یہ اس وقت کی بات ہے جب میری بڑی بیٹی چوتھی یا پانچویں جماعت میں پڑھتی تھی۔ یہ دارالحکومت کا ایک معتبر نیم سرکاری سکول تھا جہاں متوسط مگر تعلیم یافتہ طبقے کے بچے زیر تعلیم تھے ۔مسز رحمان پرنسپل تھیں۔ بااصول اور محنتی ماہرِ تعلیم !ان کا دروازہ والدین کے لیے ہر وقت کھلا رہتا تھا۔ لڑکیاں عام طور پر لڑکوں کے مقابلے میں دن بھر کی سکول کی کارروائی تفصیل سے بتاتی ہیں۔ ایک دن اسی تفصیل کے دوران بیٹی نے بتایا کہ اس کی فلاں کلاس فیلو شیعہ ہے۔ میں سن کر ٹھٹک گیا۔ پوچھا‘ آپ کو کیسے پتہ چلا۔ کہنے لگی: مجھے ایک اور کلاس فیلو نے بتایا ہے۔ اس رات نیند دیر سے آئی۔سوچتا رہا کہ یہ اس ننھی منی سطح پر کس نوعیت کی معلومات لی اور دی جا رہی ہیں۔ دوسرے دن پرنسپل کے دفتر حاضر ہوا۔ مجھے جو کچھ بیٹی نے بتایا تھا ان کے سامنے دہرایا اور پھر عرض کیا کہ میڈیم ! ہماری نسل کو کالج میں بھی نہیں معلوم تھا‘ نہ کبھی سناتھا کہ فلاں کلاس فیلو شیعہ ہے اور فلاں سنی۔ اب آپ کے ادارے میں چوتھی جماعت کی طالبہ کو بھی اس تخصیص کا علم ہے ۔ آخر کیوں؟ کیا یہ معلومات تعلیم کا جزو ہیں ؟ پرنسپل کے جواب نے مجھے خاموش کر دیا۔ انہوں نے کہا ہم کیوں سکھائیں گے یہ‘ اور ہمارا اس میں کیا مفاد ہے ؟ اس نوعیت کی باتیں بچے گھروں سے سن کر اور سیکھ کر آرہے ہیں ۔
اس بات میں رمق بھر مبالغہ نہیں کہ ہم جب بی اے کے طالب علم تھے تب بھی معلوم تھا نہ تجسس کہ کون کس مسلک کا ہے اور کون پنجابی ہے اور کون اردو سپیکنگ۔گورنمنٹ ہائی سکول پنڈی گھیب میں ہمارے ہیڈماسٹر سید فدا حسین شاہ تھے۔ نودولتیوں اور ان پڑھ امرا کا ظہور ابھی نہیں ہوا تھا۔ تعلیم اور استاد کی قدر تھی۔ ایک قصبے میں ہیڈماسٹر کی حیثیت بلند اور مقام عالی ہوتا تھا۔ والد گرامی ایک سنی عالم ِدین تھے۔ سید فدا حسین شاہ شیعہ تھے مگر دونوں کی گاڑھی چھنتی تھی۔ ایک دوسرے کے گھروں میں کثرت سے آنا جانا تھا۔شاہ صاحب کے والد صاحب کبھی کبھی اپنے آبائی علاقے ( ضلع جہلم ) سے آتے تو کچھ وقت ہمارے گھر ضرور بسر کرتے ۔ ریاض نقوی جو بعد میں چیئرمین ایف بی آر کے منصب پر فائز ہوئے اور دیانت و امانت کے لیے معروف تھے ‘ سید فدا حسین شاہ ہی کے فرزند تھے۔
یہ صرف ہمارے گھر اور ہمارے احباب ہی کا معاملہ نہ تھا‘ یہ ایک عمومی صورتحال تھی جو پورے معاشرے میں پائی جاتی تھی۔ باہمی ازدواج عام تھا۔ روزمرہ کی زندگی میں مسلک اور عقیدے کا عمل دخل نہیں تھا۔ واعظین اور ‘ ذاکرین اختلافی مسائل بیان کرتے تھے۔ مناظرے بھی ہوتے تھے مگر ایک تو یہ تقریریں اور مناظرے مسجدوں ‘ امام بارگاہوں اور جلسوں کے حاضرین تک محدود تھے۔ گھروں تک نہیں پہنچتے تھے۔ دوسرے اُس زمانے کے واعظ اور ذاکر ‘ اکثر و بیشتر‘ علمی انداز اختیار کرتے تھے‘ دشنام طرازی تھی نہ آتش انگیزی۔ نفرت تھی نہ فتنہ پروری۔
ستر کی دہائی کے آخر تک یہی صورتحال تھی۔ تب دو تبدیلیاں ایسی آئیں کہ یہ سب کچھ بدل گیا۔ ایک تو پڑوسی ملک میں انقلاب آیا اور دیکھتے ہی دیکھتے اس انقلاب کو برآمد کرنا بھی مشن میں داخل ہو گیا۔دوسرا واقعہ یہ ہوا کہ اس سے ذرا پہلے ہمارے ملک میں جنرل ضیاالحق کی حکومت آ چکی تھی۔جنرل صاحب کے اوصاف بلاشبہ بہت تھے‘ سوویت یونین کی شکست اور انہدام کا سہرا بھی انہی کے سر باندھا جاتا ہے ‘مگر کچھ کرامات ان کے عہدِ ہمایونی کی ایسی ہیں جنہیں یہ ملک آج تک بھگت رہا ہے اور کوئی غیر جانبدار اور انصاف پسند قلمکار ان نقصانات سے انکار نہیں کر سکتا۔ اول: پاکستانی سرحدوں اور پاکستانی ویزا قوانین کی بے حرمتی ! جس کے نتیجے میں ہزاروں جنگجو پاکستان آکر یہیں آباد ہو گئے۔ دوم: افغان مہاجرین کو کیمپوں میں محدود کرنے کے بجائے پورے ملک میں پھیلا دیا گیا۔اس کی تفصیلات ہوشربا ہیں اور نتائج ہولناک۔ تفصیل کا موقع نہیں صرف دو اشارے کیے دیتے ہیں‘ نادرا جیسے حساس ادارے میں یہ غیر ملکی ملازمتیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے اور الیکشن لڑ کر صوبائی اسمبلیوں تک پہنچ گئے۔ سوم: ملک کے طول و عرض میں اسلحہ کی بھرمار۔ چہارم: منشیات کی ریل پیل۔ پنجم: مذہبی طبقات پر حد سے بڑھی ہوئی نوازشات۔ ان نوازشات کی تفصیل کا بھی یہاں وقت ہے نہ گنجائش۔ اس کے نتیجے میں آج یہ طبقات بے پناہ طاقت کے مالک ہیں اور کسی وقت بھی حکومت کی رِٹ کو چیلنج کرسکتے ہیں اور کرتے رہتے ہیں۔ ششم اور باقیات میں نمایاں ترین: فرقہ واریت کی ترویج !
