جب سے یہ تحریر نظر سے گزری ہے دماغ شل ہو رہا ہے۔ ہاتھ پیر کانپ رہے ہیں۔ ذاتی پسند کے امرا کو گلوری فائی کرنے کے لیے اب ہم اپنے قومی ہیروز کی تنقیص اور تضحیک پر اتر آئے ہیں۔ بار بار یہ شعر زبان پر آرہا ہے:
بسی نادیدنی را دیدہ ام من
مرا ای کاشکی مادر نہ زادی
کہ کیا کچھ دیکھنا پڑ رہا ہے‘ اس سے بہتر تھا پیدا ہی نہ ہوتے
ہمارے ایک دوست نے دعویٰ کیا ہے کہ علامہ اقبال نے عمرِ عزیز کا بڑا حصہ ایک بنیان اور ایک تہبند میں گزار دیا۔ ثبوت اس دعوے کا یہ دیا ہے کہ ڈاکٹر جاوید اقبال کہتے ہیں کہ انہوں نے بچپن میں اقبال کو صرف دو بار گھر میں کپڑے بدلتے دیکھا۔ ایک دفعہ عید پر اور ایک اُس وقت جب قائد اعظم ان سے ملنے تشریف لائے۔
دعوے تو علامہ کی تنقیص کی خاطر ایک دو اور بھی کیے گئے ہیں مگر پہلے کپڑے بدلنے کے سلسلے میں حقائق پر نظر ڈال لیتے ہیں۔
اقبال کے فرزند گرامی جاوید اقبال 1924 میں پیدا ہوئے۔ علامہ کی عمر اس وقت 47 سال تھی۔ شروع کے کم از کم تین برس نکال دیجیے۔ اس کے بعد ہی کے مشاہدات یاد رکھے جا سکتے ہیں۔ گویا ڈاکٹر جاوید اقبال کو علامہ کے آخری گیارہ برس ہی کے واقعات یاد رہے ہوں گے۔ 1928 میں جاوید اقبال چار سال کے تھے۔ آئیے 1928 اور 1929 کے دوران علامہ کی مصروفیات پر ایک اجمالی نظر ڈالتے ہیں:
22 فروری‘ پنجاب کونسل کے اجلاس میں تقریر۔23 فروری کو بھی پنجاب کونسل میں تقریر۔4 مارچ‘ انجمن حمایت اسلام کے اجلاس میں رکن سب کمیٹی تعلیم کی حیثیت سے شرکت۔8 اپریل‘ انجمن کے سالانہ جلسے میں انگریزی میں لیکچر۔ اسی سال دہلی اور شملہ تشریف لے گئے۔ ستمبر کے دوسرے ہفتے شملہ کا ایک اور سفر۔5 نومبر‘ سائمن کمیشن سے ملاقات۔ نومبر ہی کے دوران اوریئنٹل کانفرنس لاہور میں انگریزی میں مقالہ پیش کیا۔9 دسمبر‘ انجمن حمایت اسلام کی نصاب کمیٹی میں شرکت۔ 29 دسمبر‘ دہلی میں آل پارٹیز مسلم کانفرنس کے چار روزہ اجلاس میں تقریر فرمائی۔ دسمبر ہی میں وائی ایم سی اے میں ڈاکٹر سیموئل کے لیکچر میں شرکت۔ دوسرے روز نواب ذوالفقار علی خان کے ہاں دعوت میں شرکت۔ انہی دنوں انجمن اسلامیہ سیالکوٹ کے سالانہ جلسہ کی صدارت۔ سال کے آخر میں طبی کانفرنس کی صدارت۔2 جنوری 1929‘ روانگی برائے مدراس۔ 3 جنوری‘ بمبئی میں چائے کی دعوت۔ 5 جنوری‘ گوکھلے ہال مدراس میں پہلا لیکچر۔6 جنوری‘ مدرسہ جمالیہ میں تقریر۔ 7 جنوری‘ گوکھلے ہال میں لیکچر۔ اسی روز انجمن خواتین اسلام مدراس کی طرف سے استقبالیہ میں تقریر۔8 جنوری‘ مدراس سے بنگلور روانگی۔ دس جنوری میسور آمد۔ اسی دوران سلطان ٹیپو کے مزار پر حاضری اور گریہ۔ 13جنوری‘ روانگی برائے حیدرآباد دکن۔ اس دوران حیدر آباد میں آپ کے اعزاز میں کئی تقاریب منعقد کی گئیں۔ 18 جنوری‘ حضور نظام سے ملاقات۔4 مارچ‘ پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں بجٹ پر تقریر۔ 7 مارچ‘ بجٹ پر دوسری تقریر۔14 اپریل‘ انجمن حمایت اسلام کے سالانہ اجلاس میں مقالہ پیش کیا۔ 2 جون‘ انجمن کی کالج کمیٹی میں شرکت۔23 جون‘ انجمن کے جنرل کونسل اجلاس میں شرکت۔28 جولائی‘ شملہ میں موجودگی۔ 5 ستمبر‘ علامہ نے لاہور کی چھ علمی شخصیات کو گھر پر مدعو کیا۔ 7 ستمبر‘ بیرون دہلی دروازہ فلسطین کی حمایت میں منعقد کیے گئے بہت بڑے جلسے کی صدارت فرمائی۔ 25 ستمبر‘ مولوی سید میر حسن کی وفات پر روانگی برائے سیالکوٹ۔ انہی دنوں جنرل نادر خان افغانستان جاتے ہوئے لاہور ریلوے سٹیشن سے گزرے تو علامہ نے ان سے ملاقات فرمائی۔ 17 نومبر‘ روانگی برائے علی گڑھ یونیورسٹی۔23 نومبر‘ علیگڑھ یونیورسٹی میں تقریر۔ اس دوران علیگڑھ کے سٹریچی ہال میں چھ خطبات دیے۔ 19 دسمبر‘ برکت علی اسلامیہ ہال کے جلسہ میں سائمن کمیشن کے متعلق تقریر۔ اسی سال لاہور میں آل انڈیا اوریئنٹل کانفرنس کے متعدد اجلاسوں کی صدارت فرمائی۔
