صحافی کا لہجہ شائستہ تھا اور مہذب ۔بات وہ دلیل سے کر رہا تھا ۔ شکایت کا لبِ لباب یہ تھا کہ تحصیل ہسپتال میں ایک عرصہ سے گائنی کالوجسٹ کی تعیناتی نہیں ہوئی تھی۔ شہر اور مضافات کے ڈیلیو ری کے کیسز دوسرے شہروں کو لے جانے پڑتے تھے ۔ عوام کو تکلیف تھی اور بے حد تکلیف !
ڈپٹی کمشنر کا جوابی لہجہ سخت تحکمانہ تھا ۔ کئی بار کہا کہ'' میں ڈپٹی کمشنر ہوں ‘‘۔ یہ بھی کہ میں باتیں سننے کا عادی نہیں۔پھر بڑے فخر سے بتایا کہ وہ فلاں شہر سے ہے اس لیے جگتیں بھی مار سکتا ہے۔ اگر آپ کے قیاس کا گھوڑا فیصل آباد کا رخ کر رہا ہے تو باگ کھینچ لیجئے۔ ڈی سی صاحب بہادر نے ایک اور شہر کا نام لیا تھا۔
مقصد کسی کی پگڑی اچھالنا ہوتا تو ڈی سی کا نام بھی لکھا جا سکتا تھا۔ ضلعے کا بھی اور تحصیل کا بھی‘ مگر مقصد صرف یہ ہے کہ اس گلے سڑے نظام کے تعفن کا ذکر کیا جائے۔یہ نظام از کارِ رفتہ ہو چکا ہے ۔ بوسیدہ‘ کھنڈر سے بد تر ‘ نوکر شاہی اس پانی کی طرح ہو چکی ہے جو مدتوں سے کھڑا ہے۔ بدبو کے بھبکے اُٹھ رہے ہیں ‘جو گزرتا ہے ناک پر کپڑا رکھ لیتاہے‘ مگر جن کا فرض اس پانی کو صاف کرنا ہے یا ختم کرنا ہے وہ خود اس پانی کے پروردہ ہیں۔ وہ مسئلہ کیسے حل کریں۔ وہ تو مسئلے کا جزو ہیں۔ عشرت حسینوں‘ ارباب شہزادوں اور اعظم خانوں سے یہ مسئلہ نہیں حل ہو گا ۔ اسے کوئی تعلیم یافتہ سیاست دان ہی حل کرے تو کرے۔
سیاست دان اور نوکر شاہی کے مہرے میں فرق واضح ہے۔ اول: سیاست دان کبھی ایسی ہلکی اور کچی بات نہیں کرے گا کہ میں ضلع ناظم ہوں اور یہ کہ میں باتیں سننے کا عادی نہیں ۔ باتیں سن سن کر ‘ ووٹروں کی جھاڑیں کھا کھا کر ہی تو وہ اس مقام پر پہنچا ہے۔ دوم: ڈپٹی کمشنر یا کمشنر کی طرح اس کا قیام عارضی نہیں کہ دو تین سال کا عرصہ گزارا اور پھر کبھی پلٹ کر نہ آئے۔ سیاست دان نے یہیں جینا ہے یہیں مرنا ہے وہ لوگوں کو ناراض کرنے کا خطرہ نہیں مول لے سکتا۔ اس نے سیاست کرنی ہے۔ ووٹ لینے ہیں‘ عوام کی شکایات دور کرنے کے علاوہ اس کے پاس کوئی متبادل نہیں۔ سوم: اس کے مخالفین اس کی نگرانی کر رہے ہیں اس کی بد دیانتی‘ اس کی نا اہلی‘ اس کی کام چوری ‘ اس کی بد نیتی کو کسی نے معاف نہیں کرنا‘ اس لیے وہ ہر لمحے چوکنا رہتا ہے۔ چہارم: اس کے وژن اور نوکر شاہی کے وژن میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ نوکر شاہی کا رکن اپنے تبادلے اپنی ترقی اپنے باس سے آگے کچھ نہیں سوچ سکتا۔ سیاست دان کی ذہنیت یہ نہیں‘ سیاست دان ایسے کام کرنا چاہتا ہے جس سے یہ واضح ہو جائے کہ اسے عوام کی فکر ہے ۔
اس ملک پر بڑے بڑے ظلم ہوئے مگر ایک بڑا ظلم یہ ہوا کہ ضلع ناظم کی جگہ زمامِ اقتدار دوبارہ نو کر شاہی کے اہلکاروں کو دے دی گئی ۔ ضلعی حکومتوں کا قیام ایک بہت بڑا قدم تھا۔ یہ آگے کا سفر تھا‘ بہت ہی تنگ نظر اور خود نظر تھے وہ صوبائی حکمران جنہوں نے ضلعی حکومتوں کے پودے کو اکھاڑ پھینکا۔ صرف اس لیے کہ ضلع ناظم انہیں سیلوٹ نہیں کرے گا‘ فنڈز مانگے گا‘ یس سر ‘یس سر نہیں کرے گا۔
ایک بات یاد رکھئے کہ آج کی نوکر شاہی انگریز نوکر شاہی سے بد تر ہے۔ انگریز کم از کم اپنے ملک کے لیے تو سراپا ٔاخلاص تھے۔انگریز ڈپٹی کمشنر کو معلوم تھا کہ اس نے چترال یا وانا یا تربت میں مر جانا ہے مگر اس نے زبانیں سیکھیں۔ انصاف کا نظام رائج کیا۔ ہر ضلعے کا گزٹ لکھا ان ضلعیs Gazetteer میں قیام ِپاکستان کے بعد ایک صفحے کا بھی اضافہ نہیں ہوا۔
