وہ گڑ گائوں سے دہلی جا رہا تھا۔ اسے محسوس ہوا کہ اس کے پک اَپ ٹرک کا تعاقب کیا جا رہا ہے۔ آٹھ دس مشٹنڈے موٹرسائیکلوں اور گاڑیوں پر اس کے پیچھے آ رہے تھے۔ ڈر کے مارے اس نے رفتار تیز کر دی۔صدر بازار پہنچا تھا کہ تعاقب کرنے والوں نے آ لیا۔ گھسیٹ کر نیچے اتارا گیا۔ پھر لوہے کی سلاخوں، ڈنڈوں، لاتوں اور گھونسوں سے مارا گیا‘ یہاں تک کہ جسم زخموں کا ڈھیر بن گیا۔ اس نے بہت منت کی کہ یہ گائے کا نہیں‘ بھینس کا گوشت ہے۔ پک اَپ ٹرک کے مالک طاہر قریشی نے بھی لاکھ بتایا کہ یہ بھینس کا گوشت ہے۔ طاہر قریشی ایک مارکیٹ میں گزشتہ پچاس برس سے بھینس کے گوشت کا کاروبار کر رہا ہے۔ لقمان خان اس وقت ہسپتال میں داخل ہے۔ کئی ہڈیاں فریکچر ہو گئی ہیں۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ گڑ گائوں اور دہلی پولیس نے کیا کیا ہوگا؟ غنڈوں کو پکڑا ہوگا؟ نہیں! انہوں نے غنڈوں کو کچھ نہیں کہا کیوں کہ یہ غنڈے‘ مقدس غنڈے تھے۔ ''گائے کی حفاظت‘‘ کرنے والے گروہ سے تھے۔ پولیس خاموش تماشائی بنی رہی۔ لقمان خان اور طاہر قریشی دونوں پر اعتبار نہ کرتے ہوئے گوشت کو لیبارٹری بھجوا دیا کہ ٹیسٹ کر کے معلوم کیا جائے گوشت گائے کا ہے یا بھینس کا!
یہ ایک لقمان خان اور ایک طاہر قریشی کی کہانی نہیں۔ جب سے گجرات کے قصاب کی حکومت آئی ہے، سینکڑوں مسلمان مارے جا چکے ہیں۔ کبھی ان کے گھر جلائے جاتے ہیں، کبھی پکڑ کر بے رحمی سے قتل کر دیا جاتا ہے، کبھی گھروں سے بے دخل کر دیا جاتا ہے، کبھی کاروبار کو بند کر دیا جاتا ہے اور کبھی انہیں ملازمتوں سے نکال دیا جاتا ہے۔ اس وقت مسلمانوں کیلئے پورا انڈیا مقبوضہ کشمیر بن چکا ہے۔ آسام سے کپورتھلہ تک‘ کہیں مسلمانوں کیلئے انصاف ہے نہ جائے امان! صدیوں سے بھارت میں رہنے والوں سے شہریت کے ثبوت مانگے جا رہے ہیں۔ اسرائیل نے جو رہائشی ڈربے فلسطینیوں کیلئے بنائے ہیں انہی خطوط پر مسلمانوں کو جھونپڑی نما بستیوں میں دھکیلنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ بھارتی مسلمان اس وقت فلسطینیوں اور عراقیوں کی نسبت زیادہ قابلِ رحم حالت میں ہیں تو مبالغہ نہ ہو گا۔ ایک تاریک مستقبل ان کے سامنے خوفناک راکھشس کی صورت کھڑا ہے۔ انکی آئندہ نسلیں گہری کھائی کی طرف ہانکی جا رہی ہیں! ملازمتوں میں ان کا حصہ برائے نام ہے‘ بزنس میں وہ ہندوئوں سے پیچھے تھے، اب زیادہ پیچھے ہیں، مسلمان لڑکیوں کو ملازمت حاصل کرنے کیلئے ہندو نام رکھنا پڑتے ہیں۔ ایک قوم کی پوری نسل شناخت کے بحران کا شکار ہے! ادتیا ناتھ اور امیت شا جیسے متعصب ترین ہندو، منظم طریقے سے مسلمانوں کے خلاف، ایک طویل المیعاد پالیسی پر عمل کر رہے ہیں!