بیرونی اور اندرونی عوامل نے مل کر اس ملک کے مسلکی امن کو غارت کر دیا۔ علمی انداز رخصت ہو گیا۔متانت کی جگہ بحث میں طعنے اور عداوت آگئی۔ اور پھر یو ٹیوب نے اس مناقشت کو انتہا پر پہنچا دیا۔آج سوشل میڈیا مسلکی جنگ و جدل سے چھلک رہا ہے۔عقائد اور حساس فقہی مسائل علما کے ہاتھوں سے نکل کر جہلا اور حمقا کی دسترس میں آ چکے ہیں ۔ سینکڑوں آتشیں تقریریں رات دن دیکھی اور فارورڈ کی جا رہی ہیں۔ سوشل میڈیا پر میدانِ جنگ کا سماں ہے۔ دھول آسمان تک جاپہنچی ہے شور سے کان پھٹے جا رہے ہیں ۔ ان گنہ گار کانوں نے خود سنا ہے نام نہاد علما کو یہ کہتے ہوئے کہ ''ہم تو بات ہی اختلافی مسائل کی کرتے ہیں ‘‘ انا للہ و انا الیہ راجعون ۔جو مسائل صدیوں سے اختلافی چلے آرہے ہیں ان کا حل سوشل میڈیا اور ریٹنگ کی دھونس سے دوسروں پر مسلط کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور مزے کی بات یہ کہ اس آڑ میں کمائی بھی ہو رہی ہے ۔
بھارت کے مسلمانوں کے احوال سے ہمیں عبرت پکڑنی چاہیے راحت اندوری نے کہا تھاع کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے۔ یہاں پاکستان میں ہم ایک دوسرے کے درپے ہیں ۔ ایک بات اچھی طرح ہر مسلک کے علمبرداروں کو سمجھ لینی چاہیے کہ یہ ملک سب کا ہے اور سب برابر کے مالک ہیں۔ یہ کسی ایک گروہ کی جاگیر نہیں ہے۔اس ملک کو سمجھنا ہو تو مسلح افواج کے عام سپاہی پر غور کیجئے۔ بلتستان کے نور بخشی ہیں یا کوئٹہ کے ہزارہ‘ سنی ہیں یا اہل حدیث ‘ بریلوی ہیں یا دیو بندی ‘ پٹھان ہیں یا بلوچی‘ سندھی ہیں یا پنجابی یا کشمیری یا اردو بولنے والے‘ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کس نے جان وطن پر قربان نہیں کی ؟ کس مسلک کے گھر بارڈر سے لاشیں نہیں آئیں اور کون سی زبان بولنے والوں نے دہشت گردی کی جنگ میں سینوں پر گولیاں کھاکر اپنے بچوں کو یتیم اور بیویوں کو بیوہ نہیں کیا؟ خدا اور رسول کا واسطہ ہے‘ اہل بیت اور صحابہ کا واسطہ ہے ایک دوسرے پر گولہ باری بند کرو ‘محبت سے رہو‘ عقائد کے اختلاف کو سوشل لائف پر اثرانداز نہ ہونے دو۔ باہمی تعلقات کو مولوی اور ذاکر کی بھینٹ نہ چڑھاؤ۔ اور آخر میں پوچھنا ہے کہ کیا سوشل میڈیا پر آزادی سے رقص کرنے والے فرقہ وارانہ خونریز مواد پر پابندی لگانے کے لیے صورِ اسرافیل کا انتظار ہو رہا ہے؟ شعلے لپک کر آسمان کو چھو رہے ہیں اور آپ مرصّع‘ شاہانہ‘ دفتروں میں بند ‘ گھومتی کرسیوں پر بیٹھ کر تماشا دیکھ رہے ہیں ! کیا اُس وقت کا انتظار ہے جب یہ شعر پڑھو گے
دل میں ذوقِ وصل و یادِ یار تک باقی نہیں
آگ اس گھر میں لگی ایسی کہ جو تھا جل گیا