چھیالیس برس سے ایبٹ آباد میں آنا جانا ہے۔ ہر کوچہ ‘ہر بازار ‘ ہر گوشہ جانا پہچانا ہے۔بچوں کی پرورش ایک لحاظ سے یہیں ہوئی۔ اب ان کے بچے بھی یہاں کے سبزہ زاروں ‘کوہساروں ‘رہگزاروں اور بازاروں سے شناسا ہیں۔ ایک ایسا شہر جو دامنِ دل پکڑ لے تو چھوڑتا نہیں۔ کئی بار یہاں بس جانے کا سوچا مگر آہ ! علائق جنہیں چھوڑا نہ جا سکا اور آہ ! زنجیریں جو توڑی نہ جا سکیں ! تاہم جب بھی دل پر یاس طاری ہوتی ہے پاؤں ایبٹ آباد کی طرف بڑھنے لگتے ہیں۔
غم ِغریبی و غربت چو بر نمی تابم
بشہرِ خود روم و شہریار خود باشم
غریب الوطنی کا غم جب برداشت سے باہر ہو جائے تو اس اپنے شہر میں آجاتا ہوں اور اپنا مالک خود ہو جاتا ہوں۔
ایبٹ آباد شہروں میں ایک شہر ہے۔کوہسار اس کے گرد فصیل باندھے کھڑے ہیں۔ہوا اس کی خنک ہے۔ فضا اس کی عطر بیز ہے۔ بادل اس کے بادل نہیں پانیوں سے بھرے مشکیزے ہیں جو پیاسوں کا امتحان نہیں لیتے۔ درخت اس کے سبز اور گھنیرے ہیں۔باشندے یہاں کے نرم خو اور کشادہ جبیں ہیں۔ بات کریں تو اپنے اپنے سے لگتے ہیں۔مغربی حاشیے پر شملہ پہاڑی ہے جس پر ہائیکنگ بچوں اور بڑوں کے لیے یکساں سہل ہے۔ شمال مشرق میں ٹھنڈیانی ہے جو کوہ مری کی سگی دختر نیک اختر ہے۔ کیسی دل نواز چوٹی ہے! بادل آپ کے سینے سے لگ کر ماتھا چومتے ہوئے آگے گزرجاتے ہیں اور ارد گرد نمی چھوڑ جاتے ہیں۔ نمی! جس کا اصل مقام آنکھوں میں ہے۔
ایبٹ آباد گیٹ وے ہے۔ جو شمال کے دیاروں کی طرف کھلتا ہے۔ بلتستان کے تاکستانوں اور ہنزہ کے سیب زاروں کی طرف راستے یہیں سے جاتے ہیں۔ یہیں سے قافلے ختن کاشغر‘ بشکیک اور خجند روانہ ہوتے ہیں۔کوہ پیما دنیا بھر سے آتے ہیں اور ایبٹ آباد ہی سے ہو کر ان چوٹیوں کو سر کرنے نکلتے ہیں جو شہزادیوں کی طرح آسماں بوس فضاؤں میں کھڑی ہیں۔ آپ نے دیوسائی کے میدان میں ان پھولوں سے نظر بازی کرنی ہے جن کی عمر چند ہفتوں سے زیادہ نہیں ہوتی ‘ یا شِگر میں پولو کا میچ دیکھنا ہے ‘ ہاں وہی پولو جسے قطب الدین ایبک کے عہد میں چوگان کہتے تھے اور جسے کھیلتے ہوئے ایبک جان ہار بیٹھا اور انارکلی بازار کی ایک گلی میں اب بھی سو رہا ہے ‘ یا‘ خپلو میں رات کو چاندنی اور دریا کے ملاپ کا وہ منظر دیکھنا ہے جو آسمانی ہے اور دیو مالائی ہے اور ناقابل یقین ہے یا''نگر‘‘کے ان سبزہ زاروں سے ملاقات کرنی ہے جن کا مثیل سوئٹزرلینڈ سے لے کر الاسکا تک کہیں بھی نہیں ‘ غرض آپ نے جہاں بھی جانا ہے ‘ ایبٹ آباد کے بہشت زار سے معانقہ کر کے ہی جائیں گے۔