لقمان خان اور طاہر قریشی اگر مسلمان نہ ہوتے، فرض کیجیے، مسیحی ہوتے تو آج کرۂ ارض پر ڈپلومیسی میں ہل چل مچ گئی ہوتی۔ ایک اور مشرقی تیمور بن گیا ہوتا۔ ایک اور جنوبی سوڈان ظہور پذیر ہو چکا ہوتا۔ مگر المیہ یہ ہے کہ یہ مسلمان ہیں‘ اور مسلمانوں کا کوئی والی وارث، کوئی پشتیبان، کوئی محافظ، کوئی ضامن نہیں! جن کے ایک اشارے سے ان کے بخت کا پانسہ پلٹ سکتا ہے، وہ دشمن کے ساتھ مل چکے ہیں۔ وہ مودی کو اعزازات دے رہے ہیں۔ اس کی خوشامدیں کر رہے ہیں۔ ان کے دل کے کسی دور افتادہ گوشے میں بھی بھارتی مسلمانوں کے لیے ہمدردی کے جذبات نہیں ہیں۔ لگتا ہے‘ آنکھیں ماتھوں پر رکھ لی گئی ہیں! خون سفید ہو گئے ہیں! تو کیا امتِ مسلمہ کی پستی اس حد تک پہنچ گئی ہے کہ ان کے نزدیک صنعتی ترقی، تجارت، آئی ٹی کا عروج ہی سب کچھ ہے؟ اخلاقی، مذہبی، عصبیتی، سارے پہلو نظروں سے غائب ہو چکے ہیں؟ اب اس امت کی ترجیحات میں سرفہرست تیل کی فروخت، کارخانوں کا قیام اور مالِ تجارت کی افزودگی ہے؟ اور کچھ نہیں؟
ہماری بدقسمتی کہ جب ایک متحدہ مسلم بلاک کی سب سے زیادہ ضرورت پاکستان کو تھی، مسلمان دو بلاکوں میںتقسیم ہو گئے ہیں۔ یہ تقسیم، بنیادی طور پر، عرب اور غیر عرب کی ہے۔ اسلامی کانفرنس، ایک بلاک کے تابع ہو چکی۔ مشرقِ وسطیٰ کے دو تین بڑے ممالک اس کو دامے، درمے، سخنے کنٹرول کر رہے ہیں۔ اس بلاک کو امریکہ کی اشیر باد حاصل ہے۔ مگر کیا ہم اسے اشیرباد کہہ سکتے ہیں؟ غالباً نہیں! اشیرباد سے زیادہ، یہ ماتحتی ہے اور احکام کی تعمیل ہے۔ بڑے صاحب کا حکم بحرِ اوقیانوس کے اس طرف سے پہنچتا ہے اور عبائیں سرِ تسلیم خم کر لیتی ہیں۔ آج اگر پاکستان اقتصادی طور پر پائی پائی کا محتاج نہ ہوتا، قرضوں میں اس کا بال بال بندھا نہ ہوتا، تیل کی خیرات کا ضرورت مند نہ ہوتا تو نہ صرف دوسرے بلاک میں شامل ہوتا بلکہ اس کی قیادت کرتا۔ اصل بات وہی ہے جو شاعر کہہ چکا ؎
ای زر تو خدا نہ ای ولیکن بخدا
ستّارِ عیوب و قاضی الحاجات
پیسہ خدا تو نہیں مگر خدا کی قسم! عیب بھی چھپاتا ہے اور حاجات بھی پوری کرتا ہے۔