تحریکِ انصاف کی حکومت دوسرے شعبوں کی طرح نوکر شاہی کے حوالے سے بھی کوئی تبدیلی نہیں لا سکی‘ بلکہ اس شعبے میں اس کی کارکردگی مایوس کن ہے۔ یہاں ہم نے کارکردگی کا لفظ غلط استعمال کیا ہے ‘ کارکردگی تو ہے ہی نہیں۔ رویہ بھی وہی ہے جو دہائیوں سے چلا رہا ہے۔ وہی نوازشیں ہیں۔ جوڑ توڑ والا ‘ اوپر سے ڈور کھنچوانے والا ریٹائر ہوتا ہے تو اسی شام کو دوبارہ نوکری مل جاتی ہے۔ یہی کچھ پہلے بھی ہو رہا تھا۔ نوکر شاہی کے ایک نمائندے کو حال ہی میں ایک سال پہلے ریٹائر کر کے ایک ایسی جگہ لگا دیا گیا جہاںوہ چار سال کرسی پر بیٹھے گا۔ اگر یہ میرٹ ہے تو پھر دوست نوازی اور اقربا پروری کس چڑیا کا نام ہے۔
موجودہ حکومت بیورو کریسی کے حوالے سے ایک انچ کے ہزارویں حصے کے برابر بھی تبدیلی نہیں لا سکی ۔مدتوں سے یہ ہوتا چلا آرہا ہے کہ پرنسپل سیکرٹری برائے وزیر اعظم کسی بڑے شکار پر ہاتھ مارتا ہے۔ تازہ ترین اطلاع کے مطابق ورلڈ بینک کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کی پوسٹ کے لیے نوکر شاہی کے جن چار بااثر نمائندوں کے نام الگ کیے گئے ہیں ان میں سرِ فہرست پھر پرنسپل سیکرٹری ہی کا نام ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت اگر نئی زندگی بخش روایت قائم کرنا چاہتی تو اس گھسی پٹی از کار ِرفتہ تقلید کو ترک کر کے نجی شعبے کی طرف توجہ دیتی۔ یہ کس آسمانی کتاب میں لکھا ہے کہ ایسی پوسٹوں کی دال جوتیوں ہی میں بانٹی جائے ؟ کوئی معیشت دان کیوں نہیں بھیجا جا سکتا ؟ ؟ مالیات کا کوئی پروفیسر ؟ اقتصادیات کا کوئی گُرو؟ لگتا ہے حکومت نوکر شاہی کے سامنے بے بس ہے اور بے اختیار ‘مزے کی بات یہ ہے کہ جو معاونینِ خصوصی نوکر شاہی میں ریفارم لانے کے نام پر لائے گئے وہ بھی اسی کلاس اور اسی کمیونٹی سے تعلق رکھتے ہیں ۔وحید احمد نے ایک نظم لکھی ہے '' علاج بالمثل‘‘۔ اس کی دو سطریں یاد آرہی ہیں:
نشتر زخم لگاتا ہے تو نشتر سے کھلواتا ہوں
سلواتا ہوں
پھنیر نیل اتارتا ہے تو منکے میں رسواتا ہوں
کھنچواتا ہوں
یعنی میرکیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب...
ہماری ترقی کا حال دیکھئے‘ مجہول سے مجہول ملکوں میں بھی مقامی حکومتیں قائم ہیں۔ انتخابات ہوتے ہیں ‘ فنڈز ان کی تحویل میں دیے جاتے ہیں۔ مقامی حزب ِاختلاف انہیں تیر کی طرح سیدھا رکھتی ہے۔ ہمارے حال پر اللہ ہی رحم کرے۔ نئی صدی کا ربع مکمل ہونے میں صرف پانچ برس رہ گئے۔ زمانہ کہاں پہنچ گیا اور ہمارے معززین ‘ ڈپٹی کمشنر سے آج بھی یہ سن رہے ہیں کہ میں ڈپٹی کمشنر ہوں۔ باتیں سننے کا عادی نہیں ہوں۔
چھوٹے سے چھوٹے کام کے لیے بھی لاہور یا پشاور یا کراچی جانا پڑتا ہے اور ایک بار نہیں بار بار جانا پڑتا ہے۔اور یہ بھی آپ دیکھ ہی رہے ہیں کہ دور دور تک اس صورتحال میں تبدیلی کے آثار ہیں نہ امکان ۔ وہ اور ہوتے ہیں‘ بڑے ظرف والے‘ بڑے دل والے ‘ جو اپنے اختیارات دوسروں کو سونپ دیتے ہیں۔ اتھارٹی کو Delegate کرتے ہیں۔ نچلی سطح کے منتخب نمائندوں پر اعتماد کرتے ہیں۔ رہے ہم تو انگریز نے نوکر شاہی کا جو نظام استعمار کا پنجہ مضبوط کرنے کے لیے تین سو سال قبل بنایا تھا اس میں ایک رمق بھر تغیر نہیں لا سکے ... ضمیر جعفری نے کہا تھا:
کلائیو کی یہ بات آئی پسندکہ وہ مر گیا‘مگر کہاں مرا ہے؟ کلائیو تو ہر تحصیل‘ ہر ضلعے میں آج بھی بیٹھا ہے۔
ہم وائسرائے کے عہد میں جی رہے ہیں۔