شام کی سیر ایبٹ آباد کا ارمغانِ خاص ہے۔ اس بار ایک مدت بعد بازار کا رخ کیا۔ جی پی او سے ذرا پہلے اب جہاں کمشنر ہزارہ ڈویژن کا دفتر ہے وہاں ایک زمانے میں پیلس ہوٹل تھا۔اُس وقت ہمارا سول سروس کا آغاز تھا۔ اس ہوٹل میں ٹھہرتے رہے۔ جی پی او سے پہلے ‘ جی پی او کی دیوار کے ساتھ ساتھ‘ دائیں طرف مڑ گیا... یہاں ایک بک شاپ ہوتی تھی۔ نظر نہ آئی تو آنکھوں پر دھوکے کا گمان ہوا۔ بار بار دکانوں کو دیکھا۔ بالآخر ایک تاجر سے پوچھا تو وہ مسکرایا۔ ''جناب! وہ بک شاپ تو منڈیاں کے علاقے کو سدھار چکی‘‘ ! یہ پہلا صدمہ تھا۔ کچھ دیر‘ دم بخود‘ وہیں کھڑا رہا اور اس وحشت اثر خبر کو ہضم کرنے کی اپنی سی کوشش کرتا رہا۔سینکڑوں بار اس بک شاپ میں جانا ہوا ہو گا۔ اب وہاں جوتے تھے یا شاید ملبوسات! کونے سے بائیں طرف مڑ گیا۔سامنے جناح روڈ تھی۔دائیں کونے پر ایک دومنزلہ ریستوران ہوا کرتا تھا۔ شاید اس کا نام کاغان ریستوران تھا۔اس کی روٹیاں توے کی ہوتی تھیں۔ بڑی بڑی‘ اور خوب پتلی جو بچوں کو کبھی نہیں بھولیں۔ یا وحشت ! وہ ریستوران کہاں گیا؟ وہاں ایک بیکری منہ چڑا رہی تھی۔اندر جا کر یوں پوچھا جیسے گم شدہ ریستوران اپنا ہی تھا۔ بتایا گیا وہ ختم ہو چکا۔یہ دوسرا صدمہ تھا۔
جناح روڈ پر بائیں طرف مڑ گیا۔ مڑتے ہی آپ کو چند دکانیں نظر آتی ہیں۔ ان دکانوں کے فوراً بعد ایم ای ایس کا انسپیکشن بنگلہ ہے۔ یاد کی سوکھی جلد پر ایک خراش ابھری۔ چالیس پینتالیس سال پہلے یہاں بھی کتابوں کی ایک دکان تھی۔کتابیں یہاں سے بارہا خود ہی ایک ایک الماری چھان کر ڈھونڈیں۔یہیں سے ہیمنگوے کے'' اولڈ مین اینڈ دی سی‘‘ کا ترجمہ ہاتھ آیا تھا۔ صفیہ کے خطوط جاں نثار اختر کے نام ''زیر لب‘‘بھی یہیں سے خریدے تھے۔ آسکر وائلڈ کا طویل محبت نامہ ''ڈی پروفنڈس ‘‘ بھی یہیں ہاتھ لگا۔ اور یہیں ایبٹ آباد ہی میں پڑھ ڈالا۔ چلتا گیا۔ انسپیکشن بنگلے سے آگے بڑھا۔ دائیں طرف پبلک پارک تھا۔ ہجوم اورریڑھیوں پر چاٹ بیچنے ولے سماجی فاصلے کے ساتھ وہی سلوک کر رہے تھے جو چنگیز خان مفتوحہ علاقوں کے ساتھ کرتا تھا۔ اب مجھے '' مونا لیزا‘‘ کی تلاش تھی جو اسی سڑک پر بائیں طرف واقع تھا۔ ایک ایسا ریستوران جو ایبٹ آباد کی شناخت تھا۔جو ہر مسافر اور ہر سیاح کی پناہ گاہ تھا۔ عین شاہراہ کے کنارے واقع ہونے کی وجہ سے یہ ہر ایک کا فطری انتخاب تھا۔اسے ڈھونڈتے ڈھونڈتے آگے نکل گیا۔ پھر واپس آیا مگر یہ عجیب معمہ تھا کہ مونا لیزا ریستوران غائب تھا۔ اب وہاں کچھ اور تھا جو معلوم نہیں کیا تھا۔یہ تیسرا صدمہ تھا۔ آہ ! مونا لیزا ریستوران جو ایبٹ آباد کا جزو لاینفک تھا۔بہت بڑا لینڈ مارک۔ بہت بڑا نشان۔ پرانے وقتوں کا رفیق۔
یہ ایبٹ آباد‘ وہ ایبٹ آباد نہیں جس سے ہم نے محبت کی تھی۔ جو ہمیں پناہ دیتا تھا۔جہاں ہم جون جولائی میں سویٹروں کے ساتھ آتے تھے۔ اب صورت حال ہولناک ہے۔ گاڑیوں کی تعداد روزافزوں ہے۔ کراچی سے لے کر پشاور تک کے اور فیصل آباد سے لے کر لاہور تک کے لوگ یہاں آباد ہو چکے۔رہی سہی کسر غیرملکیوں نے پوری کردی جو واپس جانے کا نام نہیں لے رہے۔پہاڑ کھود دیے گئے ہیں۔ درخت کاٹ دیے گئے ہیں۔ ہر طرف مکان ‘ مکان اور مکان ہی دکھائی دیتے ہیں۔ آبادی مانسہرہ کو چھورہی ہے۔ وہ جو درمیان میں منظر تھے اور وادیاں ‘ مٹا دی گئی ہیں۔ سب سے زیادہ قلق ان پہاڑوں اور پہاڑیوں کا ہے جو انسان کی جُوع الارض کا شکار ہو رہی ہیں۔ کاش کوئی پابندی ہوتی! کاش کوئی ضابطہ‘ کوئی قانون ہوتا۔ کوئی پوچھنے والا ہوتا۔ پلاننگ ہے نہ پروگرامنگ! جنگلی حیات موت کے منہ میں دھکیلی جا رہی ہے۔ جو کبھی ہل سٹیشن تھا اب محض ایک سٹیشن رہ گیا ہے۔ کہاں وہ وقت کہ پنکھوں کی ضرورت نہ تھی کہاں یہ قیامت کا عالم کہ ایئر کنڈیشنر چل رہے ہیں۔ اگر صوبے میں کوئی حکومت ہے اور اگر ایبٹ آباد کا کوئی والی وارث ہے تو فوراً سے پیشتر تین کام کرنے چاہئیں ‘اول: مزید آبادکاروں پر پابندی لگادینی چاہیے۔ دوم: غیر ملکیوں کو شہر سے نکال دینا چاہیے خواہ اس کام میں زور لگے یا زر۔ سوم: درخت کاٹنے اور پہاڑ کھودنے پر عبرتناک سزا دینی چاہیے۔
اور آخری بات... ہزارہ نے الگ صوبہ بننا ہی بننا ہے۔ اسے مؤخر تو کیا جا سکتا ہے‘ روکا نہیں جا سکتا۔ اس لیے کہ وقت کے دھارے کے آگے جو بھی کھڑا ہو گا وقت اسے بہا لے جائے گا۔ جب بھی صوبہ بنے ‘ ایبٹ آباد کو صوبائی دارالحکومت نہیں بننا چاہیے۔ مزید آبادی اور مزید عمارتوں کا بوجھ اسے کراچی بنا دے گا۔ بہترین انتخاب صوبائی ہیڈ کوارٹر کے لیے شنکیاری ہو گا یا اس کے نواح میں کوئی نیا قریہ ! ایبٹ آباد سے محبت کرنے والوں کو ایبٹ آباد بچانے کے لیے اب کچھ کرنا ہی ہو گا۔