ہم بھارت میں لٹ چکے۔ ہمارا سب کچھ ختم ہونے کو ہے۔ ہمارے شہروں کے نام جو صدیوں سے چلے آ رہے تھے، بدلے جا رہے ہیں۔ ہمیں Main stream سے ہٹا کر، سائیڈ لائن کیا جا رہا ہے۔ ہماری عورتوں کی عصمتیں لوٹی جا رہی ہیں۔ ہمارے بچے قتل کیے جا رہے ہیں۔ ہمارے نوجوانوں کو اٹھایا جا رہا ہے۔ مگر ہم کچھ نہیں کر سکتے۔ ہم صرف نقشے بنا رہے ہیں۔ ہم صرف شاہراہوں کے نام تبدیل کر رہے ہیں۔ رہے دوسرے مسلم ممالک تو ان پر بے نیازی کی چادر تنی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ ایک ماہ کے لیے... صرف ایک ماہ کیلئے پچپن مسلمان ملک اپنے اپنے سفیر بھارت سے واپس بلا لیتے، ایک ماہ کیلئے... صرف ایک ماہ کیلئے پچپن مسلمان ممالک بھارت سے تجارتی تعلقات منقطع کر لیتے۔ مشرقِ وسطیٰ کے ممالک صرف ایک نوٹس بھارت کو دیتے کہ کشمیر کی آئینی حیثیت بحال کرو... ورنہ بھارتیوں کو واپس بھیج رہے ہیں‘ تو بھارت کے مسلمان مضبوط ہو جاتے۔ مودی حکومت کے ہوش ٹھکانے آ جاتے۔ بھارتی مسلمانوں کی نکبت و ذلت کے دن ختم ہو جاتے، مگر اے بسا آرزو کہ خاک شدہ!ع
حمیت نام ہے جس کا گئی تیمور کے گھر سے!
یہ ہو بھی تو کیسے ہو؟ ہم معاشی طاقت ہیں نہ سیاسی قوت! ہمارے لیے کون سٹینڈ لے؟ ہماری تو ترجیحات ہی اور ہیں۔ دوسرے ملکوں کی اسمبلیوں میں اقتصادی، تجارتی اور مالی مسائل پر غور ہوتا ہے، ہماری اسمبلیوں میں اس پر بحث ہو رہی ہے کہ فلاں فرقہ اپنے بزرگوں کے ناموں کے ساتھ یہ لکھے اور یہ نہ لکھے! بال بال قرض میں بندھا ہوا ہے۔ تیل کیلئے کشکول بدست ہیں اور ترجیحات دیکھیے! بحث کس پر ہو رہی ہے؟ چاند کس نے درست اور کس نے غلط دیکھا! یوٹیوب پر فرقہ واریت پوری طرح مسلط ہو چکی ہے۔ واعظین فخر سے کہہ رہے ہیں‘ ہم تو بات ہی اختلافی مسائل پر کرتے ہیں۔ عوام کو الجھایا جا رہا ہے۔ ایک دوسرے سے متنفر کیا جا رہا ہے۔ ان کے سینوں میں عداوتیں کوٹ کوٹ کر بھری جا رہی ہیں۔ لوگوں کو مشتعل کیا جا رہا ہے۔ برافروختہ کیا جا رہا ہے۔ دشنام طرازی عام ہے۔ ناقابلِ بیان گالیاں دی جا رہی ہیں۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ یہ وڈیو کلپ لاکھوں کی تعداد میں سنے جا رہے ہیں۔ پوری قوم کی نفسیات مسخ کی جا رہی ہے۔ ایسے میں کہاں کی اقتصادی ترقی اور کون سی مالی خود کفالت! معاشی سرگرمیاں مفقود ہیں۔ عوام فارغ ہیں۔ کسی کے پاس کرنے کو کوئی کام نہیں۔ دو موٹرسائیکلوں کی ٹکر ہو جائے تو پانچ سو افراد گھنٹوں وہاں کھڑے رہتے ہیں!
اور محض ہم کیا‘ پوری امت کا یہی حال ہے۔ ایسے میں بھارتی مسلمان امید رکھیں تو کس سے؟