہ سے لے کر ابن انشا تک، پنجاب سے گئے اور کراچی کے ہو کر رہ گئے۔ صغیر ملال سے لے کر صابر ظفر تک بہت سے بڑے بڑے نام پنجاب سے گئے۔ لاہور ہے یا کراچی، ایک ہی گلدستے کے پھول ہیں۔ ہندوستان تقسیم ہوا تو وہی سید، وہی وسط ایشیائی، وہی پختون جو یو پی، بہار اور دکن میں پھیلے ہوئے تھے، پاکستان آئے۔ گویا اپنے اصل کی طرف لوٹے۔جوش ملیح آبادی تھے یا ڈاکٹر ذاکر حسین... پٹھان تھے۔ مومن خان مومن کشمیری النسل تھے!!
بنگال سے لے کر پشاور تک اور ہمالہ کی ترائیوں سے لے کر دریائے کاویری تک... مسلمان اصلاً اور نسلاً ایک دوسرے سے اس قدر جڑے ہوئے ہیں اور باہم یوں پیوست ہیں کہ باپ دکن کا ہے تو ماں شمالی ہند کی اور دادا پنجاب سے ہے تو نانا سوات یا بونیر سے اور رہ پٹنہ میں رہے ہیں! ایک ہی خاندان میں آدھے سُنّی اور آدھے شیعہ! وہ جو کسی بابے نے کہا ہے کہ؎
بنی آدم اعضائی یک دیگر اند
کہ در آفرینش ز یک جوہر اند
کہ بنی آدم ایک دوسرے کے اعضا ہیں اس لیے کہ پیدائش ایک ہی جوہر سے ہوئی ہے۔ تو اس کا اطلاق بدرجۂ اتم برِّصغیر کے مسلمانوں پر ہوتا ہے۔ مفت کے جھگڑے اور برتری یا کمتری کے قصّے!! حالانکہ اصل میں سارے ایک ہیں۔
ادب بالخصوص شاعری میں ادوار آتے ہیں اور جاتے ہیں۔ کبھی کبھی ایسا ضرور ہوتا ہے کہ تواتر کے ساتھ جاندار شاعری زمین کے کسی ایک حصے سے اٹھتی چلی آتی ہے۔ یہ فطری ہے اور قدرتی! آج اگر یہ کہا جائے کہ شمس الرحمن فاروقی‘ وارث علوی‘ فضیل جعفری‘ گوپی چند نارنگ اور شمیم حنفی جیسے بلند پایہ نقاد پاکستان میں نہیں پیدا ہوئے تو اس پر پاکستانی ادیبوں کو کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔ حقائق تسلیم کرنا پڑتے ہیں۔ ہمارے دوست پروفیسر ندیم احمد نے کہ کلکتہ یونیورسٹی میں اردو کے استاد ہیں، غلام عباس پر جو کام کیا وہ پاکستان میں نہیں ہوا۔ افتخار عارف ہندوستان سے آئے تو کراچی میں اترے۔ ہمیشہ کراچی کا ذکر فخر اور اپنائیت سے کرتے ہیں۔ سب کا نام محبت سے لیتے ہیں۔ اس فقیر کی نیازمندی ان کے ساتھ اس زمانے سے ہے جب وہ لندن میں تھے۔
افتخار عارف لکھنٔو اور کراچی سے، اور یہ گنوار، شمال مغربی پنجاب کے ایک قریے سے، ہاں، قدرت نے کشکول میں یہ خیرات ڈالی کہ پدری اور جدی زبان ایک لحاظ سے، فارسی ملی! یوں بزرگوں کے نام سے بھرم قائم ہے۔
افتخار عارف کی ایک عمر پنجاب میں نہیں بھی گزری تو پنجاب کے ساتھ ضرور گزری ہے کہ وفاق پنجاب کی بغل میں ہے۔ پنجاب کے نوجوان بلکہ ادھیڑ عمر شعرا کی بھی اٹھان ان کی آنکھوں کے سامنے ہوئی۔ یوں وہ ان کی تازہ کاری سے واقف بھی ہیں اور گواہ بھی! بہت سوں کی تربیت بھی کی! یہی وہ پس منظر ہے جس میں انہوں نے پنجاب کی ہم عصر شاعری کی تعریف کی! مگر ان کا مقصد ہرگز کسی علاقے کی تنقیص یا تخفیف نہیں تھی! اس طویل عرصۂ رفاقت میں لسانی یا مسلکی یا علاقائی تعصب کم از کم اس کالم نگار نے ان کے نزدیک نہیں دیکھا۔
ہم تو کراچی کے عشاق میں ہیں!ہمیں یہ بھی یقین ہے کہ کراچی اور اہلِ کراچی ہم سے محبت کرتے ہیں۔ یہ محبت ہی ہمارا سرمایہ ہے!