یہ وہ عرصہ ہے جب علامہ کی صحت کا گراف نیچے جا رہا تھا۔ اس سے قیاس کیجیے کہ اس سے پہلے کے برسوں کا کیا عالم ہو گا۔ حقیقت یہ ہے کہ علامہ نے ایک بھرپور زندگی گزاری۔ لاہور کی سیاسی، علمی اور ثقافتی زندگی کے وہ روح رواں تھے۔ برصغیر کے کئی شہروں کئی یونیورسٹیوں‘ کئی اداروں میں آپ نے تقریریں فرمائیں‘ خطبات دیے‘ نصاب کمیٹیوں کے فعال رکن رہے‘ سنڈیکیٹس کے اجلاسوں میں کردار ادا کیا‘ وکالت کی۔ کیا یہ سب کچھ وہ بنیان اور تہبند پہن کر کرتے تھے؟ خدا کا خوف کیجیے۔ لندن سے بیرسٹری کی۔ تب بیرسٹری کی سند دیتے وقت امیدوار کی سوشل لائف، اس کا لباس، عشائیوں میں شرکت وغیرہ بہت کچھ دیکھا جاتا تھا۔
برصغیر کے مسلمانوں کے لیے علامہ کا وجود ایک بہت بڑی نعمت تھا۔ ان کے شیدائی ہر وقت ان کے قرب کے متلاشی رہتے تھے۔ مدراس سے لے کر کشمیر تک اور پٹنہ سے لے کر کابل تک ہر شہر اور ہر تنظیم ان سے وقت کا تقاضا کرتی تھی۔ یہاں تک کہ اپنے عقیدت مندوں کے تمام مطالبات تسلیم کرنا ان کی انتہائی مصروف زندگی کے لیے ممکن ہی نہ تھا۔ وہ صرف فلسفے اور تفکر کے انسان نہ تھے‘ عملی زندگی میں بے حد متحرک، سوشل اور بزم آرا تھے۔ لاہور میں جتنی آم (مینگو) پارٹیاں منعقد ہوتی تھیں‘ ان میں اکثر کو علامہ اپنی شرکت کا اعزاز بخشتے تھے۔ شادیوں کی تقاریب میں شامل ہوتے تھے۔ جنازوں میں جاتے تھے۔ احباب اور اعزہ کی تعزیتوں کے لیے تشریف لے جاتے تھے۔
جہاں تک فرزندِ اقبال کے ریمارک کا تعلق ہے تو ان کا احترام اپنی جگہ مگر خرم شفیق کی تصنیف دیکھ لیجیے۔ ان سے واقعاتی اغلاط کا صدور ثابت شدہ ہے۔ رہی یہ نکتہ آفرینی کہ علامہ نے چند دن کوچۂ سیاست میں گزارے اور جان لیا کہ وہ اس کے لیے پیدا نہیں ہوئے‘ واقعاتی لحاظ سے غلط ہے۔ علامہ نے سیاست میں بالخصوص پنجاب کی سیاست میں بھرپور حصہ لیا۔ مسلمانوں کی ہر معاملے میں رہنمائی کی۔ قائد اعظم کا انتخاب انہوں نے اس لیے نہیں کیاکہ سیاست علامہ کے بس کی بات نہیں تھی بلکہ اس لیے کہ وہ انہیں مسلمانوں کی قیادت کے لیے موزوں ترین شخصیت سمجھتے تھے۔
آپ کی ممدوحہ کے متعلق بہت کچھ کہا جا سکتا ہے مگر اقدار مانع ہیں۔ صرف اتنی گزارش ہے کہ اپنی پسند اور اپنے معیار کی شخصیات کی سطح پر قائد اعظم اور اقبال کو نیچے نہ اتاریے۔ آپ کو پورا حق حاصل ہے کہ جسے بھی کشتی کا کھیون ہار سمجھتے ہیں اس کی تعریف کیجیے‘ اور پرچار بھی‘ ہم اس بحث میں نہیں پڑتے کہ آپ کی پسند ہمارے نزدیک درست ہے یا غلط۔ پسندیدگی کے محرکات کیا ہیں؟ ہم اس میں بھی نہیں پڑتے ۔ سیاست میں آرا ہمیشہ مختلف اور متحارب رہی ہیں۔ اس میں کوئی برائی نہیں مگر جب بھی کوئی اپنی مقصد براری کے لیے قائد اعظم یا اقبال کو اس سطح پر نیچے لائے گا تو ہم خاموش نہیں بیٹھیں گے۔ اس عاجز سے خدانخواستہ ایسی جسارت کا صدور ہو جاتا تو روحِ اقبال سے اور محبانِ اقبال سے غیر مشروط معافی مانگ لیتا۔
کھنچیں میر تجھ ہی سے یہ خواریاں
نہ بھائی ہماری تو قدرت نہیں
( علامہ کی مصروفیات کے ضمن میں مندرجہ ذیل کتب سے استفادہ کیا گیا: حیات اقبال ہر دو حصے از ڈاکٹر سید سلطان محمود حسین۔ اقبال کی منزل از خرم علی شفیق)